Ticker

6/recent/ticker-posts

ہسپتال کی چائے اردو افسانہ Haspatal Ki Chay Urdu Story

ہسپتال کی چائے URDU AFSANA - ASPATAL KI CHAY


ہسپتال کی چائے اردو افسانہ Haspatal Ki Chay Urdu Story

Haspatal Ki Chay Urdu Story


پریم ناتھ بسمل

مہوا، ویشالی۔بہار

رابطہ۔8340505230

ایک اچھے ڈاکٹر کی پہچان ہے کہ کم سے کم دوا اور خرچ میں مریض کو اچھا کر دے۔ اگر مرض ایسا ہو جس میں جراحت کی ضرورت پڑتی ہو تو کم سے کم خون بہائے اور چیر پھاڑ کم کرے تاکہ مریض کو کم درد ہو اور تکلیف نہ سہنی پڑے۔ لیکن ان دنوں ڈاکٹروں میں بھی عجیب حماقت دیکھی جا سکتی ہے۔

پچھلے پانچ سالوں سے میرے سر میں ہلکا ہلکا درد رہتا ہے۔ ایک موٹے تازے ڈاکٹر صاحب، جن کے بال سفید، داڑھی اجلی ہے۔ میرا علاج کرتے آ رہے ہیں۔ ان کو بہت تجربہ کار سمجھا جاتا ہے۔ ان کی شہرت اس قدر ہے کہ ہمیشہ ودیش دورہ پر رہتے ہیں۔ جب کبھی ہندوستان میں فلائٹ بند ہوتی ہے، تبھی وہ یہاں دکھائی دیتے ہیں۔

آج میرے سر کا درد تیز ہو چلا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سر نہیں اسکول کی گھنٹی ہے جس پر کوئی زور زور سے ہتھوڑا مار رہا ہے۔ میرے کانوں میں اڑتی پھرتی خبر پہنچی۔ ڈاکٹر صاحب ہندوستان ہی میں ہیں! میں بھاگتے بھاگتے پہنچا۔ دیکھا کہ لمبی قطار لگی ہے ڈاکٹر صاحب کے امچے چمچے مورچہ سنبھال رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی چمچماتی کار کھڑی ہے۔ مریضوں کے لیے لگی کرسیاں اور بیڈ گندے پڑے ہیں۔ جس پر بیٹھنے کے لئے مکھیاں ہندوستانی لیڈروں کی طرح ہاتھا پائ کر رہی ہیں۔ میں بھی اخبار سے کرسی جھاڑی اور بیٹھ گیا فوراً ایک آدمی چائے لے کر میرے پاس آگیا۔ کچھ دیر کے لیے ایسا لگا جیسے میں ہسپتال نہیں سسرال آ گیا ہوں۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا! بھایا !میں مہمان نہیں، مریض ہوں! اس نے بتایا ، ڈاکٹر صاحب اپنے مریضوں کو مفت چائے پلواتے ہیں ۔ ابھی میں نے چائے کی پیالی کو ہونٹوں سے لگائی ہی تھی کہ سالے (کمپاؤنڈر) نے آواز لگائی۔ پرجا بنوا لیجئے اور فیس جمع کر دیجئے نمبر آنے پر آپ کو دیکھا جائے گا۔ میں نے کہا! کتنی فیس ہے؟ پانچ سو روپے!او.. اب پتہ چلا کے ڈاکٹر صاحب مفت چائے کیوں پلواتے ہیں۔ میں ہسپتال کی کرسی پر بیٹھا تھا، سر میں درد اور ہاتھ میں ڈاکٹر صاحب کی چائے۔ مجھے پانچ سو روپے زیادہ لگ رہے تھے پھر بھی دینے پڑے۔

میں چائے پیتے پیتے اخبار دیکھنے لگا۔ کبھی اخبار کے پنّے پلٹتا تو کبھی مریضوں کی قطار دیکھتا۔ تبھی میری نظر میرے پڑوس میں رہنے والے عظیم شاعر جناب چیر ہرن داس مہوا والے کی غزل پر پڑی ۔ مطلع کچھ اس طرح تھا کہ ؎

لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
دارو کیا ہے بند تو نے کیوں بہار میں
اک بات تجھ سے پوچھتا ہوں اے میری بھوجی
لگتا ہے کیسے دل ترا بورھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی میں نے غزل پڑھنی شروع ہی کی تھی کہ اچانک پیچھے سے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی ۔ پلٹ کر دیکھا ۔ ایک صوفے پر ڈاکٹر صاحب کا کتا، جسے کتا جی کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے بیٹھا ہوا کسی نااہل لیڈر کی مانند کولر کی ہوا کا لطف لے رہا ہے ۔جس کے سامنے پلیٹ میں کچھ بسکٹ پڑے ہیں۔ایک عورت کی گود میں سے ایک بچہ بار بار بسکٹ کی طرف دیکھتے ہوئے نعرے لگائے جا رہا ہے ہماری مانگے پوری کرو! کتا جی بچاؤ میں ایسے بھونکتا ہے جیسے کوئی سپاہی آنسو گیس کے گولے داغ رہا ہو ۔ اتنے میں کمپاؤنڈر نے اچانک میرا نام پکارا۔ میں نے اخبار بند کیا اور ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا۔ 
     
مجھے دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب ایسے مسکرائے جیسے قصائی نے بکرے کو دیکھ لیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے کرسی کھسکائی اور بیٹھ گیا۔ کیا تکلیف ہے! ڈاکٹر صاحب نے پہلی مزایل داغی ۔ جی وہی پرانی تکلیف ہے، سر درد سے پھٹا جا ر ہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کچھ جانچ پڑتال کرنے کے بعد وہی پرانی دوا پھر سے کھانے کو کہا۔ میں نے تعجب بھرے لہجے میں برجستہ سوال کیا۔ ارے! یہ کیا؟ وہی پرانی دوا! پھر سے؟ جی آپ کا سر درد بھی تو پرانا ہے! ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ جی کوئی ایسا علاج نہیں ہو سکتا کہ جس سے میرا درد ہمیشہ کے لئے جاتا رہے۔ جی بالکل علاج ہے میرے پاس آپ کے سر درد کا آخری علاج بھی ہے۔ آخری علاج !میں نے تعجب سے پوچھا! جی ہاں آخری علاج یہی ہے کہ آپ کا سر دھڑ سے الگ کرنا ہوگا۔ جسے میڈکل کی زبان میں ہم لوگ سر جی کل اسٹرائک کہتے ہیں ۔جب کبھی درد حد سے گزر جاتا ہے تو ہم لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔ رہنے دیجئے جناب! جان بچی تو لاکھ اپائے۔ اپنا علاج اپنے پاس رکھئے ۔ غالب نے کہا ہے ؎ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا پانچ سالوں سے اس ڈاکٹر کو جھیل رہا ہوں اس روز روز کے سرجیکل اسٹرائیک سے تو اچھا ہے کہ میں ڈاکٹر ہی بدل دوں۔

پریم ناتھ بسمل

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے