Ticker

6/recent/ticker-posts

آؤ تیاری کے ساتھ پلٹیں : اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو

آؤ تیاری کے ساتھ پلٹیں : اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

چند حقائق

مسلمان سب سے پہلے اپنی مایوسی کے بارے میں خدائے بزرگ و برتر کا حکم سن لیں وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’ اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو‘ (الزمر ) مایوس ہونے والوں کے بارے میں خدائی تنبیہ بھی سن لیں وہ یہ کہ اللہ کی رحمت سے کافر قوم ہی مایوس ہوتی ہے ۔ دوسرے مسلمان الیکشن کو حق و باطل کے معرکے کے طورپر دیکھنا چھوڑ دیں، یہ ایک انتظامی اور معاشرتی معاملہ ہے اور بس ۔ تیسرے مسلمان اس بے بنیاد تھیوری کو ختم کردیں کہ ” بی جے پی ای وی ایم میں دھوکہ دھڑی کی بنیاد پر جیت رہی ہے“، اس تھیوری میں اس لیے بھی جان نہیں ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے باقاعدہ اعلامیہ کے طور پر officially ای وی ایم پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا، ای وی ایم کے لاکھوں ہنگاموں کے بیچ ٹھوس ثبوت کسی کے پاس نہیں ۔ چوتھے یوپی الیکشن 2022 مکمل ہوچکا اور 10/ مارچ 2022 کو ووٹ شماری میں بی جے پی غالب اکثریت سے کامیاب ہوچکی، یہ حقیقت ہے جسکو جھٹلایا نہیں جاسکتا، مزید یہ کہ اپوزیشن مکمل طور پر ختم ہوچکا، کچھ ہندتوا کی رو میں بہہ گئے، کچھ اپنے نظریات سے سمجھوتا کر بیٹھے، کچھ کو اپنے ذاتی مفاد عزیز ہیں اور زیادہ تر عیش پرست ہیں کچھ کرنا نہیں چاہتے۔

یہ نتائج مکمل طور پر ان زائد از ضرورت سیکولر مسلمانوں کی امیدوں کے برعکس ہیں جو سماج وادی پارٹی کی بیساکھی کے ذریعے چلنا چاہتے تھے، رہے وہ مسلمان جو اپنی قیادت کے استحکام کی سوچ رہے تھے تو جان لینا چاہیے کہ ان کے لئے پیش آمدہ رزلٹ عین توقع کے مطابق ہیں، شروع دن سے ”انتخابی ہار جیت“ انکا امقصد تھا ہی نہیں، انکا ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ اپنی لیڈرشپ کھڑی کی جائے، کسی کو ہرانے اور کسی کو جتانے کا بے فائدہ کھیل ختم کیا جائے۔

اچھی طرح سمجھ لیں کہ اب مسلم ووٹرز اور ان کی ناکام قیادت کسی کو ہرانے اور کسی کو جتانے کی پوزیشن بھی گنوا چکی، اب صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے وہ یہ کہ زمینی محنت کرکے اپنی لیڈر شپ مضبوط کی جائے، یہ راستہ نا تو مشکل ہے اور نا ہی ناممکن۔

آئندہ کل کیا ہوگا ؟ سوائے خدا کے کسی کو نہیں معلوم

آئندہ کل کیا ہوگا ؟ سوائے خدا کے کسی کو نہیں معلوم، اسلیے سبق ہمیشہ ماضی سے سیکھا جاتا ہے ناکہ مستقبل سے، آس پاس کے واقعات اور تبدیلیوں سے اندازے لگائے جاتے ہیں، غور کریں طالبان پر تھوپی گئی بیس سالہ جنگ کو دیکھتے ہوئے تمام ہی مبصرین کہہ رہے تھے کہ ”اب طالبان تاریخ کا حصہ بن چکے“، مگر بیس سال کے بعد معلوم ہوا کہ طالبان تو ”تاریخ بنانے والے“ بن گئے، طالبان کو اتنی بڑی کامیابی ملی کہ شاید اگر وہ 1996 سے اپنی فطری رفتار سے چلتے تو اس کامیابی کو ہرگز نہ پہنچ پاتے ۔ اس واقعے سے ہم کو سبق ملتا ہے کہ خلاف توقعات فیصلے حتیٰ کہ جنگ بھی کبھی کبھی خیر کا باعث بن جاتی ہے ۔ بھارت کے موجودہ حالات خواہ کتنے ہی گمبھیر کیوں نہ ہوں ؟ بہرحال وہ باذن اللہ کے تحت وقوع پذیر ہیں ۔ حالات کو اپنی ڈگر پر لانے کے لئے باذن اللہ کیا ہے ؟ وہ ہے ہماری قوم کے انفرادی اور اجتماعی نظام میں ”تعمیری تغیرات“ جسکا ذکر قرآن کریم کی سورہ رعد میں آیا ہے۔

زمینی محنت کیا ہے ؟

مسلمانوں کے اندر ایک مضبوط تھنک ٹینک ہونے کے ساتھ ساتھ اندرونی نیٹ ورک بھی ہونا چاہیے، آر ایس ایس کے طریقہ کار میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہر فیلڈ سے متعلق الگ الگ منچ بنائے ہوئے ہیں صحت معاشیات اور کھیل کود سے متعلق بھی آر ایس ایس کی الگ الگ ونگس ہیں پھر ان کے تحت بھی ضمنی شاخیں ہیں، مسلمانوں سمیت مختلف فرقوں اور مذاہب کے درمیان بھی آر ایس ایس کے منچ کام کررہے ہیں کامیابی کے لئے جتنے ووٹ انکو چاہیے اسی قدر لوگ انہوں نے کسی نہ کسی شکل میں اپنے ساتھ جوڑے ہوئے، یہ ہی راز ہے آر ایس ایس کی کامیابی کا ۔ آر ایس ایس نے ہندتوا کا خاکہ پیش کیا تو اس میں غالباً 127 پنتھ ( مسلک ) کو ساتھ ملا یا، دوسری طرف ہم ہیں کہ صرف پانچ فرقوں ( شیعہ، سنی دیوبندی، بریلوی، أہل حدیث ) میں ہیں مگر متحدہ خاکہ پیش نہیں کر سکتے، کوئی متحدہ لائحہ عمل نہیں بناسکتے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ان سے زیادہ منظم ہوسکتے ہیں مسلمانوں کے پاس اتحاد کی بنیادیں ان سے زیادہ ہیں، بین المسلم اجتماع inter muslim gathering کا نیٹ ورک ان سے زیادہ پھیلا ہوا ہے، از روئے قرآن وسنت مسلمانوں کے مقاصد اور نظریات ان سے زیادہ واضح اور مبنی بر حقائق و انسانیت ہیں۔

زمینی محنت کیا ہے ؟

زمینی محنت یہ ہے کہ جلسے جلوس کانفرنسیں، احتجاجات وغیرہ مکمل طور پر بند کرکے اپنے گھر محلے اور گاؤں سے تبدیلی کا آغاز کیا جائے، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے مطالعہ کے حریص بن جائیں، دوسرے مرحلے میں ہر میدان سے متعلق افراد سازی یا افراد شناسی کریں، تیسرے مرحلے میں منظم ہونے کی سوچیں، چوتھے مرحلے میں سماجی و معاشرتی اکائیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں، پانچویں مرحلے میں جاکر کسی کے ساتھ یا کسی کے خلاف گٹھ بندھن کریں ۔ ہمارے یہاں تین عیب بہت پرانے ہیں ایک یہ کہ ضروری تیاری کے بغیر میدان میں اترنے کا رواج، دوسرے یہ کہ ہر ایک میدان اور ہر ایک موضوع کے ایکسپرٹ بس ہمارے ”حضرت“ ہی ہیں، تیسرے یہ کہ قابل افراد کو کام کرنے کا موقع نہیں دیتے، ایک مرحوم مہتمم کا انتہائی تباہ کن مقولہ سنا کہ ”قابل ہی مقابل ہوگا اس لیے اس کو جمنے ہی مت دو “ تو بڑوں کے ’بڑے پن‘ کی بنیاد میں عیاری اور مکاری نظر آتی ہے ناکہ قربانی، یہ ہی حال ہر میدان کے اکثر بڑوں کا ہے، خواہ وہ مہتمم ہو یا کسی ادارے و تنظیم کا ذمےدار
31/ مارچ 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے