Ticker

6/recent/ticker-posts

نفع و نقصان کے بارے میں کاش یہی سوچ ہماری ہوجائے

نفع و نقصان کے بارے میں کاش یہی سوچ ہماری ہوجائے


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

بہت دنوں پہلے ملک برطانیہ (انگلینڈ) کی دار الحکومت لندن کے ایک کالج کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا تھا، جس میں ایک جرمن طالب علم کے حسابی اور نکتہ رس ذھن پر رشک بھی آیا تھا اور تعجب خیز مسرت کا اظہار بھی کیا تھا۔

آج کے پیغام میں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں اس واقعہ کو اپنے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ یقینا فرد اور قوم کی سطح پر اس واقعہ میں عبرت کے بہت سے پہلو اور گوشے پنہاں اور پوشیدہ ہیں۔

کچھ سالوں پہلے کی بات ہے کہ لندن کے ایک کالج میں جہاں بہت سے طلبہ پڑھتے تھے۔ چینی بھی تھے، جاپانی بھی، مصری بھی تھے، ہندوستانی بھی، جرمنی بھی تھے اور فرانسیسی بھی۔ اور خود اس ملک، برطانیہ کے طلبہ بھی تھے جہاں یہ کالج قائم تھا اور ہے۔ ایک روز کالج کے ایک پروفیسر نے تمام لڑکوں کو اکٹھا کرکے ایک سوال کیا۔ پوچھا بتاؤ؟ اگر سمندر میں دو اشرفیاں گر پڑیں اور ڈوب جائیں اور ان کے نکالنے میں دس ہزار اشرفیاں خرچ ہوتی ہوں تو ان اشرفیوں کو نکالنا چاہیے یا نہیں اور دو اشرفیوں کے لئے دس ہزار اشرفیاں خرچ کرنے چاہئیں یا نہیں؟


تمام ملکوں کے لڑکوں کا متفقہ جواب تھا وہ سب یک زبان ہوکر بولے :

دو اشرفیوں کے لئے دس اشرفیاں خرچ کرنا بڑی بے عقلی اور بیوقوفی ہے، اور یہ ناسمجھی کی بات ہے کہ دو اشرفیوں کو بچانے کے لئے دس اشرفیاں خرچ کئے جائیں۔ مگر ان طلبہ کے درمیان ایک جرمن لڑکا تھا، جو ابھی تک خاموش تھا، اس جرمن لڑکے نے پروفیسر صاحب کو مخاطب کرتے ہو کہا :
 سر !

اگر دو اشرفیوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کو نکالنے میں دس ہزار اشرفیاں خرچ کرنی پڑیں تب بھی کوئی حرج اور کچھ مضائقہ نہیں، اس ملک کا نقصان نہیں نفع ہی ہے۔ سب لڑکے اس عجیب و غریب اور انوکھے جواب سے حیران و ششدر ہوگئے اور کہنے لگے یہ لڑکا بڑا بیوقوف اور کم عقل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر میں فروفیسر صاحب جرمن لڑکے سے مخاطب ہوئے اور پوچھا تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ کہ ایسا کرنے سے ملک و معیشت کا نفع ہی ہے نقصان نہیں؟


لڑکے نے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ سر ! 
دو اشرفیاں جو سمندر میں ڈوب گئیں، وہ انسان کے قبضہ اور تصرف سے نکل گئیں اور ضائع ہو گئیں اور کسی کے کام کی نہ رہیں، لیکن ان کے نکالنے میں جو دس ہزار اشرفیاں خرچ ہوں گی، وہ انسان کے قبضہ سے باہر نہیں جائیں گی، کیونکہ غوطہ خور وغیرہ جن کو یہ دو اشرفیاں نکالنے کی اجرت میں یہ دس ہزار اشرفیاں دی جائیں گی وہ ان دس ہزار اشرفیوں کھا نہیں جائیں گے، بلکہ ہمارے ملک ہی کے بازاروں میں ان کو خرچ کر دیں گے۔ گویا یہ دس ہزار اشرفیاں خود واپس ہو کر، ہماری ہی جیب میں واپس آجائیں گی اور ان دس ہزار اشرفیوں کے طفیل وہ دو اشرفیاں بھی سمندر کی تہہ سے باہر نکل کر زندگی کے چلن میں شریک ہو جائیں گی، جن کا سمندر کے تہہ میں پڑا رہنا انسانوں کے لئے کچھ بھی مفید نہ تھا۔


استاد جرمن طالب علم کے اس جواب سے بہت متاثر اور خوش ہوئے دعائیں اور شاباشی دی۔ اس کے دوسرے ساتھی نے بھی اس جرمن طالب علم کے اس حسابی مزاج اور نکتہ رس و اخاذ ذھن پر رشک اور تعجب و حیرت اور مسرت کا اظہار کیا۔

آج ہم میں سے فرد اور قوم کی سطح پر کتنے لوگ ہیں، جو ملک و ملت اور قوم و وطن کے نفع و نقصان پر اس باریک بینی سے نظر رکھتے ہیں اور باریک بینی کا ثبوت دیتے ہیں ؟۔آج ملک تباہ ہو رہا ہے، نفرتیں بڑھ رہی ہیں،۔معیشت برباد ہو رہی ہے، سرحدیں محفوظ نہیں ہیں، ہمارے ملک پر پڑوسی ملک در اندازی میں مشغول ہے۔ ملک قرضے میں ڈوب چکا ہے۔ قومی سرمایہ کو گروی رکھا جا رہا ہے۔ ملک سے خطیر رقم لے کر کتنے فراڈی اور مداری دوسرے ملک بھاگ چکے ہیں۔ قومی بینکس کنگال اور دیوالیہ پن کا شکار ہورہے ہیں، وقت اور دولت کی اشرفیاں غفلت کے سبب ضائع ہو رہی ہیں، لیکن اس کی طرف سے غفلت برتی جا رہی ہے، اس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ جن ایشوز پر توجہ کی ضرورت ہے، اس سے دانستہ غفلت برت کر غیر ضروری ایشوز پر پوری توانائی صرف کی جا رہی ہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ ملک اور ملک کے باشندے رو بزوال ہیں۔ خطرہ ہے کہ اگر اس جانب توجہ نہیں دی گئی، ملک سے نفرت کا ماحول ختم نہیں کیا گیا، تو پھر اس ملک کا مستقبل تو بہت خطرہ میں ہے؟؟؟


اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ انسان کی فکر اور سوچ ہمیشہ مثبت اور تعمیری ہو، اس کے پیش نظر فرد سے زیادہ ملت کا مفاد سامنے رہے، اپنے ذاتی اغراض اور شخصی مفاد کے مقابلہ میں قوم و ملت کے مفاد کو سامنے رکھے، اور اس کو ترجیح دے، صرف اپنے مفاد، اغراض اور فائدے کے لیے جینا اور اسی کے لیے سعی و کوشش کرنا، ایک اچھے انسان، شریف اور مہذب آدمی کی پہچان نہیں ہے۔

آج دیکھا یہی جارہا ہے کہ اکثر لوگ ذاتی مفادات والی زندگی گزار رہے ہیں، ان کے پیش نظر اپنی ذات، اپنا خاندان، اپنی اولاد، اپنے حواریین اور اپنے عزیز و اقارب ہوتے ہیں، ان کی ترقیاں ہوتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے قائدین اور رہنماوں سے بدظن اور نالاں ہیں، ان کی باتوں میں وہ تاثیر اور درد و اثر نہیں، جس سے وہ لوگوں کے دلوں پر دستک دے کر ان کے فکر و نظر کو بدل سکیں اور ایک تغیر اور انقلاب لاسکیں، جب تک دل درد مند اور فکر ارجمند پیدا نہ ہو، محض تقریر و تحریر سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، اور کوئی خوشگوار پرامن اور مثالی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ اس لیے؟؟؟؟
ناشر مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے