Ticker

6/recent/ticker-posts

دو اپریل بچوں کے کتابوں کا عالمی مبارک ہو International Children's Book Day

دو اپریل بچوں کے کتابوں کا عالمی مبارک ہو

دو اپریل بچوں کے کتابوں کا عالمی دن ہے.تمام بچوں کے ادیبوں کو بچوں کے کتابوں کاعالمی دن مبارک ہو۔مگر افسوس بچوں کے کتاب کلچر کو آج ہم بھول گئے ہیں۔اور اسے بھی ایک بچوں کا کھیل سمجھ کر کھیلنے لگے ہیں۔

تاریخ گواہ ہےکہ انسان نے زندگی کے جس شعبے میں مشترکہ کوششیں کی وہاں انہوں نے ترقی کی مگر بچوں کے ادب نے ترقی کے بجائے تنزلی اختیار کی۔

International Children's Book Day

آج کل بچوں کا ادب جن حالات کے کربلائوں سے سے گزر رہا ہے۔ وہ کسی اہل قلم سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ایک ادیب روشنی کو سیاہی اسلیئے کہتا ہے کہ کیونکہ وہ معاشرے کی سیاہوں کو سفید صفحے پر پھیلا کر معاشرے کے سفید اور سیاہ کو اجاگر کرتا ہے اور دور کرنے کی سعی کرتا ہے اور آج یہ سیاہی اسی ادیب پہ الٹ دی گئی ہے۔یہ دیکھ کے میں سوچتا ہوکہ کاش سیاہی ہی نہ ہوتی تو اچھا تھامگر یہ نا ممکن جان کر کر قلم کی نوک توڑ دیتا ہوں۔

ہر قوم اپنی عظمت کے تاج محل کو کسی شاہجہان کے خواب سے تعبیر سمجھ سکتا ہے مگر ہر تاج محل کی عظمت کو ان گمنام مزدوروں اور معماروں کی مرہون منت ہے۔ جس کا پسینہ پتھر لو موتی کی چمک اور ببول کی رعنائی عطا کرتا ہے۔اے ادب کے تمسخرا اڑانے والے آپ نے بابل اور نینوا اور سقوط ڈھاکہ کی تباہی کی داستانیں تو سنی ہوں گی۔مگر خدا وہ وہ دن کبھی نہ لائے جب مستقبل کے سیاہ ماضی کے کھنڈر دیکھ کر آہ بھریں اور کہے کہ پاکستان میں بچوں کے ادب کا ایک عظیم الشان ملک آباد تھا ۔۔۔۔۔۔ جسے اپنے ہی لوگوں نے برباد کردیا تھا جس طرح احمد شاہ ابدالی نے تلوار کی نوک سے ادب کے نقشے میں نیا رنگ بھر دیا تھا ۔اسی طرح دنیا بھر میں بچوں کا ادب مخصوص میدان بن چکا ہے نہ اس میں کوئی چلتا ہے نہ چلایا جاتا ہے۔ بس اپنی مدد آپ کے ذریعے میدان میں اتر جاتا ہے اور پھر دریا کے کنارے پہ پہنچ کر اپنے دوستوں کے ہاتھوں ڈبویا دیا جاتا ہے۔ اب ہمارے یہاں بچوں کا ادب لکھا تو جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے بہت کم لوگ حقیقی ادب کی جانب متوجہ ہیں۔گذشتہ ایک برس میں تو شاید ہی اس حوالے سے کوئی ورکشاپ یا ٹریننگ ہوئی ہو ہماری ادبی تقریبات میں بھی بچوں کے ادب پر مباحثے اور مقالے ختم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کرپشن اور سیاسی اقربا پروری ہوتی ہے۔۔۔

میرے دادا اکثر کہا کرتے تھے۔ بیٹا ضرور لڑو حق کیلئے ادب کی بقا کیلئے سچ کیلئے میں اس وقت دادا کو کہتا تھا دادا مجھے تو لڑنا نہیں آتا ہے دادا کہتے تھے ایک وقت آئے گا جب تم لڑنا سیکھ جائوں گے سچ کہا تھا دادا نے آج مجھے پتا چلا کہ قلم کے ذریعے بھی ایک جنگ لڑی جاتی ہے آج میرے ہاتھ میں قلم ہے اور یہ جنگ میں قلم کی نوک پہ لڑ رہا ہو۔آج بچوں کا ادب موہن جو دڑو بن رہا ہے۔ہم سب نے ادب برائے فروخت کا نعرہ بلند کیا ہوا ہے ۔آج بچوں کا ادب اکیسویں صدی کا صحرا بن چکا ہے۔ آج کل کے بچوں کے ادیب ایک پل صراط سے گزر رہے ہیں۔آج بچوں کے ادب میں صدیوں کی گرد جمع ہوچکی ہے ۔جسے صاف کرنے کیلئے ہر ادیب کو اپنے قلم کا استعمال ٹھیک طریقے سے کرنا ہوگا تاکہ اس پل صراط سے نکلا جائیں آج بچوں کے ادیبوں کو ادب کی ضرورت ہے۔آئیں ہم سب ملکر بچوں کے ادب کی تخلیق کریں اور اس پل صراط کو پار کریں ۔

بہت سی اغلاط کے باوجود سوچ وفکر کو وا کرتا مضمون بلا شرکت غیرے کم و بیش یہی حالات و بے بسی بے ثباتی ہندوستان میں بھی ہے۔ ادب اطفال کے لئے واقعتاً بہت سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ابھی ہماری نسل نو اپنے ادبی سرمائے سے بے بہرہ اور متنفر ہے کل بالکل انجان ہوجائے گی۔ ادب اطفال لکھنے سے زیادہ اس کی ترویج کی ضرورت ہے۔ اس کو نسل نو تک پہنچانے اور احسن طریقے سے بچوں کے ادب میں دلچسپی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی اردو ادب کا معیار اتنا پست ہوگیا ہے۔ آگے آنے والے وقت میں اقبال، میر غالب، پریم چند، قرت العین وغیرہ کو ڈھونے والا کوئی نہیں ملے گا سوچئے خوب سوچئے؟

بچوں کا ادب

تحریر
ببرک کارمل جمالی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے