Ticker

6/recent/ticker-posts

اپنی صلاحیتوں کا بھر پور ادراک کیجئے

اپنی صلاحیتوں کا بھر پور ادراک کیجئے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

گزشتہ رات (۹اپرہل ۲۰۲۲ء) آخر کار طویل ڈرامہ اور غیر یقینی صورت حال کے بعد عمران خان نیازی صاحب کو وزرات عظمیٰ کی کرسی سے الگ ہونا ہی پڑا اور وہ بھی اقتدار کے پانچ سال پورے نہیں کرسکے، یہ پاکستان کی عجیب و غریب تاریخ رہی ہے اور یہاں کی سیاست میں اس قدر اٹھا پٹک اور شاہ مات کا کھیل ہے کہ وہاں کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی وزیراعظم اپنی مدت کار پوری نہیں کرسکا۔ بہر حال اس وقت ہم کوئی تجزیہ نہیں کررہے ہیں کہ سچائی پر کون لوگ تھے؟ حزب اقتدار کے لوگ یا حزب مخالف ؟ ہم یہاں صرف نیازی صاحب کے بارے میں ان کے عزم محکم اور جہد مسلسل کے تعلق سے جو چار سال پہلےہم نے لکھا تھا قند مکرر کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ انہوں اس منصب اور عہدہ کو حاصل کرنے کے لیے کتنی جہد و جہد کی تھی، لیکن یہ حقیقت ہے، کہ دنیاوی عہدہ و منصب اور اقتدار یہ سب چیزیں عارضی ہیں اس میں دوام نہیں ہے۔ م ق ن

انسان اگر عزم محکم اور ارادہ مضبوط کرلے، منزل مقصود کو پانے کے لئے بھر پور جدوجہد کرے اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرلے، تو اس کے لئے دنیا میں کوئی کام مشکل اور دشوار نہیں ہے، اس کے لئے منزل پالینا بالکل آسان ہوتا ہے، راہ کی رکاوٹیں، دقتیں زحمتیں اور دشواریاں ختم ہوجاتی ہیں - شاعر نے سچ کہا ہے۔

عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفان کو الٹ دیتا ہے ساحل تنہا

حدیث قدسی میں آی ہے کہ : انا عند ظن عبدی بی

ایک حدیث قدسی میں آیا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ انا عند ظن عبدی بی میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں وہ جیسا ارادہ اور عزم کر لیتا ہے میں اسے ویسی ہی توفیق اور موقع بھی دیتا ہوں۔

گزشتہ سے پیوستہ کل پڑوس ملک پاکستان میں عام انتخابات ہوئے اور کل ہی اس کے (نتائج کا) رسمی اور غیر رسمی اعلان بھی ہو گیا، اس بار پڑوس ملک میں اقتدار میں تبدیلی کے آثار کچھ پہلے ہی سے نظر آ رہے تھے۔ سابق مشہور کرکٹر اور پاکستانی ٹیم کے سابق کپتان عمران خاں نیازی کی پارٹی (تحریک انصاف پارٹی ) ۲۲ سالہ جد و جہد کے نتیچے میں پہلی بار (سب سے) بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ ہر چند کہ اکثریت حاصل کرنے میں اب بھی کچھ پیچھے ہے، لیکن بظاہر ان کے لئے اقتدار کی کرسی یعنی وزارت عظمی کا سب سے بڑا اور باوقار عہدہ حاصل کرنا اور اس پر متمکن ہونا قریب نظر آر ہا ہے۔ مجھے سیاست کے ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے اور نہ اس میدان سے مجھے کچھہ زیادہ انسیت ہے، البتہ مجھے صرف سابق کپتان کے عزم و حوصلہ اور جد و جہد اور ان کے اندر جو اپنی صلاحیتوں کے ادراک کا بھر پور ملکہ ہے، اس کو دیکھانا ہے اور داد تحسین پیش کرنا ہے، کہ ایک سابق کرکٹر نے جس کا سیاست کے میدان سے دور دور کا تعلق نہ تھا، اچانک جب وہ کھیل کے میدان کو چھوڑ کر سیاست کے وادی پر خوار میں قدم رکھتا ہے، عزم و استقلال کے جوہر کو دکھاتا ہے اور راہ کی رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لا کر ناکامی کے بعد ناکامی کو جھیل کر کس طرح اس میدان میں بھی بازی مار کر اپنے حریف اور مد مقابل کو پیچھے چھوڑ کر اقتدار کی اعلی کرسی اور عہدے کو حاصل کر لیتا ہے۔

عمران خان نے ۱۹۹۶ء میں پاکستان کو عالمی چمپئن بنایا

عمران خان نے ۱۹۹۶ء میں پاکستان کو عالمی چمپئن بنایا اور ملک کو شہرت دلائی، اصلا وہ ایک کرکٹر تھے، اور بقول شخصے خوبرو و خوبصورت، اور ایک عالمی کھلاڑی ہونے کی وجہ سے لوگوں میں اور خاص طور پر عورتوں میں بے حد مقبول تھے۔ ان کی رنگین مزاجی اور عشق و معاشقہ کی داستان کسی الف لیلی کی داستان سے کم نہیں، وہ اپنی رنگین مزاجی کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان کی فیملی زندگی بھی بہت نشیب و فراز سے گزری، اگر اس راہ کی داستان کو دیکھا جائے، تو اس کی ایک الگ ہی کہانی ہے۔ کیونکہ اس راہ میں بھی انہیں اپنی کرنی کی وجہ سے سخت دن اور سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس وادئی پر خوار کو جھیلتے ہوئے اور اس کے نشیب و فراز کو برداشت کرتے ہوئے انہوں نے سیاست کے میدان میں اپنی ایک الگ شبیہ بنا لی، اور دھیرے دھیرے ملک کے لوگوں کے دلوں پر دستک دیتے رہے اور ان کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرتے رہے، اور آج وقت آیا کہ اپنی محنت اور جد و جہد کا ثمرہ پانے کے باکل قریب پہنچ گئے ہیں۔

قارئین باتمکین!
ان کی زندگی میں دین داری تلاش کرنا یہ تو احمقوں کی دنیا ہوگی، کیونکہ ان کی نجی زندگی بہت رنگین ہے اور وہ مغربی تہذیب کے دلدادہ اور اس کے بہت بڑے علمبردار ہیں، خدا کرے کہ یہاں بھی ان کی زندگی میں ایمانی و عرفانی انقلاب اور تبدیلی آجائے۔

لیکن انہوں اپنی زندگی سے جہد مسلسل، سعی پیہم اور اپنی صلاحیتوں کے ادراک کا جو پیغام دیا ہے، وہ یقینا قابل تقلید اور لائق نمونہ ہے اور ہم جیسے پست ہمت اور بے حوصلہ لوگوں کے لئے ان کی زندگی کا یہ حصہ ایک بہترین نمونہ اور آیڈیل ہے۔

۱۹۹۶ء میں کرکٹ کی دنیا سے علیحدہ اور سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے سرگرم سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ سماجی فلاح و بہبود (سوشل ورک )کے لئے خدمت خلق کے میدان کو منتخب کیا - سب سے پہلے اپنی والدہ مرحومہ کے نام سے ایک بڑے کینسر ہاسپٹل تعمیر کرایا ( ان کی والدہ کا انتقال بھی اسی مہلک اور موذی مرض میں ہوا تھا) جس کی بنا پر ان کو ملک و بیرون ملک زبردست مقبولیت حاصل ہوئی، اس کو ترقی کی آخری منزل تک پہچانے کی بھر پور کوششیں کی اور اس کی تعمیر کے لئے بڑے بڑے ارباب سیاست اور اصحاب ثروت سے رابطہ کیا، اور لوگوں نے بھی دل کھول کر ان کی مدد کی۔

اس کے ساتھ وادئی سیاست میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے، پیہم ناکامی کے بعد، لیکن طویل جد و جہد کے بعد آخر وہ اس منزل پر پہنچ گئے، جہاں اور جس منزل کو پانے کے لئے ۲۲ سال پہلے انہوں نے خواب دیکھا تھا۔ سابق کپتان گویا ہم لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ

مل جائے گی کبھی منزل لیلی اقبال
کچھ دنوں اور ابھی بادیہ پیمائی کر

اور اس شعر کے ذریعہ ہم سب کو مہمیز لگا رہے ہیں

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگئ داماں بھی ہے

خدا کرے ان کی اقتدار کی یہ کرسی پاکستان کے لئے، پورے برصغیر کے لئے، بلکہ پوری دنیا کے لئے اور خاص طور ملک ہندوستان کے لئے رحمت اور امن و شانتی، اور پریم و محبت اور اخوت و بھائی چارہ کا زریعہ بن جائے دونوں ملک کے تعلقات خوش گوار ہو جائے اور سب آپس میں ایک دوسرے کے چاہنے والے بن جائیں، ساتھ ہی نفرت و کدورت اور تشدد و سختی کا ماحول ختم ہوجائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے