مثنوی زہرِ عشق مکمل داستان اردو میں لکھی ہوئی
مثنوی زہرِ عشق مرزا شوق لکھنوی کی لکھی ہوئی مشہور ترین عشقیہ مثنوی ہے۔ اس مثنوی کا انداز بیان دلکش، پُر لطف اور پُر اسرار ہے۔مثنوی زہر عشق، عشق و محبت کی رنگین منظوم داستان ہے۔ آئیے پڑھتے بس مثنوی زہرِ عشق۔
مثنوی زہرِ عشق
آغاز داستان
ایک قصہ عجیب لکھتا ہوں
داستان غریب لکھتا ہوں
تازہ اس طرح کی حکایت ہے
سننے والوں کو جس سے حیرت ہے
جس محلے میں تھا ہمارا گھر
وہیں رہتا تھا ایک سوداگر
ایک دختر تھی اس کی ماہ جبین
شادی اس کی نہیں ہوئی تھی کہیں
ثانی رکھتی نہ تھی وہ صورت میں
غیرت حور تھی حقیقت میں
اس سن و سال پر کمالی خلیق
چال ڈھال انتہ کی نستعلیق
تھی زمانے میں بے عدیل و نظیر
خوش گلو، خوش جمال، خوش
ایک دن چرخ پر جو ابر آیا
کچھ اندھیرا سا ہر طرف چھایا
کھل گیا جب برس کے و ہ بادل
قوس تب آسماں پر آئی نکل
دل مرا بیٹھے بیٹھے گھبرایا
سیر کرنے کو بام پر آیا
دیکھا اک سمت جو اٹھا کے نظر
سامنے تھی وہ دخت سوداگر
ہوئی میری جو اس کی چار نگاہ
منہ سے بے ساختہ نکل گئی آہ
سامنے وہ کھڑی تھی ماہ منیر
چپ کھڑا تھا میں صورت تصویر
اسی صورت سے ہو گئی جب شام
لائی پاس ان کے اک کنیز پیام
بیٹھی ناحق بھی ہولیں کھاتی ہیں
اماں جان آپ کو بلاتی ہیں
گیسو، رخ پر ہوا سے ہلتے ہیں
چلیے اب دونوں وقت ملتے ہیں
سن کے لونڈی کے منہ سے یہ پیغام
گئی کوٹھے کے نیچے وہ گل فام
گزرے کچھ دن جو رنج کے مارے
زرد رخسار ہو گئے سارے
ہو گئی پھر تو ایسی حالت زار
جیسے برسوں کا ہو کوئی بیمار
دیکھے ماں باپ نے جو یہ انداز
روح، قالب سے کر گئی پرواز
پوچھا مجھ سے یہ کیا ہے حال ترا
کس طرف ہے بندھا خیال ترا
رنج کس شعلہ رو کا کھاتے ہو
شمع کی طرح پگھلتے جاتے ہو
کھاتے ہو، پیتے ہو، نہ سوتے ہو
روز اٹھ اٹھ کے شب کو روتے ہو
میرے بچے کو جو کڑھائے جان
سات بار اس کو میں کروں قربان
اللہ آمیں سے ہم تو یوں پالیں
آپ آفت میں دل کو یوں ڈالیں
تیرے پیچھے کی تلخ سب اوقات
دن کو دن سمجھی اور نہ رات کو رات
پالا کس کس طرح تمہیں جانی
کون منت تھی جو نہیں مانی
روشنی مسجدوں میں کرتی تھی
جا کے درگاہ چوکی بھرتی تھی
اب جو نام خدا جوان ہوئے
ایسے مختار میری جان ہوئے
ہاں میاں سچ ہے یہ خدا کی شان
تم کرو جان بوجھ کر ہلکان
ہم تو یوں پھونک پھونک رکھیں قدم
آپ دیتے پھریں ہر ایک پہ دم
ہم یہاں رنج و غم میں روتے ہیں
آپ غیروں پہ جان کھوتے ہیں
یوں ستاؤگے جان کر ہم کو
تھی نہ اس روز کی خبر ہم کو
دیکھتی ہوں جو تیرا حال زبوں
خشک ہوتا ہے میرے جسم کا خوں
یوں تو برباد تو شتاب نہ کر
مٹی ماں باپ کی خراب نہ کر
کچھ تو کہہ ہم سے اپنے قلب کا حال
کس کا بھایا ہے تم کو حسن و جمال
دل ہوا تیرا شیفتہ کس کا
سچ بتا ہے فریفتہ کس کا
کیسا دو دن میں جی نڈھال ہوا
دائی بندی کا کیا یہ حال ہوا
آئینہ تو اٹھا کے دیکھ ذرا
ست گیا دو ہی دن میں منہ کیسا
سدھ نہ کھانے کی ہے نہ پینے کی
کون سی پھر امید جینے کی
کس کی الفت میں ہے یہ حال کیا
کچھ نہ ماں باپ کا خیال کیا
دل پہ کیا گزری ہے ملال تو کہہ
منہ سے ناشدنی اپنا حال تو کہہ
یوں اگر ہو گیا تو سودائی
دور پہونچے گی اس کی رسوائی
کر دیا کس نے ایسا آوارہ
کہ نہیں بنتا اب کوئی چارہ
میرے تو دیکھ کر گئے اوسان
لیلیٰ مجنوں کے تو نے کاٹے کان
باتیں یہ والدین کی سن کر
اور اک قلب پر لگا نشتر
میں تو کھائے ہوئے تھا عشق کا تیر
پر ہوئی ان کے دل پہ بھی تاثیر
چھلکے آنکھوں کے دونوں پیمانے
دل لگا آپ آپ گھبرانے
ہو گئی جب کمال حالت زار
جی میں باقی رہا نہ صبر و قرار
لکھنے پڑھنے سے تھا جو اس کو ذوق
سوچ کر دل میں لکھا اک خط شوق
بھیجا مجھ کو وہ بے خطر نامہ
ڈر سے لکھا مگر نہ سر نامہ
ایک ماما نے آ کے چپکے سے
خط دیا ان کا ہاتھ میں میرے
Masnavi Zehr-e-Ishq by Mirza Shauq Lakhnavi written in Urdu Text
نامۂ عشق : مثنوی زہرِ عشق
پڑھ کے میں نے لکھا یہ ان کو جواب
کیا لکھوں تم کو اپنا حال خراب
پہنچا جس وقت سے ترا مکتوب
زندگی کا بندھا ہے کچھ اسلوب
دل پہ آفت عجیب آئی ہے
جان بچ جائے تو خدائی ہے
اب جو پہنچی یہ آپ کی تحریر
ہے یہ لازم کہ وہ کرو تدبیر
سختیاں ہجر کی بدل جائیں
دل کی سب حسرتیں نکل جائیں
دے کے خط میں نے یہ کہا اس سے
’’جلد اس کا جواب لا اس سے‘‘
پہنچا جب ان تلک مرا مکتوب
ہنس کے بولی کہ ’’واہ وا کیا خوب‘‘
جواب نامۂ عشق : مثنوی زہرِ عشق
پھر کیا یہ جواب میں تحریر
کچھ قضا تو نہیں ہے دامن گیر
ایسی باتیں تھیں کب یہاں منظور
تھا فقط تیرا امتحاں منظور
یہ تو لکھے تھے سب ہنسی کے کلام
ورنہ ان باتوں سے مجھے کیا کام
تم پہ میں مرتی! کیا قیامت تھی
کیا مرے دشمنوں کی شامت تھی
کالا دانہ ذرا اتر والو
رائی لون اس سمجھ پہ کر ڈالو
تجھ پر مرتے بھی گر مرے بدخواہ
یوں نے لکھتی کبھی معاذ اللہ
جان پاپوش سے نکل جاتی
پر طبیعت نہ یوں بدل جاتی
جی میں ٹھانی ہے کیا بتاؤ تو
خانگی، کسبی کوئی سمجھے ہو
دیکھ تحریر فیل لائے آپ
خوب جلدی مزے میں آئے آپ
طالب وصل جو ہوئے ہم سے
ہے گا سادہ مزاج جم جم سے
رہی کچھ روز تو یہی تحریر
پھر موافق ہوئی مری تقدیر
ہوئے اس گل سے وصل کے اقرار
اٹھ گئے درمیاں سے سب تکرار
جو کہا تھا ادا کیا اس نے
وعدہ اک دن وفا کیا اس نے
رات بھر میرے گھر میں رہ کے گئی
صبح کے وقت پھر یہ کہہ کے گئی
لو مری جان! جاتی ہوں اب تو
یاد رکھیے گا میری صحبت کو
پیار کرتی تھی جو وہ غیرت حور
رکھا ملنے کا اس نے یہ دستور
پنج شنبے کو جاتی تھی درگاہ
واں سے آتی تھی میرے گھر وہ ماہ
عیش ہونے لگے مرے ان کے
غیر جلنے لگے یہ سن سن کے
اتفاق ایسا پھر ہوا ناگاہ
دو مہینے تک نہ آئی وہ ماہ
قطع سب ہو گئے پیام و سلام
نہ رہی شکل راحت و آرام
دل کو تشویش تھی یہ حد سے زیاد
دفعتہً پڑ گئی یہ کیا افتاد
نہیں معلوم کیا پڑی افتاد
جو فراموش کی ہماری یاد
مثنوی زہرِ عشق : دو مہینے کے بعد معشوقہ کا پھر آنا
آئی نو چندی اتنے میں ناگاہ
اس بہانے سے آئی وہ درگاہ
بسکہ مرتی تھی نام پر میرے
چھپ کے آئی وہاں سے گھر میرے
تھی جو فرصت نہ اشک باری سے
اتری روتی ہوئی سواری سے
پھر لپٹ کر مرے گلے اک بار
حال کرنے لگی وہ یوں اظہار
اقربا میرے ہو گئے آگاہ
تم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہ
مشورے ہو رہے ہیں آپس میں
بھیجتے ہیں مجھے بنارس میں
جائے عبرت سرائے فانی ہے
مورد مرگ نوجوانی ہے
دنیا کی بے ثباتی اور آخری وصیت : مثنوی زہرِ عشق
اونچے اونچے مکان تھے جن کے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
کل جہاں پر شگوفہ و گل تھے
آج دیکھا تو خار بالکل تھے
جس چم میں تھا بلبلوں کا ہجوم
آج اس جا ہے آشیانہ بوم
بات کل کی ہے نوجواں تھے جو
صاحب نوبت و نشاں تھے جو
آج خود ہیں، نہ ہے مکاں باقی
نام کو بھی نہیں نشاں باقی
غیرت حور مہ جبیں نہ رہے
ہیں مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے
جو کہ تھے بادشاہ ہفت اقلیم
ہوئے جا جا کے زیر خاک مقیم
کوئی لیتا بھی اب نہیں ہے نام
کون سی گور میں گیا بہرام
اب نہ رسم، نہ سام باقی ہے
اک فقط نام ہی نام باقی ہے
تھے جو خود سر جہان میں مشہور
خاک میں مل گیا سب ان کا غرور
عطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے
نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے
رشک یوسف جو تھے جہاں میں حسیں
کھا گئے ان کو آسمان و زمیں
ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے
یہی دنیا کا کارخانہ ہے
ہے نہ شیریں نہ کوہ کن کا پتا
نہ کسی جا ہے نل دامن کا پتا
بوئے الفت تمام پھیلی ہے
باقی اب قیس ہے نہ لیلیٰ ہے
صبح کو طائران خوش الحان
پڑھتے ہیں کل من علیہا فان
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
ہم بھی گر جان دے دیں کھا کر سم
تم نہ رونا ہمارے سر کی قسم
دل کو ہم جولیوں میں بہلانا
یا مرے قبر پر چلے آنا
جا کے رہنا نہ اس مکان سے دور
ہم جو مر جائیں تیری جان سے دور
روح بھٹکے گی گر نہ پائے گی
ڈھونڈھنے کس طرف کو جائے گی
میرے مرنے کی جب خبر پانا
یوں نہ دوڑے ہوئے چلے آنا
جمع ہولیں سب اقربا جس دم
رکھنا اس وقت تم وہاں پہ قدم
کہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تم
ساتھ تابوت کے نہ رونا تم
ہو گئے، تم اگرچہ سودائی
دور پہونچے گی میری رسوائی
لاکھ تم کچھ کہو نہ مانیں گے
لوگ عاشق ہمارا جانیں گے
طعنہ زون ہوں گے سب غریب و امیر
قبر پر بیٹھنا نہ ہو کے فقیر
سامنا ہو ہزار آفت کا
پاس رکھنا ہماری عزت کا
جب جنازہ مرا عزیز اٹھائیں
آپ پلٹیں وہاں نہ اشک بہائیں
میری منت پہ دھیان رکھئے گا
بند اپنی زبان رکھئے گا
تذکرہ کچھ نہ کیجیے گا مرا
نام منہ سے نہ لیجیے گا میرا
اشک آنکھوں سے مت بہائیے گا
ساتھ غیروں کی طرح جائیے گا
آپ کاندھا نہ دیجئے گا مجھے
سب میں رسوا نہ کیجئے گا مجھے
رنگ دل کے بدل نہ جائیں کہیں
منہ سے نالے نکل نہ جائیں کہیں
ساتھ چلنا نہ سر کے بال کھلے
تا کسی شخص پر نہ حال کھلے
ہوتے آفت کے ہیں یہ پرکالے
تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے
ہو بیاں گر کسی جگہ مرا حال
تم نہ کرنا کچھ اس طرف کو خیال
رنج فرقت مرا اٹھا لینا
جی کسی اور جا لگا لینا
رنج کرنا مرا نہ میں قرباں
سن لو گر اپنی جان ہے تو جہاں
دے نہ اس کو خدا کبھی کوئی درد
ہوتا نازک کمال ہے دل مرد
رو لینا میری قبر کے پاس
تا نکل جائے تیرے دل کی بھڑاس
آنسو چپکے سے دو بہا لینا
قبر میری گلے لگا لینا
اگر آ جائے کچھ طبیعت پر
پڑھنا قرآن میری تربت پر
غنچہ دل مرا کھلا جانا
پھول تربت پر دو چڑھا جانا
روکے کرنا نہ ا پنا حال زبوں
یوں نہ ہو جائے دشمنوں کو جنوں
دیکھئے کس طرح پڑے گی کل
سخت ہوتی ہے منزل اول
ہے یہ حاصل سب اتنی باتوں سے
مٹی دینا تم اپنے ہاتھوں سے
عمر بھر کون کس کو روتا ہے
کون صاحب کسی کا ہوتا ہے
کبھی آ جائے گر تمہارا دھیان
جاننا ہم پہ ہو گئی قربان
پھر ملاقات دیکھیں ہو کہ نہ ہو
آج دل کھول کے گلے مل لو
خوب سا آج دیکھ بھال لو تم
دلکی سب حسرتیں نکال لو تم
آؤ اچھی طرح سے کر لو پیار
کہ نکل جائے کچھ تو دل کا بخار
دل میں باقی رہے نہ کچھ ارمان
خوب مل لو گلے سے، میں قربان
حشر تک ہو گی پھر یہ بات کہاں
ہم کہاں ، تم کہاں ، یہ رات کہاں
دل کو اپنے کرو ملول نہیں
رونے دھونے سے کچھ حصول نہیں
ہم کو گاڑھے جو اپنے دل کو کڑھائے
ہم کو ہے ہے کرے جو اشک بہائے
باہیں دونوں گلے میں ڈال لو آج
جو جو ارمان ہوں نکال لو آج
کس کو کل بیٹھ کر کرو گے پیار
کس کی لو گے بلائیں تم ہر بار
کل گلے سے کسے لگاؤ گے
یوں کسے گود میں بٹھاؤ گے
حال کس کا سنائے گی آ کر
کس کی ماما بلائے گی آ کر
یاد اتنی تجھے دلاتے جائیں
پان کل کے لئے لگاتے جائیں
دیکھ لو آج ہم کو جی بھر کے
کوئی آتا نہیں ہے پھر مر کے
ختم ہوتی ہے زندگانی آج
خاک میں ملتی ہے جوانی آج
سمجھو اس کو شب برات کی رات
ہم ہیں مہماں تمہارے رات کی رات
پھل اٹھایا نہ زندگانی کا
نہ ملا کچھ مزا جوانی کا
دل میں لے کر تمہاری یاد چلے
باغ عالم سے نامراد چلے
جب تلک چرخ بے مدار رہے
یہ فسانہ بھی یادگار رہے
بولی گھبرا کے پھر : ٹھہر مری جان
کچھ سنا بھی کہ کیا بجا اس آن
حسرت دل نگوڑی باقی ہے
اور یہاں رات تھوڑی باقی ہے
گود میں اپنی پھر بٹھا لو جان
پھر گلے سے ہمیں لگا لو جان
ڈال دو پھر گلے میں ہاتھوں کو
پھر گلوری چبا کے منہ میں دو
پھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت یار
کر لو پھر ہم کو بھینچ بھینچ کے پیار
پھر مرے سر پہ رکھ دو سر اپنا
گال پر گال رکھ دو پھر اپنا
پھر اسی طرح منہ کو منہ سے ملو
پھر وہی باتیں پیار کی کر لو
لہر پھر چڑھ رہی ہے کالوں کی
بو سنگھا دو تم اپنے بالوں کی
پھر ہم اٹھنے لگیں بٹھا لو تم
پھر بگڑ جائیں ہم منا لو تم
پھر لبوں کو چبا کے بات کرو
پھر ذرا مسکرا کے بات کرو
پھر بلائیں تمہاری یار لیں ہم
آؤ پھر سر سے سر اتار لیں ہم
اور نہ اس طرح سے تو زار و قطار
دشمنوں کو کہیں چڑھے نہ بخار
اب تو کیوں ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہے
کیوں مرے دل کے ٹکڑے کرتا ہے
میں ابھی تو نہیں گئی ہوں مر
کیوں سجائی ہیں آنکھیں رو رو کر
کر نہ رو رو کے اپنا حال زبوں
ارے ظالم ابھی تو جیتی ہوں
ایسے قصے ہزار ہوتے ہیں
یوں کہیں مرد وے بھی روتے ہیں
تم تو اتنے میں ہو گئے رنجور
تھک گئے اور ابھی ہے منزل دور
اسی غم نے تو مجھ کو مارا ہے
صدمہ تیرا نہیں گوارا ہے
جان ہم نے تو اس طرح کھوئی
کون تیری کرے گا دل جوئی؟
کون روئے گا اس طبیعت کو
کس سے کہہ جاؤں اس نصیحت کو
میں کہاں ہوں جو ساتھ دوں تیرا
ہاتھ میں کس کے ہاتھ دوں تیرا
پر میں اب اس کو کیا کرو کم بخت
آسماں دور ہے زمیں ہے سخت
گو کہ عقبیٰ میں رو سیاہ چلی
مگر اپنی سی میں نباہ چلی
جی کو تم پر فدا کیا میں نے
حق وفا کا ادا کیا میں نے
بولی پھر زانوؤں پہ مار کے ہاتھ
’’نہیں معلوم اب ہے کتنی رات‘‘
جو جو گھڑیال واں بجاتا ہے
جی مرا سنسنایا جاتا ہے
یوں تو کوئی نہ درد و غم میں گھرے
پھولے جاتے ہیں ہاتھ پاؤں مرے
گو تو بیٹھا ہوا ہے پاس مرے
پر ٹھکانے نہیں حواس مرے
خاک تسکین جان زار کریں
اب وصیت کریں کہ پیار کریں
عاشق کا جواب : مثنوی زہرِ عشق
سن کے میں نے دیا یہ اس کو جواب
میرے دل کو بس اب کرو نہ کباب
مجھ پہ یہ دن تو کبریا نہ کرے
تم مرد، میں جیوں، خدا نہ کرے
جان دے دو گی تم جو کھا کر سم
میں بھی مر جاؤں گا خدا کی قسم
جو یہ دیکھے گا خوب روئے گا
آگے پیچھے جنازہ ہوئے گا
دل ہی دل میں الم اٹھاتی ہو
جان دیتی ہو، زہر کھاتی ہو
پہنچا ماں باپ سے جو تم کو الم
اس کا کرنا نہ چاہئے کچھ غم
جو کہ ہوتے ہیں قوم کے اشراف
وہ یوں ہی کرتے ہیں قصور معاف
کچھ تمہیں پر نہیں ہے یہ افتاد
سب کے ماں باپ ہوتے ہیں جلاد
صدمہ ہر اک پہ یہ گزرتا ہے
زہر کھا کھا کے کوئی مرتا ہے
شکوہ ماں باپ کا تو ناحق ہے
ان کا اولاد پر بڑا حق ہے
ہوں جو ناراض یہ قیامت ہے
ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے
تم تو نام خدا سے ہو دانا
اس پہ رتبہ نہ ان کا پہچانا
کیا بھروسہ حیات کا ان کی
نہ برا مانو بات کا ان کی
ہوش رہتے نہیں ہیں اس سن کے
یہ تو مہمان ہیں کوئی دن کے
اتنی سی بات کا غبار ہے کیا
ان کے کہنے کا اعتبار ہے کیا
غور سے کیجئے جو دل میں خیال
ان کا غصہ نہیں ہے جائے ملال
جواب معشوق کی طرف سے : مثنوی زہرِ عشق
سن کے اس نے دیا یہ مجھ کو جواب
ہم نے دیکھی نہیں ہے چشم عتاب
بے حیا ایسی زندگی کو سلام
منہ پہ آئے نہ تھے کبھی یہ کلام
طعنے سنتی ہوں دو مہینے سے
موت بہتر ہے ایسے جینے سے
خون دل کب تلک پئے کوئی
بے حیا بن کے کیا جیے کوئی
پر مرے جیتے جی نہ بہر خدا
اپنے مرنے کا ذکر منھ پر لا
تم نے جی دینے کئے جو کی تدبیر
حشر کے روز ہوں گی دامن گیر
تو سلامت جہاں میں رہ مری جان
نکلے ماں باپ کا ترے ارمان
واسطے میرے اپنا دل نہ کڑھا
چاند سی بنو گھر میں بیاہ کے لا
چار دن کے ہیں نالہ و فریاد
عمر بھر کون کس کو کرتا ہے یاد
لطف دینا کے جب اٹھاؤ گے
ہم کو دو دن میں بھول جاؤ گے
رخصتی ملاقات : مثنوی زہرِ عشق
تھا یہی ذکر جو بجا گھڑیال
سنتے ہی اس کے ہو گئی بے حال
ہو گیا فرط غم سے چہرہ زرد
دست و پا تھر تھرا کے ہو گئے سرد
مردنی رخ پہ چھا گئی اس کے
دل میں وحشت سما گئی اس کے
اتنے میں صبح کی بجی وردی
دونی چہرے کی ہو گئی زردی
بید کی طرح جسم تھرایا
سر سے لے پاؤں تک عرق آیا
باتیں کرتی جو تھی وہ بھول گئی
دم لگا چڑھنے سانس پھول گئی
بولی گھبرا کے : ’’رہیو اس کے گواہ
اور کہا ’’لا الہ الا اللہ’‘
اب فقط یہ ہے خوں بہا میرا
بخش دیجئے کہا سنا میرا‘‘
کہہ کے پھر یہ چمٹ گئی اک بار
اور کیا خوب بھینچ بھینچ کے پیار
سر سے لے کر بلائیں تا بہ قدم
بولی : ’’تم پر نثار ہوتے ہیں ہم‘‘
پھر یہ بولی وہ پونچھ کر آنسو
’’میرے سر کی قسم نہ کڑھیو تو‘‘
آزمائی تھی تجھ کو کستی تھی
میں ترے چھیڑنے کو ہنستی تھی
کہہ کے یہ بات ہو گئی وہ سوار
یاں بندھا آنسوؤں کا چشم سے تار
آتی تھی یاد جب وصیت یار
وہم لاتا تھا دل ہزار ہزار
ہر گھڑی تھا جو اضطراب فزوں
چپکا روتا تھا بیٹھا میں محزوں
کہ اھا ایک سمت سے دو غل
ہوش جس سے کہ اڑ گئے بالکل
ہو گیا دل کو اس طرح کا ہراس
آئے سو سو طریق کے وسواس
کہا اک دوست سے کہ تم جا کر
جلد اس شور و غل کی لاؤ خبر
کیااس طرح آ کے مجھ سے بیاں
کہ یہاں سے ہے اک قریب مکاں
باغ کے پاس جو بنا ہے گھر
واں فروکش تھا ایک سوداگر
یوں تو اک شور راہ بھر میں ہے
پر یہ آفت انہیں کے گھر میں ہے
صاف کھلتا نہیں ہے یہ اسرار
مرگیا کوئی یا کہ ہے بیمار
ہر بشر ہو رہا ہے دیوانہ
کوئی مرتا ہے صاحب خانہ
تھمتا اک دم بھی واں خروش نہیں
کس سے پوچھیں ؟ کسی میں ہوش نہیں
روتے جس درد سے ہیں وہ اس دم
دیکھا جاتا نہیں خدا کی قسم
کہہ گئی تھی جو وہ کہ کھاؤں گی زہر
میں یہ سمجھا کہ ہو گیا وہی قہر
گو حیا سے نہ اس کا نام لیا
دونوں ہاتھوں سے دل کو تھام لیا
دوستوں نے جو دیکھی یہ صورت
بولے اس طرح از راہ الفت
حال دل یوں تمہارا غیر تو ہے
مگر اس وقت کیا ہے؟ خیر تو ہے
کون سی آفت آ گئی اس دم
مردنی منہ پہ چھا گئی اس دم
کیا ہے جو اتنے بے قرار ہو اب
کوئی مر جائے اس سے کیا مطلب
شہر میں روز لوگ مرتے ہیں
خفقان اس کا کوئی کرتے ہیں
سن کے ماں باپ کیا کہیں گے بتاؤ
ہوش پکڑو ذرا حواس میں آؤ
تم کو کیا ہے جو جان کھوتے ہو
بے سبب آپ ہی آپ روتے ہو
نہ دیا ان کو مارے غم کے جواب
ڈھانپ کر منہ کیا بہانہ خواب
حال دل سینے میں ہوا جو تباہ
بیٹھا کمرے میں آن کر سر راہ
دیکھا برپا ہے اک حشر کا غل
بھیڑ سے بند راہ ہے بالکل
اس طرف سے جو لوگ آتے ہیں
یہی آپس میں کہتے جاتے ہیں
حال ان کا بھی جائے رقت ہے
داغ، اولاد کا قیامت ہے
نوچ ڈالے ہیں سارے سر کے بال
کیا پریشاں ہے والدین کا حال
آفت تازہ سر پہ ہے آئی
بک رہے ہیں مثال سودائی
جو کہ تھے اس میں صاحب اولاد
حال ابتر تھا ان کا واحد سے زیاد
کہتے تھے کوٹ کر سر و سینہ
کیوں نہ دشوار ان کو ہو جینا
مرگ اولاد کا وہ ماتم ہے
رنج و غم جس قدر کریں کم ہے
کوئی کہتا تھا کیسی آفت ہے
نوجواں مرنا بھی قیامت ہے
کوئی بولا کہ ہے سبھی کو ملال
دیکھا جاتا نہیں ہے باپ کا حال
نہ کسی کو ہے صبر نے آرام
دیکھنے والے رو رہے ہیں تمام
معشوقہ کا جنازہ : مثنوی زہر عشق
پھوڑ ڈالے ہیں سب نے سر اپنے
سروپا کی نہیں خبر اپنے
بنئے بقال جان کھوتے ہیں
سارے دوکان دار ہوتے ہیں
حال دیکھا جو میں نے یہ اٹھ کر
ہل گیا سپنے میں دل مضطر
عشق کی جو تھی دل کو بیماری
غش کا عالم سا ہو گیا طاری
دو گھڑی بعد پھر جو آیا ہوش
دیکھا برپا عجب ہے جوش و خروش
آگے آگے ہے کچھ جلوس رواں
سر کھلے کچھ ہیں پیچھے پیر و جواں
سن رسیدہ ہیں عورتیں کچھ ساتھ
سینہ و سر پہ مارتی ہیں ہاتھ
کوئی ماں ہے، کوئی دائی ہے
کوئی انا، کوئی کھلائی ہے
جب وہ بھرتے ہیں غم سے آہیں سرو
سننے والوں کے دل میں ہوتا درد
ہوتا غیروں کو ہے ملال ان کا
دیکھا جاتا نہیں ہے حال ان کا
کچھ بیاں ایسے ہوتے جاتے ہیں
راستے والے روتے جاتے ہیں
اس کے پیچھے پڑی پھر اس پہ نگاہ
کہ نہ دیکھے بشر معاذ اللہ
شامیانہ نیا زری کا ہے
نیچے تابوت اس پری کا ہے
سہرا اس پر بندھا ہے اک زر تار
جیسے گلشن کی آخری ہو بہار
تھی پڑی اس پہ ایک چادر گل
جس سے خوشبو وہ راہ تھی بالکل
عود سوز آگے آگے روشن تھے
مر گئے پر بھی لاکھ دلہن تھے
بھیڑ تابوت کے تھی ایسی ساتھ
جیسے آئے کسی دلہن کی برات
سب وضیع و شریف تھے ہمراہ
بھیڑ تھی اس قدر کہ بند تھی راہ
ساتھ تھے خویش و اقربا سارے
رو رہے تھے غریب بیچارے
پیچھے پیچھے تھا سب کے سوداگر
مو پریشاں، اداس، خاک بسر
سب امیر و فقیر روتے تھے
دیکھ کر راہ گیر روتے تھے
سب کے پیچھے پنس میں تھی مادر
کہتی جاتی تھی اس طرح رو رو کر
تیری میت پہ ہو گئی میں نثار
کم سخن ہائے میری غیرت دار
دل پہ جو گزری کچھ بیان نہ کی
کچھ وصیت بھی میری جان نہ کی
کچھ نہیں ماں کی اب خبر تم کو
کس کی یہ کھا گئی نظر تم کو
دل ضعیفی میں مرا توڑ گئیں
بیٹا اس ماں کو کس پہ چھوڑ گئیں
تازہ پیدا جگر کا داغ ہوا
گھر مرا آج بے چراغ ہوا
دل کو ہاتھوں سے کوئی متا ہے
جی سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے
زہر دے دے کوئی میں کھا جاؤں
یا زمیں شق ہو میں سماجاؤں
داغ تیرا جگر جلاتا ہے
چاند سا مکھڑا یاد آتا ہے
مٹ گیا لطف زندگانی کا
دل کو غم ہے تری جوانی کا
بیاہ تیرا رچانے پائی نہ میں
کوئی منت بڑھانے پائی نہ میں
تیری صورت کے ہو گئی قرباں
چلیں دنیا سے کیسی پُر ارماں
ہوئیں کس بات پر خفا بولو
اماں داری ذرا جواب تو دو
بولتیں تم نہیں پکارے سے
اب جیوں گی میں کس سہارے سے
کیا قضا نے جگر پہ داغ دیا
آج گھر میرا بے چراغ کیا
نکلا ماں باپ کا نہ کچھ ارمان
ہائے بیٹا نہ تم چڑھیں پروان
ایسی اس ماں سے ہو گئیں بیزار
لی نہ خدمت بھی پڑ کے کچھ بیمار
نہ جیوں گی ترے فراق میں میں
دل تڑپتا ہے آنکھیں ڈھونڈتی ہیں
کس مصیبت میں پڑ گئی بیٹا
کوکھ میری اجڑ گئی بیٹا
عمر کٹنی تھی ایسے صدمے میں
ٹھوکریں تھیں بدی بڑھاپے میں
سن کے اس طرح اس کی ماں کی بین
اور سینے میں دل ہوا بے چین
تھی مصیبت جو اس پری کی یاد
سب کے پیچھے میں ہولیا ناشاد
گہ تڑپتا تھا صورت بسمل
بیٹھ جاتا تھا گاہ تھام کے دل
مرغ بسمل کی میری صورت تھی
یاں گراں ، واں گرا، یہ حالت تھی
الغرض پہنچا ساتھ ان کے وہاں
دفن کا اس کے تھا مقام جہاں
قبر کھدتی جو داں نظر آئی
لاکھ روکا پہ چشم بھر آئی
طاقت ضبط گریہ جب نہ رہی
دل سے میں نے یہ اپنے بات کہی
کہہ کہ کیا مر گئی وہ جان تجھے
کچھ وصیت کا بھی ہے دھیان تجھے
ہو نہ للّٰلہ بے قرار اتنا
ضبط کر غم کو ہوسکے جتنا
دل کو سمجھا کے یہ گے میں وہاں
جمع سب ان کے اقربا تھے جہاں
دل آفت زدہ کو بہلا کر
چپکا بیٹھا میں اک طرف جا کر
اشک آنکھوں سے گو نہ بہتے تھے
لوگ پر دیکھ دیکھ کہتے تھے
حال چہرے کا آج کیسا ہے
خیر تو ہے مزاج کیسا ہے
لال آنکھیں ہیں تمتماتے گال
وجہ کیا ہے بیاں کیجئے احوال
منہ پہ اک مردنی سی چھائی ہے
چہرے پہ چھٹ رہی ہوائی ہے
غل ہوا اتنے میں ’’سب آتے جائیں ‘‘
فاتحہ پڑھتے جائیں جاتے جائیں
سن کے یہ سب گئے وہاں احباب
بخشا پڑھ پڑھ کے فاتحے کا ثواب
جب کہ اس سے بھی ہو گئی فرصت
آئے جتنے تھے ہو گئے رخصت
پائی تنہا جو میں نے یار کی قبر
دل کو باقی رہی نہ طاقت صبر
تھا جو اس شمع رو کا دیوانہ
دوڑ کر آیا مثل پروانہ
گر پڑا آ کے قبر پر اک بار
اور رونے لگا میں زار و نزار
نہ رہا تھا جو اختیار میں دل
لوٹا تربت پہ صورت بسمل
دل عجب کچھ مزا اٹھاتا تھا
قبر اس کی گلے لگاتا تھا
دیکھا آنکھوں سے تھا جو ایسا قہر
کھا گیا میں بھی گھر میں آ کر زہر
دوپہر تک تو قے رہی جاری
بعد پھر اس کے غش ہوا طاری
تین دن تک رہی وہ بے ہوشی
ہو گئی جس سے خود فراموشی
خواب : مثنوی زہرِ عشق
عین غفلت میں پھر یہ دیکھا خواب
کہ یہ کہتی ہے وہ بہ چشم عتاب
سن تو رے تو نے تو زہر کیوں کھایا
کچھ وصیت کا بھی نہ پاس آیا
ہوئے خود رفتہ ایسے حد سے زیاد
دو ہی دن میں بھلا دی میری یاد
دل سے میرا بھلا دیا کہنا
ہاں یہی چاہئے تھا کیا کہنا
کہہ کے یہ جب وہ ہو گئی روپوش
کھل گئی آنکھ آگیا مجھے ہوش
زہر کا پھر نہ کچھ اثر پایا
اک تعجب سا مجھ کو لے آیا
آشنا و دوست سب کا تھا یہ بیان
مردے جی اٹھتے ہیں خدا کی شان
ہو گیا والدین کا یہ سرور
بڑھ گیا دل کا چین چشم کا نور
اقربا سن کے سب ہوئے دل شاد
آ کے دینے لگے مبارک باد
حاصل اتنا تھا کچھ کہانی سے
ہم رہے جتنے سخت جانی سے
عشق میں ہم نے یہ کمائی کی
دل دیا غم سے آشنائی کی
0 تبصرے