Ticker

6/recent/ticker-posts

روزہ دار فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے

روزہ دار فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

انسان حیوانات اور فرشتوں کی درمیانی مخلوق ہے، اس میں ان دونوں متضاد جنسوں کے طبائع بہت لطیف اور نازک طریقہ پر ودیعت کئے گئے ہیں، وہ ملکوتی صفات اور حیوانی خصوصیات کا عجیب و غریب مجموعہ ہے، جس منصب کے لیے وو نامزد کیا گیا ہے اور جن مقاصد کی تکمیل خدا کی طرف سے اس کے سپرد کی گئی ہے اور اس میں اس کی استعداد اور صلاحیت بھی پیدا کی گئی ہے، اس کے لئے نہ فرشتے موزوں ہیں نہ جانور، یہ خلافت امانت اور عبادت کا منصب جلیل ہے۔ اس حقیقت کا اظہار قرآن و سنت میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ ( مستفاد ارکان اربعہ)

روزہ اہم اسلامی عبادت بہت ہے

اسلامی عبادات میں سے ایک اہم عبادت روزہ بھی ہے، اس کا مکلف بھی انسان ہی کو بنایا گیا ہے اور اسی پر روزہ فرض ہے، ہاں اس کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے کافر پر روزہ فرض نہیں ہے۔

روزہ دار روزہ کی حالت میں فرشتوں کی مشابہت کیسے اختیار کرتا ہے

روزہ دار روزہ کی حالت میں فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے۔ روزہ کی ساخت اور طرز ایسی رکھی گئی ہے کہ اس میں فرشتوں جیسی زندگی ابھرتی ہے کہ فرشتے وہ مخلوق ہیں جو نہ کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں اور نہ ان کو زمینی مخلوق کی طرح ضروریات پیش آتی ہیں وہ ہر وقت اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں اس سے لو لگاتے ہیں۔ وہ نہ تھکتے ہیں اور نہ نافرمانی کرتے ہیں۔ گویا زمینی مخلوق آسمانی عمل کا نمونہ اور مثال ہوتے ہیں روزے دار۔ بقول حضرت مرشد الامہ :

روزہ دار فرشتوں کی طرح عبادات و اطاعت میں لگا رہتا ہے

زمینی مخلوق کا فرد ہونے کی وجہ سے اس کو لازمی تقاضائے بشری تو پوری کرنے ہوتے ہیں، لیکن دیگر ممکن اور اختیاری معاملات میں روزہ دار فرشتوں کی طرح عبادات و اطاعت میں لگا رہتا ہے نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ کوئی نافرمانی کرتا ہے روزہ دار اس طرح کی زندگی اختیار کرنے میں کامیاب اور مقبول روزہ دار ثابت ہوتا ہے اور اس میں کوتاہی کرنے میں کوتاہی کے بقدر روزہ کے فائدے سے محروم ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ ایسے زمانہ میں جو روحانی اور ملائکہ کے طرز زندگی کا اظہار کرنے کے لئے ان کو دیا گیا ہے، اس سے وہ کہاں تک عہدہ برآ ہو رہے ہیں اور اگر ان سے سے کچھ کوتاہی ہوتی ہے تو وہ اس کو دور کرنے کی کیا کوشش کرتے ہیں، وہ اپنی پوری زندگی میں فرشتے نہیں بن سکتے تو کیا ان کو جو تھوڑا سا موقع اس بات کا مظاہرہ کرنے کے لئے دیا گیا ہے اس سے وہ بقدر استطاعت فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتے، اور اپنے پروردگار کی رحمتوں اور رضامندی سے مالا مال نہیں ہوسکتے۔ ( تحفئہ رمضان از حضرت مرشد الامہ سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی )

رمضان المبارک کا مہینہ اور روزہ کا عمل

الغرض رمضان المبارک کا مہینہ اور روزہ کا عمل یہ منجانب اللہ خصوصی انعام اور عطیہ ہے ایمان والوں کے لئے۔ رمضان المبارک کا یہ مہینہ ایک بیش بہا دولت اور ایک عجیب اور انوکھی نعمت والا مہینہ ہے زمینی مخلوق یعنی انسان کو کچھ وقت کے لئے آسمانی مخلوق یعنی فرشتہ بنا دینے والا مہینہ ہے ایسی بیش بہا اور نادر نعمت ملنے پر اس کی قدر و منزلت نہ ہو اس کا احترام نہ ہو تو ہم سب کے لئے بڑی محرومی کی بات ہوگی۔

حدیث شریف میں ایسے شخص کے لئے وعید آئی ہے۔ ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممبر پر چڑھتے ہوئے تین شخصوں کے لئے محرومی و بربادی کی بددعا پر آمین کہیں ان میں سے ایک شخص وہ تھا جس کو رمضان کا موقع ملے اور وہ اس کا حق ادا کرکے اپنی بخشش نہ کراسکے۔ اور رمضان کی قدر کرنے والے کے لئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ آدمی کے ہر عمل کی جزا تو ویسی ہوگی جیسی یہاں کی گئ ہوگی سوائے روزہ کے کہ وہ میرے ساتھ مخصوص ہے میں خود اس کی جزا خود اپنے سے دوں گا۔

پہلے، دوسرے اور آخری یعنی تیسرے عشرہ کی خصوصیات

اللہ تعالٰی نے اس ماہ مقدس کے پہلے عشرہ کو رحمت دوسرے کو مغفرت اور آخری یعنی تیسرے عشرہ کو جہنم سے خلاصی کا عشرہ قرار دیا ہے تاکہ مومن بندہ ہر اعتبار سے اپنے آپ کو مزکی کرلے اور اپنی آخرت کو بنا لے۔
 
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ ڈالا جائے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دئے جاتے ہیں۔

اگر اس مہینہ میں کسی آدمی کو اعمال صالحہ کی توفیق مل جائے تو پورے سال یہ توفیق اس کے شامل حال رہتی ہے اور اگر یہ مہینہ بے دلی فکر و تردد اور انتشار کے ساتھ گزرے تو پورا سال اسی حال میں گزرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

غرض رمضان المبارک میں روزہ دار کو ہر اعتبار سے تربیت اور اپنی شخصیت کو بنانے اور نکھارنے کا موقع دیا جاتا ہے اور اس کی توفیق دی جاتی ہے کہ یہ زمینی مخلوق آسمانی عمل کو اپنا کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار لے۔ اور اس اہم رکن کو ادا کرکے خود مالک ارض و سما سے اپنا بدلہ اور انعام حاصل کرے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے