Ticker

6/recent/ticker-posts

روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں Rozedar Ke Liye Do Khushiyan Hain

روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں

محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

حضرت مولانا علی میاں ندوی رح روزے کی اہمیت و فضیلت، دین میں اس کی قدر و منزلت اور اس کے فلسفہ پر جب تقریر فرماتے، تو کبھی کبھی اپنا یہ واقعہ بھی بیان کرتے تھے کہ ایک موقع پر لکھنئو ریڈیو اسٹیشن کے ارکان اور نمائندے نے رمضان المبارک اور روزے کی اہمیت پر ریڈیو اسٹیشن سے نشر کرنے کے لئے ان کی تقریر ریکارڈ کرایا اور اگلے دن سحری کے وقت اس کو نشر کیا۔

ایک بڑی تعداد نے مولانا کی اس تقریر کو سنا۔ سنے والوں میں پنجاب کا ایک سکھ بھی تھا، جو رمضان کا روزہ کئ سالوں سے رکھ رہا تھا۔ اور روزہ رکھنے کی وجہ اور سبب یہ تھا کہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے کے بعد جب شام کے وقت کھاتا تھا اور پانی و شربت کا پہلا قطرہ اور گھونٹ حلق میں جاتا تھا تو وہ خاص لذت محسوس کرتا تھا، اس کو بڑا مزہ آتا تھا اور ایک طرح کی خوشی اور فرحت محسوس کرتا تھا۔

اس سکھ پنجابی نے مولانا کی پوری تقریر سنی، لیکن اس میں اس کا تذکرہ نہیں تھا کہ افطار کے کھانے اور پینے میں کیا لذت اور مزہ ہے اور اس وقت کھانے اور پینے میں کیسی خوشی اور فرحت محسوس ہوتی ہے۔ تو انہوں نے حضرت مولانا علی میاں ندوی رح کے نام ایک خط لکھا اور مولانا کی تقریر کو سراہا اور اس کی تعریف کی۔ اور لکھا کہ مولانا صاحب روزے کی اہمیت پر آپ نے بڑی اچھی دلچسپ اور مفید و معلوماتی تقریر کی۔ لیکن ایک ضروری اور خاص چیز کا تذکرہ آپ سے رہ گیا، آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ روزہ دار کو روزہ کھولتے وقت کھانے پینے میں کیا خاص لذت ملتی ہے اور کتنا مزہ آتا ہے۔

اس واقعہ کو حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے متعدد بار اپنی تقریروں اور مجلسوں میں بھی بیان کیا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ افطار کے وقت کھانے اور پینے میں جو لذت و فرحت اور خاص خوشی اور مزہ آتا ہے، دنیا کے کسی خورد و نوش، کھان پان اور ڈش میں وہ مزہ نہیں آتا اور نہ وہ لذت اور فرحت محسوس ہوتی ہے، اس کو ہر وہ شخص محسوس کر سکتا ہے جو روزہ رکھ کر شام کو افطار کرتا ہے۔

میں تو اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اس زیادہ کسی اور خورد و نوش میں آج تک مزہ آیا ہی نہیں اور نہ آج تک کسی اور کھانے میں ایسی فرحت اور لذت محسوس کیا میں اپنی خوشی اور لذت کی اس کیفت اور حالت کو کبھی بیان کر ہی نہیں کرسکتا۔

حدیث شریف میں بھی اس جانب خاص اشارہ کیا گیا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

للصائم فرحتان فرحة عند افطار و فرحة حین یلقی ربه

( نسائ، کتاب الصوم باب فضل الصیام)

یعنی اللہ تعالی نے روزہ دار کے لئے دو خوشیاں رکھی ہیں، ایک خوشی وہ جو افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے، اور دوسری خوشی اس وقت حاصل ہوگی، جب وہ قیامت کے روز اپنے پرور دگار سے جاکر ملاقات کرے گا، اصل خوشی تو وہی ہے جو آخرت میں اللہ تعالی سے ملاقات کے وقت نصیب ہوگی۔

حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی لکھتے ہیں :

"لیکن اس آخرت کی تھوڑی سی جھلک اللہ تعالی نے اس دنیا میں بھی رکھ دی ہے، یہ وہ خوشی ہے جو افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے۔ پھر یہ افطار دو قسم کے ہیں؛ ایک افطار وہ ہے جو روزانہ رمضان میں روزہ کھولتے وقت ہوتا ہے، اس افطار کے وقت ہر روزہ دار کو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ سارے کھانے پینے میں وہ لطف اور اتنی خوشی حاصل نہیں ہوتی جو لطف اور خوشی رمضان المبارک میں افطار کے وقت ہوتی ہے، ہر شخص اس کا تجربہ کرتا ہے، علماء کرام روزانہ کے اس افطار کو ۰۰افطار اصغر۰۰ کا نام دیتے ہیں اور دوسرا افطار وہ ہے جو رمضان المبارک کے ختم پر ہوتا ہے، جس کے بعد عید الفطر کی خوشی ہوتی ہے، اس کو ۰۰افطار اکبر ۰۰ کہا جاتا ہے اس لئے سارے مہینے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں روزے رکھنے اور اس کی بندگی اور عبادت کرنے کے بعد اللہ تعالی عید کے دن خوشی اور مسرت عطار فرماتے ہیں، ایک خوشی آخرت میں اللہ تعالی سے ملاقات کے وقت حاصل ہونے والی خوشی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے، جو اللہ تعالٰی نے عید کی شکل میں بندوں کو عطا فرمائی ہے۔
(اصلاحی خطبات جلد ۱۲/ صفحہ ۶۳)

لیکن ایک بات یہاں یہ بھی یاد رہے کہ افطار کے وقت کھانے پینے میں جو لذت اور مزہ آتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ حلق تک آدمی کھا اور پی لے بلکہ یہاں بھی افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ پر رہے، کیونکہ حلق تک کھانا اور ڈکار لیتے رہنا یہ کسی مومن کی شان نہیں ہے۔ بقول مولانا علی میاں ندوی رح :

"آج حالت یہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں نے روزہ کے مقاصد کے ساتھ نا انصافی سے کام لیا اور مختلف عادتوں کی وجہ سے اس کے یقینی اور متوقع فوائد سے محروم ہوگئے انہوں نے افطار اور کھانے میں اس قدر مبالغہ اور اسراف سے کام لینا شروع کردیا کہ روزہ کا اصل فائدہ اور اس کی اصلاحی اور تربیتی قوت بڑی حد تک ختم ہوگئی یا کمزور پڑ گئی "۔۔( ارکان اربعہ ۲۷۰)

امام غزالی رح نے اس نکتہ پر بڑی بلاغت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:

" پانچواں ادب یہ ہے کہ افطار کے وقت حلال غذا میں بھی احتیاط سے کام لے اور اتنا نہ کھائے کہ اس کے بعد گنجائش ہی باقی نہ رہے، اس لیے کہ حلق تک بھرے ہوئے پیٹ سے بڑھ کر مبغوض اللہ کے نزدیک کوئی بھری جانے والی چیز نہیں ہے، اگر روزہ دار افطار کے وقت دن بھر کی تلافی کردے اور جو دن بھر کھانے والا تھا وہ ایک وقت میں کھا لے تو دشمن خدا پر غالب آنے اور شہوت کو ختم کرنے میں روزہ سے کیا مدد مل سکے گی؟ یہ عادتیں مسلمانوں میں اتنی راسخُ اور عام ہوچکی ہیں کہ رمضان کے لیے بہت پہلے ہی سے سامان خوراک جمع کیا جاتا ہے اور رمضان کے دنوں میں اتنا نفیس کھانا کھایا جاتا ہے جو اور دنوں میں نہیں کھایا جاتا، روزہ کا مقصد تو خالی پیٹ رہنا اور خواہشات نفس کو دبانا ہے، تاکہ تقوی کی صلاحیت پیدا ہوسکے، اب اگر معدہ کو صبح و شام تک کھانے پینے سے محروم رکھا جائے اور شہوت اور بھوک کو خوب امتحان میں ڈالنے کے بعد انواع و اقسام کے کھانوں سے پیٹ بھر لیا جائے تو نفس کی خواہشات اور لذتیں کم نہ ہوں گی اور بڑھ جائیں گی، بلکہ ممکن ہے کہ بہت سی ایسی خواہشات جو ابھی تک خوابیدہ تھیں، وہ بھی بیدار ہوجائیں، رمضان کی روح اور اس کا راز طاقتوں کو کمزور کرنا ہے، جن کو شیاطین اپنے وسائل کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور یہ بات تقلیل غذا یعنی کم کھانے سے حاصل ہوگی، یعنی یہ کہ شام کو اتنا ہی کھائے جتنا عام دنوں میں کھاتا تھا اگر کوئی دن بھر کا حساب لگا کر ایک ہی وقت میں کھالے تو اس سے روزہ کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔۔ بلکہ یہ بھی آداب میں داخل ہے کہ دن میں زیادہ نہ سوئے تاکہ بھوک، پیاس کا کچھ مزہ معلوم ہو، قوی کے ضعف کا احساس ہو، قلب میں صفائی پیدا ہو، اسی طرح ہر شب اپنے معدہ کو اتنا ہلکا رکھے کہ تہجد اور اوراد میں مشغولی آسان ہو، اور شیطان اس کے دل کے پاس منڈلا نہ سکے اور اس صفائی قلب کی وجہ سے عالم قدس کا دیدار اس کے لیے ممکن ہو" (ارکان اربعہ ۲۷۰ / ۲۷۱ بحوالہ احیاء العلوم ۲۱۱)

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہم تمام روزے داروں کو یہ دونوں خوشیاں نصیب کرے اور اخرت میں ہم سب کو دیدار الہی بھی نصیب ہو نیز کھانے پینے کی افراط و تفریط سے بچائے اور روزے کی جو اصل روح اور مقصد ہے اس کو حاصل کرنے کی توفیق دے۔آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے