Ticker

6/recent/ticker-posts

سراپا خیر و برکت کا مہینہ رمضان المبارک اب اگر بخشش نہ ہوئی ؟

سراپا خیر و برکت کا مہینہ رمضان المبارک اب اگر بخشش نہ ہوئی ؟

اب اگر بخشش نہ ہوئی ؟
مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ،
7061674542

رمضان المبارک کا مہینہ جو کہ سراپا خیر و برکت کا مہینہ ہے اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ کہا ہے، اور جو شخص بھی خالص اللہ کیلئے روزہ رکھے اس کا بدلہ اپنے ہاتھوں سے دیتا ہے، اس مہینہ کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلا۔۔ رحمت کا۔۔ دوسرا۔۔ مغفرت کا۔۔ اور تیسرا۔۔ جہنم سے خلاصی کا،

اس وقت پہلا عشرہ گزر چکا ہے اور دوسرا عشرہ یعنی مغفرت کا جو کہ اب شروع ہوگیا ہے، پہلا عشرہ رحمت کا تھا خود احتساب کریں کہ ہم نے رحمت سے فائدہ اٹھا یا یا غفلت میں گزار دی، خود کو لعنت کا مستحق بنایا یا رحمت کا اگر کوتاہی ہوئی اور یقینا ہوئی ہوگی تو معافی مانگ لیں اللہ تعالیٰ بیشک معاف کرنے والا ہے، اور یہ عزم ابھی سے کرلیں کہ اگر آئیندہ رمضان مجھے نصیب ہوا تو ہم غفلت کی چارد سے باہر نکلیں گے اور ایک ایک لمحہ کو قیمتی بنائیں گے،

اس وقت مغفرت کا عشرہ شروع ہوا ہے، یہ موقع بار بار نہیں آتا کہ مکمل دس روز تک کثیر تعداد میں گناہ گاروں کی بخشش ہوتی ہو، یوں تو خدا کی رحمت عام ہے ہر انسان اس سے مستفیض ہوتا ہے لیکن اس عشرہ میں خصوصیت کے ساتھ بخشش ہوتی ہے اور نظر کرم فرماتے ہیں، ۔ ہر بندہ چاہتا ہے کہ میرے گناہ معاف ہو جائے میں اللہ تعالیٰ کا مقرب بندہ بن جاؤں لیکن یہ صرف زبانی طور پر ہوتی ہے الا یہ کہ صحیح معنوں میں احساس ہو،

اس عشرہ میں ہمیں ہر وقت اپنی مغفرت کی دعا مانگنی چاہیے کیونکہ اگر اس عشرہ میں یا یوں کہہ لیجئے اس مہینہ میں ہماری مغفرت نہیں ہوی تو پھر ہماری ہلاکت و بربادی میں کوئی تردد نہیں، اور پھر سخت ترین بدعا دی گئی اس شخص کو جس کی اس مہینہ میں مغفرت نہ ہوئی وہ خود کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں معاف نہ کراسکا، ۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا منبر کے قریب ہو جاؤ سب قریب ہوگئے، جب آپ خطبہ دینے کیلئے منبر کے پہلے زینہ پر چڑھے تو آپ نے فرمایا آمین، جب دوسرے پر چڑھے تو پھر فرمایا آمین، تیسرے پر چڑھے تو پھر فرمایا آمین،

وعظ مکمل ہونے کے بعد صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ آج آپ نے منبر چڑھتے وقت آمین کہی ہم اس کی وجہ جاننا چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب میں منبر کے پہلے زینہ پر قدم رکھا تو جبریل علیہ السلام آئے اور کہا۔۔ ہلاک ہو وہ شخص جس کے ماں باپ موجود ہوں یا ان میں سے ایک ہوں اور وہ اس کی خدمت کرکے خود کو جنت کا مستحق نہ بنالے، ۔ میں نے کہا آمین،

جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا۔۔ ہلاک وہ شخص جس کے سامنے آپ کا تذکرہ ہو اور وہ آپ پر درود نہ بھیجیں، میں نے کہا آمین، جب میں تیسرے زینہ پر چڑھا تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا۔۔ ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور اس کی بخشش نہ ہوئی۔
میں نے کہا۔۔ آمین،

اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام فرشتوں میں سب سے مقرب فرشتہ جبرائیل علیہ السلام ہیں اور انسانوں میں سب سے اعلی و اشرف ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان دونوں ہستیوں میں ایک کی بدعا اور دوسرے کا اس پر آمین کہنا، کتنی سخت بدعا ہوگئی تصور سے باہر ہے،

اس حدیث کے آئینہ میں ہم اپنی زندگی پر غور کریں کہ کتنا وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے خاص کرتے ہیں یوں تو سال بھر ہم غفلت میں رہتے ہیں ایک مہینہ ملا ہے خدا کو منانے کا تع کیوں نہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھالیں، غور کرنے کی بات ہے ہم اگر اس مہینہ کو بھی غفلت میں گزار دیں اور ہماری مغفرت نہ ہوئی تو پھر ہمیں اس سخت ترین بدعا سے کون بچا سکتا ہے اور پھر وہ کونسا مہینہ ہوگا جسمیں ہم اللہ کو منائیں پورے اگیارہ مہینہ تو دنیا کو پوجتے رہتے ہیں ایک مہینہ ہاتھ آیا ہے دل سے قدر کرنی چاہیے،

لہذا یہ عشرہ ہے مغفرت کا اس میں توبہ کرنے والوں کا ہاتھ خالی نہیں جاتا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی بخشش کرالیں اور اس سخت ترین بدعا سے خود کو محفوظ رکھیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے