Ticker

6/recent/ticker-posts

آخر نمونہ کون پیش کرے گا.. ؟ | Aakhir Namuna Kaun Pesh Karega

آخر نمونہ کون پیش کرے گا.. ؟


Sarfaraz Alam


میرا غالب گمان ہے کہ شادی بیاہ کے معاملے میں سماج کے خوشحال طبقے نے ہمیشہ اپنا نمایاں رول ادا کیا ہے۔آج ہماری شادی کی تقریبات میں نمائش کی ایجاد انہیں خوشحال لوگوں کی دین ہے۔ مسلمانوں کی شادیوں میں نکاح کے علاوہ لگ بھگ تمام تقریبات غیر مسلموں کی نقالی ہے۔ اسلام نے نکاح کو آسان بنایا تھا، چند پڑھے لکھے امیر لوگوں نے اپنی دولت کی نمائش کرکے اس کو مشکل بنا دیا ہے۔میرا یہ بھی غالب گمان ہے کہ پہلی بار اپنی بیٹی کو جہیز میں لاکھوں کا سامان کسی امیر باپ نے ہی دیا ہوگا جس کی وجہ سے (جہیزمیں بیٹی کو ضروری سامان دینے کی تو کچھ گنجائش نکلتی ہے) دہیج جیسی لعنت ہماری شادی کا حصہ بن چکی ہے۔

انہیں امیر لوگوں نے شادیوں میں درجنوں قسم کے مہنگے کھانوں کی شروعات کی ہوگی۔انہیں لوگوں نے مہنگے میریج ہال میں ایک رات میں لاکھوں خرچ کر دینے کی وبا پھیلائی ہوگی۔تماشہ تو یہ بھی ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نعوذبااللہ دھوکہ دینے کے لئے مسجدوں میں نکاح تو کررہے ہیں اس کے بعد تمام خرافات بخوبی کی جاتی ہیں، الا ماشااللہ۔میریج ہال مرد وخواتین کی بےپردہ محفل تو اب لائق فخر بات ہو گئی ہے۔ دولہا دولہن کو ایک ساتھ تخت پر بٹھا کر آن لائن نمائش کرنے کی اسلام نے قطعی اجازت نہیں دی ہے۔اس کے علاوہ درجنوں خرافاتی رسم و رواج آج ہماری شادیوں کا حصہ بن چکی ہیں۔ اب بیچاری ان پڑھ غریب عوام قرض لے کر بھی ان تمام خرافات کی نقل کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

اکثر ہم لوگ اچھے کام کی امید دوسروں سے کرتے ہیں اور خود کسی نیک عمل کا نمونہ نہیں بننا چاہتے ہیں، جبکہ اسلامی تعلیمات ہمیں پہلے خود نیک اعمال کرنے اور سماج کے لئے عمدہ نمونہ پیش کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے نیک اعمال کرنے سے جہاں ایک طرف خود اپنے قلب کو اطمینان نصیب ہوتا ہے وہیں دوسری طرف سماج میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دین سے خالی دنیا کی دوسری قومیں بھی اچھے اعمال کرتی ہیں مگر امت مسلمہ کے افراد پر اس کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر ذی شعور مسلمان کو چاہیے کہ ان اعمال کو بہت سوچ سمجھ کر انجام دے جن کا اثر سماج کے دوسرے افراد پر براہ راست پڑتا ہے۔ یہ ذمہ داری اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب ایک مسلمان داعی اور مبلغ کا بھی کام انجام دے رہا ہو۔

بیشک زندگی کے ہر شعبے میں اسلام نے رہنمائی کی ہے مگر مجھے یہاں خصوصی طور پر شادیات میں ہونے والے بیجاخرچ پرخصوصی توجہ مرکوز کرنا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس شادی میں کم سے کم خرچ کیا جائے اس شادی میں برکت ہوتی ہے "۔اس کے علاوہ شادی بیاہ کے تعلق سے اسلامی تعلیمات بھری پڑی ہیں پھر بھی اکثر لوگ اسراف و فضول خرچی کرکے شیطان کی خوشی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

اچھا عمل ہو یا برا، نمونہ پیش کرنے والے ہمیشہ ذی شعور، تعلیم یافتہ اور عقلمند لوگ ہی رہے ہیں۔ آج تک دنیا بھر میں تباہ کن عمل کا نمونہ پیش کرنے والے بھی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ یا گروہ ہی رہا ہے۔اس طرح اچھے اعمال کی مثال بھی ہمیشہ ذی شعور لوگوں نے ہی پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں سطح پر عوام ایسے لوگوں کی پیروی کرکے یا تو تباہ ہو جاتی ہے یا راہ راست اختیار کرکے کامیاب ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سماج کے ذی شعور افراد کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ان کے ہر اعمال کا سماج پر اچھا یا برا اثر ہوتا ہے اور ایسے لوگوں کے اعمال اکثر سماج کا رخ موڑ دیتے ہیں۔اس طرح یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اچھے اور باشعور لوگوں کے ہاتھ میں سماج کی باگ ڈور ہوتی ہے۔

اس پس منظر میں امت مسلمہ کے باشعور لوگوں کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ہر کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے سیکھنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا " بیشک رسول اللہ کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے"۔اسلام نے ہر کام میں میانہ روی کو پسند فرمایا ہے۔ بیشک باشعور تعلیم یافتہ لوگوں کو ہی اس سلسلے میں پہل کرنی ہوگی تاکہ شادی بیاہ سے خرافات کو ختم کیا جا سکے۔علمائے کرام کو بھی امیر لوگوں کی اصلاح کی زیادہ کوشش کرنی ہوگی۔ایک امیر یا ایک عالم دین سماج میں عملی نمونہ پیش کرے تو آج بھی سماجی برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ایسی شادیوں میں امیروں کے یہاں علمائے کرام جانا بند کردیں تو ان شاءاللہ تمام خرافات رفع ہو جائیں گی اور ہمارا سماج ایک اسلامی معاشرہ بن جائے گا۔لہٰذا عمومی طور پر دینی شعور رکھنے والے افراد کو عملی نمونہ تو پیش کرنا ہوگا۔یہ لوگ نہیں آگے بڑھیں گے تو آخر عملی نمونہ کون پیش کرے گا؟

 اللہ تمام مسلمانوں کو اپنی شادیوں کو خرافات سے پاک کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

سرفراز عالم، عالم گنج پٹنہ
رابطہ 8825189373

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے