Ticker

6/recent/ticker-posts

رمضان المبارک احکام ومسائل Ramzan-ul Mubarak Ahkam-o-Masail in Urdu

رمضان المبارک احکام ومسائل | Ramadan ul Mubarak Ahkam o Masail

قسط نمبر (٢)
مجیب الرحمٰن
7061674542

پہلی قسط میں چاند کے سلسلے میں بنیادی مسائل کا ذکر ہوا تھا وجہ یہ تھی کہ رمضان المبارک کا مہینہ شعبان کے مہینہ کے بعد ہوتا ہے ضروری تھا کہ رؤیت ہلال پر روشنی پڑ جائے کیونکہ بسا اوقات رؤیت ہلال کے مسائل کے سلسلے میں عام طور سے لوگ دقتوں میں پڑ جاتے ہیں سہولت کی خاطر پہلی قسط رؤیت ہلال کے مسائل کے ساتھ شائع کیا گیا تھا،

دوسری قسط میں۔ رمضان المبارک کی ابتدا اس کے کچھ فضائل و فوائد بیان کئے جارہے ہیں جو کہ ہدیہ ناظرین ہے۔

فضائل رمضان

یاأیھا الذی آمنو کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون

۔۔ اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، اس توقع کے ساتھ کہ شاید تم متقی بن جاؤ،

لفظ صیام کی تحقیق

لفظ۔صیام۔ کے معنی کسی کام سے باز رہنا رک جانا ہے، اسی لئے اگر کوئی شخص کسی سے بات نہ کرے یا کھانے پینے سے باز رہے تو لغت میں اسے۔ صائم۔ کہتے ہیں، اصطلاح میں روزہ کہا جاتا ہے کہ آدمی صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کرنے سے روزہ کی نیت کے ساتھ رکا رہے، اور دن کی میعاد صبح صادق کے ظاہر ہونے سے آفتاب کے غروب ہوجانے تک ہے، پس جس نے اتنا کرلیا اس کا روزہ ہوگیا، اور گویا روزہ کا جسم بن گیا اب جس طرح جسم کی صحت و تندرستی کیلئے انسان بہت سی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے اسی طرح روزے کے اندر بھی کرے،

۔۔ رمضان المبارک کا روزہ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر مسلمان۔ مکمل مسلمان نہیں ہے،

رمضان المبارک کا روزہ ہر مسلمان عاقل بالغ مرد و عورت پر جسمیں روزہ رکھنے کی طاقت ہو فرض عین ہے اور جب تک کوئی عذر شرعی نہ ہو چھوڑنا درست نہیں ہے،

روزہ کی تاریخ

روزہ کی ابتدا آدم علیہ السلام کے زمانے ہی سے ہوگئ تھی۔ چنانچہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دور میں" ایام بیض " یعنی ہر ماہ کی تیرھویں چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے روزے فرض تھے، یہود و نصارٰی بھی روزے رکھتے تھے یونانیوں کے یہاں بھی روزہ کا وجود ملتا ہے،

ہندو دھرم، بدھ مذہب میں بھی برت ( روزہ) مذہب کا رکن ہے، اور پارسیوں کے یہاں بھی بہترین عبادت سمجھا گیا ہے، الغرض دنیا کے تمام مذاھب میں روزے کی فضیلت و اہمیت پائی جاتی ہے، اور حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آپ علیہ السلام تک ہر قوم میں روزے کا وجود کسی نہ کسی شکل میں ملتا ہے،

روزہ کی فرضیت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کے بعد تیرہ سال تک مکہ ہی میں تبلیغ کرتے رہے اور لوگوں کو خدا کا پیغام سناتے رہے، اس مدت میں احکامات کا نزول نہیں ہورہا تھا سوائے ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کے، پھر جب آپ علیہ السلام ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے وہاں آپ پر احکامات کا نزول شروع ہوا انہیں میں سے ایک حکم رمضان کا بھی تھا، روزہ کی تکلیف چونکہ نفس پر گراں گزرتی ہے اس لئے فرضیت میں روزہ کو تیسرے درجہ میں رکھا گیا ہے احکام کی فرضیت میں اسلام نے یہ روش اختیار کی ہے کہ پہلے نماز جو ذرا ہلکی عبادت ہے اس کو فرض کیا اس کے بعد زکوٰۃ اور پھر روزہ کی فرضیت ہوئی،

شروع شروع میں روزہ کے اندر اتنی سہولت تھی کہ جس کا جی چاہے رکھے اور چاہیے نہ رکھے اس کے بدلے ایک روزہ کے عوض کسی غریب کو ایک دن کا کھانا کھلادے، لیکن جب کچھ زمانہ گزر گیا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کی عادت ہو گئی تو معذور اور بیمار لوگوں کے سوا باقی سب لوگوں کے حق میں یہ اختیار ختم کردیا گیا، ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد دس شعبان۔ دو۔ ہجری۔ کو مدینہ منورہ میں روزہ کی فرضیت کا حکم نازل ہوا،۔۔ کتاب الفقہ علی المذہب الاربعہ، ،

روزہ کا فلسفہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کی رفعت و عظمت اور تسلط و اقتدار کے آگے تمام کائنات سر نگوں ہے، لیکن یہ بات بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ انسان کے اشرف و اعزاز اور عظمت و اقتدار کا معیار اور سبب کیا ہے؟

انسان کا شرف و اعزاز اس بات میں ہے کہ وہ نفس سرکش کو قابو میں کرلے اور اپنی خواہشات پر غالب آکر فرائض عبدیت بجا لائے اور اپنا منشاے تخلیق پورا کرے، معرفت الہی اور رضائے خداوندی کی تلاش و جستجو اس کا مقدم اور اہم فریضہ ہے اگر ایک انسان اپنے اس فرض عبدیت سے غافل اور نا بلد ہے تو وہ ہے اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کیا،۔۔ قد افلح من تزکی۔ یعنی جس نے اپنے نفس کو پاکیزہ کرلیا اس نے فلاح پائ، اور جس نے ایسا نہ کیا اس نے خود کو تباہ کیا، اس سے معلوم ہوا کہ شریف اور معزز انسان وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو حاصل کرلے، اور اسے پاکیزہ بنالے، اور نفس کو قابو کرنے کیلئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، اول یہ کہ نفس کو تمام شہوتوں اور لذتوں سے روکا جائے کیونکہ جب سرکش گھوڑے کو دانا گھاس نہ ملے تو وہ تابع ہوجاتا ہے، اسی طرح نفس کی سرکشی بھی دور ہو جاتی ہے، دوم۔ اس کے سر عبادت کا بہت سا بوجھ لاد دیا جائے جس طرح جانوروں کو دانا گھاس کم ملے مگر بوجھ بہت زیادہ لاد دیا جائے تو وہ نرم ہو جاتا ہے، یہی حال نفس کا ہے، سوم۔۔ ہر وقت خداوند سے مدد چاہیں ذرا غور فرمائیں یہی تین باتیں روزے میں بدرجہ اتم رکھی گئی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ نفس کی قوت کو توڑنے کیلئے اور اپنی تمام قوتوں کو اعتدال میں لانے کیلئے ہمیں روزہ رکھنے کا حکم ہوا ہے،

ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مصیبت زدہ انسان ہی کسی پریشانی و دکھ کا صحیح احساس کرسکتا ہے، اور روز سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ بڑے بڑے دولت مندوں کو روزہ رکھنے سے جب بھوک و پیاس لگتی ہے تو پھر انہیں غربت زدہ لوگوں کی بھوک و پیاس کا احساس ہوتا ہے پھر یہ جذبہ دل کے کسی گوشے میں ابھر نے لگتا ہے کہ ان مفلوک الحال لوگوں کی صدقہ و خیرات سے مدد کی جائے، اگر دولت مندوں و خوش حال لوگوں کو روزہ میں بھوک و پیاس نہ برداشت کرنی پڑتی اور ان کو اس کا احساس نہ ہوتا تو یقینی بات ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی ضرورت کو نہ سمجھ سکتا اور صدقہ و خیرات بھی نہ کرتے،

روزہ کے جسمانی و روحانی فوائد

اگر دنیاوی اور جسمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ روزہ مسلمانوں کو چست و چابک، صابر و شاکر، ایک دوسرے کیلئے ہمدر و غمگسار اور ایک مضبوط و منظم قوم بنانے میں بہترین ذریعہ ہے، اگر روزے کی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے خلوص کے ساتھ روزہ رکھا جائے تو حرص و طمع اور شکم پروری کا مادہ ان میں سے بالکل چلا جائے اور انسانی لباس میں فرشتے نظر آئیں، نیز اس کے ذریعہ نظم و ضبط کی وہ قوت حاصل ہو کہ دنیا کی ساری طاقتیں ان کے سامنے سر نگوں ہو جائے،

اصول طب کی رو سے۔ روزہ جسمانی صحت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اس لیے کہ اگیارہ مہینے تک جو خراب اور فاسد رطوبتیں جمع ہوئیں ہیں وہ ایک ماہ میں سب خشک ہوجاتے ہیں، صحت و توانائی میں نمایاں ترقی ہوتی ہے اس کے علاوہ روزے میں اور بہت سے جسمانی اور مادی فائدے ہیں۔ جہاں تک روحانی فوائد کا تعلق ہے تو وہ بھی بے شمار اور ان گنت ہیں، مثلاً فرشتے کھانے پینے اور جماع سے پاک و منزہ ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ان سب چیزوں سے پاک و منزہ ہے اس لئے روزہ رکھنے سے انسان تھوڑی دیر کیلیے اس ملکوتی صفت میں نظر آتا ہے،۔۔ بحوالہ۔۔ مسائل روزہ، ، 

فضیلت روزہ

فضائل کی کتابوں میں اس کا مفصل بیان آیا ہے یہاں مختصرا ذکر کیا جارہاہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے محض اللہ کی خوشنودی کیلئے رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں، ایک دوسری حدیث میں آپ کا ارشاد گرامی ہے کہ۔۔ روزہ دار کے منہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی بڑھ کر ہے، بخاری شریف میں روایت ہے کہ روزہ داروں کیلئے قیامت کے دن عرش کے نیچے دسترخوان چنا جائے گا اور وہ لوگ اس پر بیٹھ کر کھا پی رہے ہونگے جبکہ اور لوگ ابھی حساب ہی میں پھنسے ہوئے ہون گے۔ لوگ دیکھ کر کہیں گے یہ کون لوگ ہیں؟ ان کو جواب ملیگا یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھا کرتے تھے،

روزہ کا بدلہ دوسری عبادت کے بدلے سے مختلف ہے کیونکہ دوسری عبادتوں کا بدلہ فرشتوں کے ذریعے دیا جاتا ہے لیکن روزہ کے بارے میں خدا تعالیٰ کا فرمان ہے۔۔ رمضان میرا مہینہ ہے اور میں اس کا بدلہ اپنی ہاتھوں سے دیتا ہوں، کتنے خوش نصیب ہے وہ لوگ جو اپنی عبادتوں کا بدلہ اپنے مالک کے ہاتھوں سے پائیں گے، کسی غیر کو دخل تک نہ ہوگا، دنیاوی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو چیز سرکاری حکام کے ذریعہ دی جاتی ہے اسمیں اور بادشاہ یا وزیر اعظم کے ہاتھوں سے دی ہوئی چیز میں کتنا فرق ہے،

محترم و مکرم۔۔۔۔۔۔
ان احادیث کو پڑھنے اور سننے کے باوجود بھی روزہ رکھنے کا شوق و جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ یقینا پتھر سے زیادہ سخت اور گناہوں کی کثرت سے دل بالکل زنگ آلود ہے ایسے دل والوں کو صدق دل سے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔

رمضان المبارک احکام ومسائل

قسط نمبر (٣)
مجیب الرحمٰن
7061674542

پہلی اور دوسری قسط میں ابتدائی چیزوں کا بیان ہوا تھا اب یہاں سے روزہ کے اہم مسائل کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تمام عبادتوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے اگر نیت خالص ہو تو وہ عمل قابل قبول ہے لیکن اگر برعکس ہو تو وہ عمل ردی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے، اس قسط میں روزے کی نیت کے مسائل پیش کئے جائیں گے تاکہ مسائل نیت سے واقف ہوکر ہم روزہ کو صحیح طور پر کامیاب بنا سکیں۔

مسائل نیت

ہر عبادت کی صحت کیلئے نیت کا ہونا شرط ہے، مشکواۃ کی پہلی حدیث۔ انماالاعمال بالنیات۔ یہ بتلا رہی ہے کہ روزہ کی صحت بھی نیت پر موقوف ہے، روزہ خواہ فرض ہو یا نفل قضاء ہو یا نذر، نیت کے بغیر صحیح نہیں ہے آدمی نیت کے بغیر تمام دن بغیر کچھ کھائے پیئے گزار دے کوئی فائدہ نہیں، اتنی سی بات ضروری ہے کہ نیت کے الفاظ زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے بلکہ سحری میں اٹھنا اور سحری کھانا بھی نیت میں شمار ہوتا ہے، البتہ زبان سے نیت کا اظہار کرنا زیادہ بہتر ہے۔

مسئلہ۔ رمضان کے ہر روزے میں نیت کرنا ضروری ہے ایک روز نیت کرلینا تمام روزوں کیلئے کافی نہیں ( علم الفقہ ج ٣ ص ١٨)

مسئلہ۔۔ رمضان شریف کے روزے کی اگر رات سے نیت کرے تب بھی فرض ادا ہوجاتا ہے اور اگر رات کو روزہ رکھنے کا ارادہ نہ تھا صبح ہوگئ تب بھی یہ خیال رہا کہ آج میں روزہ نہیں رکھونگا پھر دن چڑھے یہ خیال آیا کہ فرض چھوڑدینا بری بات ہے اس لئے اب روزہ کی نیت کر لی تب بھی روزہ ہوگیا لیکن اگر صبح کو کچھ کھا پی لیا تو اب نیت نہیں کرسکتے، ( بہشتی زیور حصہ سوم ص ٣)

نیت کا آخری وقت

اگر کچھ کھایا پیا نہ ہو تو دن کے ٹھیک دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے پہلے رمضان کے روزے کی نیت کرلینا درست ہے۔

صبح صادق سے غروب آفتاب تک کل وقت کے نصف کو نصف النہار شرعی کہا جاتا ہے صبح صادق اور طلوع آفتاب کے درمیان جتنا وقت ہوتا ہے نصف النہار شرعی و نصف النہار عرفی ( وقت زوال) کے درمیان اس کا نصف ہوتا ہے، مثلاً صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ڈیڑھ گھنٹہ ہو تو نصف النہار عرفی سے پون گھنٹہ پہلے نصف النہار شرعی ہوگا اس وقت کی مقدار ہر موسم میں اور ہر مقام میں مختلف ہوتی ہے اس لئے اس کی مقدار گھنٹوں سے متعین نہیں ہو سکتی ضابطہ مذکورہ کے مطابق عمل کیا جائے گا، ( مسائل روزہ ص ٤٧)

نصف النہار کی تعیین کا طریقہ

نصف النہار کی تعیین کا طریقہ یہ ہے کہ اول دیکھ لیا جائے کہ صبح صادق کتنے بجے ہوتی ہے اور سورج کتنے بجے غروب ہوتا ہے ان کے درمیان کے گھنٹوں کو شمار کرکے ان کا نصف لے لیا جائے اس نصف کے اندر اندر نیت کر لی گئی تو روزہ ہو جائے گا اور اگر نصف وقت پورا یا اس سے زیادہ گزر جاے تو روزہ نہ ہوگا، ( بہشتی زیور حصہ سوم ص ٣) 

دل کے خیال کا نام نیت

رمضان شریف کے روزے میں بس اتنی نیت کرلینا کافی ہے کہ آج میرا روزہ ہے یا رات کو سوچ لے کہ کل میرا روزہ ہے بس اتنی نیت سے بھی رمضان کا روزہ ادا ہو جائے گا اگر نیت میں خاص یہ بات نہ آئی ہو کہ رمضان کا روزہ ہے یا فرض کا تب بھی روزہ ہو جائے گا، 

رمضان کے روزے کا مطلق نیت سے ادا ہو جانا

رمضان کے مہینے میں اگر کسی نے یہ نیت کی کہ کل میں نفل روزہ رکھوں گا رمضان کا نہ رکھو گا بلکہ اس روزے کی کبھی قضا رکھونگا تب بھی رمضان ہی کا روزہ ہوگا نفل کا نہیں ہوگا، ( بہشتی زیور حصہ ٣, بحوالہ فتاویٰ ہندیہ ج ١ ص ١٩٤)

سحری کھانا نیت میں شمار ہوگا یا نہیں؟

ماہ رمضان میں ہر روز نیت کرنی چاہیے۔ سحری کھانا بھی نیت ہے یہ اور بات ہے کہ کھاتے وقت روزہ رکھنے کا ارادہ نہ ہو اگر ایسا ہے تو سحری کھانا نیت میں شمار نہیں ہوگا، اگر اول شب میں نیت کی پھر طلوع فجر سے پہلے نیت توڑ دی تو یہ نیت کا توڑ دینا ہر قسم کے روزوں کی نیت میں معتبر ہوگا، ( کتاب الفقہ علی المذہب الاربعہ ج١ص٨٨١)

نیت کا زبان سے ظاہر کرنا ضروری نہیں

نیت کا زبان سے ظاہر کرنا ضروری نہیں ہے صرف دل کا ارادہ کافی ہے حتیٰ کہ سحری کھانا خود نیت میں داخل ہے اس لیئے کہ سحری روزہ رکھنے کی غرض سے کھائی جاتی ہے ہاں اگر کسی کی نیت اس وقت کھانا کھانے کی ہو یا کوئی بد بخت ہو جو صرف سحری کھاتا ہو اور روزہ نہ رکھتا ہو تو اس کیلئے سحری کھانا نیت کے قائم مقام نہیں ہے، ( علم الفقہ) 

مریض اور مسافر کی نیت کا حکم

رمضان کے مہینے میں مریض کے روزے کی نیت کا حکم مذہب مختار کے مطابق تندرست اور صحیح و مقیم کی نیت کے حکم کے مانند ہے، یعنی اگر کوئی مریض آدمی رمضان کے مہینہ میں کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تو اس کی نیت کا اعتبار نہ ہوگا اور رمضان کا روزہ ہی تمام حالتوں میں سمجھا جائے گا۔

البتہ مسافر رمضان کے مہینے میں کسی دوسرے روزے کی نیت کرے تو اس کی نیت کا اعتبار ہوگا اور جس نیت سے روزہ رکھے اسی کا ہوگا ( چاہے نفل ہو یا واجب)۔ ۔۔ / شامی ج٢ ص ٨٦/

نیت کے بغیر بھوکا رہنے سے روزہ نہیں ہوگا

اگر کسی نے پورے دن کچھ نہیں کھایا پیا شام تک بھوکا پیاسا رہا لیکن دل میں روزے کا ارادہ نہ تھا بلکہ بھوک ہی نہیں لگی یا کسی اور وجہ سے کھانے پینے کی نوبت نہیں آئی تو اس کا روزہ نہیں ہوگا اگر دل میں روزہ کا ارادہ کرلے تو روزہ ہوجاتا، ( بہشتی زیور حصہ سوم ص٣)

نیت کرکے روزہ توڑنا

سوال۔۔ کسی شخص نے شب رمضان میں روزے کی نیت کی یا غیر رمضان میں رات کو یا دن کو نفل روزہ کی نیت کی اب وہ رات کو یا دن کو عذر کی وجہ سے یا بلا عذر نیت توڑ سکتا ہے یا نہیں؟

جوا۔۔۔۔ نیت کا رات کو توڑنا ممکن ہے اس طریقے سے کہ اگلے دن کھانے پینے کا ارادہ کرے لیکن دن میں جبکہ روزہ شروع ہوگیا تو اب نیت توڑنا لغو ہے۔ پس رمضان کے روزے میں اگر رات کو نیت کرکے توڑدی اور دن کو کھا پی لیا تو صرف قضا لازم آے گی۔

اور اگر دن میں نیت توڑ کر کھا پی لیا تو کفارہ بھی لازم آے گا، اور اگر غیر رمضان میں رات کو نیت توڑ دی تو نہ قضا ہے نہ کفارہ اور اگر دن میں نیت ختم کرکے کھا پی لیا تو صرف قضا لازم آے گی، اور جن روزوں میں ان کا وقت متعین ہے اس میں بلا عذر نیت توڑ نا جائز نہیں اور غیر معین میں توڑنا بغیر عذر کے بھی جائز ہے، ( امداد الفتاوی، ج ١ ص ١٧٣)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے