پیام رمضان : روزہ اخلاقی تربیت اور ڈسپلن کا ذریعہ ہے
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے حوالے سے رمضان المبارک اور روزے سے جو ہدایات اور تعلیمات ملتی ہیں اور روزے سے جو مقاصد اور نتائج اخذ ہوتے ہیں نیز روزے کا جو مقصد اصلی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر خوف خدا، تقوی، صبر و ضبط، تحمل و برداشت انسانی ہمدردی و غمگساری، انسانیت نوازی کا جذبہ پیدا ہو،اور ہمارے اندر نظم و ضبط اور اخلاقی ڈسپلن آسکے۔
روزہ کے اصل مقاصد کیا ہیں؟
روزہ کے اصل مقاصد میں سے جھوٹ، فراڈ اور مکر وغیرہ منفی عمل سے بچنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محتلف مواقع پر مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور امت کو یہ سمجھایا ہے کہ مقصد سے بے پرواہ اور غافل ہوکر بھوکا، پیاسا رہنا کچھ مفید نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا اور پانی چھڑا دینے کی اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔۔۔
دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا، اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اس قیام یعنی تراویح اور تہجد سے رت جگے کے سوا اس کو کچھ نہیں ملتا۔۔
کیا محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت ہے؟
ان احادیث سے صاف یہ معلوم ہوگیا کہ محض بھوکا اور پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے اور اصل عبادت خوف خدا کی وجہ سے خدا کے احکام اور قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا، اور محبت الہی کی بنا پر ہر اس کام کے لیے شوق سے لپکنا جس میں محبوب کی خوشنودی ہو، اور نفسانیت سے بچنا، جہاں تک ممکن ہو، اس عبادت اور اور اس کی روح سے جو شخص غافل رہا، اس نے خواہ مخواہ اپنے پیٹ کو بھوک پیاس کی تکلیف دی۔ اللہ تعالیٰ کو بھلا اس کی حاجت کب تھی کہ بارہ چودہ گھنٹے کے لیے اس سے کھانا چھڑا دیتا؟(مستفاد از خطبات ص، ۱۷۰)
روزہ کا مقصد کیا ہے؟
روزہ کا مقصد اسلام کے نظام وحدت اور مسلمانوں کی عالمگیر اخوت اور باہمی اجتماعیت کا مظاہرہ بھی ہے۔ کیوں کہ مسلمان ایک متعین مہینہ کے اندر ایک ہی ساتھ بیک وقت روزہ رکھتے ہیں، اس سے ان میں اتحاد و یکجہتی، باہمی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور اس سے ہم آہنگی کے جذبات کی نشو و نما اور مسلمانوں کے نظام اجتماعیت کو قوت و استحکام اور مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔
روزہ تذکیئہ روح تصفیئہ قلب، اصلاح اعمال، تہذیب اخلاق اور تعمیر سیرت اور اخلاقی ڈسپلن پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے۔
حدیث شریف میں اس طرف خاص رہنمائ کی گئ ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اذا کان صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب، فان سابه احد او قاتله فلیقل انی امرء صائم (بخاری شریف کتاب الصوم)
کہ جب تم میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو تو وہ بے ہودہ گوئ نہ کرے اور نہ شور کرے۔ اگر کوئ شخص اس کو گالی دے، یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں۔
اس حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ روزہ صرف کھانا، پینا اور نفسانی خواہشات کو ایک متعین وقت تک چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا ایک اہم تقاضا اور مقصد یہ ہے کہ روزہ دار شخص برے اخلاق و کردار اور تمام قسم کے نزاع و اختلاف، کشمکش اور کشاکش کو چھوڑ دے، کسی بھی معاملے میں شور و غل اور شدت پسندی سے اجتناب کرے، اگر کوئ شخص اسے مشتعل کرے، غصہ دلائے تب بھی وہ خاموشی اور درگزر سے کام لے، اور کسی بھی حال میں خود کو مشتعل نہ ہونے دے اور نہ آپے سے باہر آئے۔
اس حدیث سے اندازہ ہوتا کہ روزہ صرف ایک رسمی عمل نہیں ہے بلکہ روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر سنجیدگی، متانت، تحمل، قوت برداشت اور صبر و استقامت پیدا ہو، روزہ انسان کے اندر گہرائ و گیرائ اور ایسی اسپرٹ پیدا کردے جو اس کے فکر و نظر اور قلب و دماغ کو بدل کر رکھ دے اور ایسی تبدیلی اور انقلاب پیدا کردے کہ روزہ دار کی شخصیت دوسروں کے لئے سراپا دعوت اور نمونہ و اسوہ بن جائے۔
روزہ انسان کو بہت زیادہ سنجیدہ، باوقار اور شگفتہ مزاج بنا دیتا ہے
سچائی یہی ہے کہ حقیقی روزہ انسان کو بہت زیادہ سنجیدہ، باوقار اور شگفتہ مزاج بنا دیتا ہے، اس کی زندگی اور شب و روز کے عمل میں سنجیدگی اور صبر و تحمل کا رنگ جھلکنے لگتا ہے، دوسروں کا اشتعال انگیز اور منفی رویہ بھی اس کو سنجیدگی سے دور نہیں کر پاتا اور بے راہ روی کا شکار نہیں ہونے دیتا ہے، وہ سوسائٹی اور سماج کا ایک پر سکون ممبر اور رکن بن جاتا ہے وہ کسی کے لئے پریشانی اور دقت و زحمت کا ذریعہ نہیں بنتا، بلکہ اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی فکر میں لگ جاتا ہے۔
لیکن افسوس کہ ہم میں سےاکثر مسلمان روزے کے اس وسیع اور ہمہ جہت مفہوم اور اس کے اعلی ترین مقاصد کو سمجھتے ہی نہیں اور نہ اس تصور کے ساتھ ہم روزہ رکھتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا جارہا ہے کہ مسلمان اسی ماہ میں زیادہ مشتعل اور غصہ ہوتے ہیں اور غیض و غضب کا مظاہرہ کرتے ہیں، بات بات میں جھگڑا، مسجد جیسی مبارک اور بابرکت جگہ میں جھگڑا اور مار فساد آج مسلمانوں کی عادت سی ہوگئی ہے کہیں اے سی اور کولر لگانے کا جھگڑا تو کہیں تراویح کی رکعت کا جھگڑا۔ کہیں قرات اور مقدار خواندگی کا جھگڑا، کہیں پنکھا چلانے کا جھگڑا وغیرہ اب تو بعض جگہ حال یہ ہے کہ امام کو اور تراویح پڑھانے والے کو سر عام مسجد ہی میں رسوا اور ذلیل کرتے ہیں ان کی تحقیر کرتے ہیں، امام صاحب نے نماز کے بعد حالات کے تناظر میں اور کرونا کے پیش نظر دعا تھوڑی طویل کردی تو مسجد میں شور و غوغا شروع، نقد و تبصرہ کا بازار گرم، ایک صاحب دلیل اور ترک دینے لگے کہ مسجد میں ہر خاص و عام برابر ہیں، اس لیے امام کے لیے بھی کوئی رعایت نہیں ہے اگر پنکھے چلیں گے تو سب کے چلیں گے، امام صاحب کے لیے تنہا پنخواہ نہیں چلے گا۔ ایک صاحب جن کا خود ناظرہ درست نہیں وہ کہنے لگے کہ حافظ صاحب کی تجوید و تلفظ درست نہیں ہے، ایک صاحب کا تبصرہ تھا کہ حافظ صاحب صاف نہیں پڑھ رہے ہیں، جب کے پیچھے حفاظ کرام کہہ رہے ہیں کہ نہیں بالکل صاف پڑھ رہے ہیں۔۔۔ اس طرح کے تماشے آج عام ہیں۔ اب ہمیں خود غور کرنا ہے کہ ہمارا روزہ مقصد لیے ہوئے ہے یا مقصد اور روح سے بالکل خالی ہے؟ ہم سب کو اس پر غور کرنا ہے اور اپنا محاسبہ کرنا ہے۔۔۔
0 تبصرے