مالداروں اور مدارس کے ذمہ داروں سے چند گزارشات
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
بعض احباب کی دلی خواہش ہے کہ، مدارس اسلامیہ کی اہمیت، وہاں کے انتظام و انصرام، داخلی و خارجی دقتیں، مسائل اور چلینجز، طلبہ و اساتذہ کے مسائل نیز مدارس میں مالدار گھرانے کے بچے کیسے تعلیم حاصل کرنے آئیں، اس کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جائے نیز مدارس کے معیار اور نصاب تعلیم کو کیسے مفید بامقصد اور بافیض کیا جائے، اس پر ماہ شوال المکرم میں وقفہ وقفہ سے کچھ ضرور لکھوں، کیونکہ اس ماہ میں ہی مدارس میں داخلے ہوتے ہیں اور نئے نظام تعلیم کی شروعات ہوتی ہے۔انہیں احباب کی خواہش پر ایک پرانا مضمون کچھ اصلاح اور تبدیلی کے ساتھ، ، قند مکرر، ، کے طور پر قارئین باتمکین کی خدمت پیش کر رہا ہوں امید کہ توجہ سے اس تحریر کو پڑھی جائے گی اور اس پر عملی طور پر کاربند ہونے کی کوشش کی جائے گی، تاکہ مدارس اسلامیہ کی افادیت بڑھ سکے اور علم دین کا نور اور اس کی روشنی 💡🔦 مالدار گھرانے میں بھی پہنچ سکے، اس سلسلہ کی مزید تحریریں بھی قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ ابھی اس زاویہ سے روشنی ڈالی جارہی ہے، کچھ ایسے معیاری مدارس قائم کیے جائیں جہاں اعلیٰ خاندان کے طلبہ سے معیاری فیس لے کر انہیں دینی اور مذھبی تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ یہ قوم کی صحیح رہنمائی کرسکیں اور یہ کسی سے متاثر اور مرعوب نہ ہوں۔۔۔۔
دینی مدارس اسلام کے قلعے
قارئین باتمکین!
دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں، یہ مسلمانوں کے لیے پاور ہاوس اور بجلی گھر کی حیثیت رکھتے ہیں، پوری دنیا میں اور خاص طور پر بر صغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی شناخت زیادہ تر مدارس کی وجہ سے ہے۔ اسلامی شعار کی حفاظت، اور عائلی نظام کی حفاظت اور وجود و بقا میں مدارس کا کردار کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں، آج اگر اسلامی معاشرہ میں دینی رمق اور ایمان کی کچھ حرکت اور حرارت باقی ہے تو یہ فیض اور احسان ہے، انہی مدارس کا، اور باطل کو آج سب سے زیادہ ڈر اور خطرہ بھی انہی مدارس سے ہے، کیونکہ انہیں علم ہے کہ اس کے سارے منصوبے مدارس اور وہاں کے فارغین اور فیض یافتہ افراد کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔ علامہ اقبال رح نے بالکل سچ کہا ہے:
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس ہوتے ہیں تہ و بالا
مدارس کی اہمیت اور اس کی ضرورت
مدارس کی اہمیت اور اس کی ضرورت کے سب قائل ہیں، سوائے چند بے توفیق لوگوں کے، جو آئے دن مدارس کے خلاف اور وہاں کے نظام کے خلاف تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے خوش حال طبقہ میں بھی ان لوگوں کی خاصی تعداد ہے، جو اپنے قول و عمل سے دین کی ضرورت، اہمیت اور برکت کے قائل اور معترف ہیں۔ مسلمانوں کا یہ طبقہ علم دین کے فروغ و بقا اور ترویج و اشاعت کے لیے مدارس اسلامیہ کی دامے، درمے مدد تو کرتے ہیں، مگر اس طبقہ کو اس سعادت کی توفیق کم ملتی ہے کہ وہ اپنی تمام اولاد کو نہ سہی بعض ہی کو علم دین کے لیے وقف کردے اور ان کو عالم دین، مبلغ اور داعی اسلام بنائے، راقم کی فکر اور خیال یہ ہے کہ دین کے موثر، باکمال اور جاندار ترجمان، خادم اور داعی و مبلغ پیدا کرنے کے لیے دینی مدارس، جامعات اور درسگاہوں میں خاصی تعداد میں ان حضرات کا اپنی اولاد کو تعلیم دلانا ضروری ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے مالدار، خوشحال اور صاحب ثروت بنایا ہے، جو تجارت، زراعت، سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں ملازمت یا کسی جائز ذریعہ سے اپنی اولاد کے لیے رزق حلال کی ایسی سبیل اور ذریعہ رکھتے ہیں، جو انہیں سرکاری اداروں میں ملازمت اور کالج و یونیورسٹی سے مستغنی کردے۔
میں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اور الحمدللہ مدرسہ میں چوبیس پچیس سالہ تدریسی تجربات اور مشاہدہ کی بنیاد پر اس رائے اور خیال کا اظہار کر رہا ہوں کہ اگر مسلم سماج اور سوسائٹی کے مالی اعتبار سے خوشحال، سربرآوردہ، زمانہ شناس، مدنیت آشنا اور واقف کار طبقہ کے نونہال اور نوجوانوں دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں، تو اسلام کو اور دین و علم کو ایسے ترجمان، خادم اور داعی و مبلغ مل جائیں گے جو یدعلیا، بلند نظری، وسیع القلبی اور خودداری و خود اعتمادی کی اعلیٰ صفات سے آراستہ ہوکر دین اور علم دین کی خدمت و اشاعت بحسن و خوبی انجام دیں گے، قوم ان کی رہنمائی کی ہر لمحہ محتاج ہوگی، وہ قوم و ملت کے دست نگر اور محتاج نہ ہوں گے۔ الحمدللہ مسلمانوں میں ایسے علماء کرام بھی ہیں جو اصحاب ثروت گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور پوری خود اعتمادی بلند فکری، بلند نظری کے ساتھ علمی، تحقیقی اور دینی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، ، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
بعض مالدار اور خوشحال حضرات کو دیکھا گیا کہ وہ اپنے بچوں کی شرارتوں یا ذہنی اور دماغی کمزوری اور پڑھنے میں عدم دلچسپی سے عاجز اور تنگ آکر انہیں لیے ہوئے دینی درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں گو وہ ایسا کرنے میں اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ بچوں کے اخلاق و کردارکی درستی اور عقل و شعور کی پختگی صحیح معنوں میں دینی درسگاہوں میں ہی حاصل ہوتی ہے، مگر یہ طرز عمل اچھا نہیں ہے۔ خود میری نگرانی میں ایسے بہت سے طلبہ آئے، جن کے والدین وہ تھے، جنہوں نے اولاد کی شرارت سے تنگ آکر انہیں مدرسہ میں داخل کرایہ اور بعد میں وہی بچے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن گئے اور آج وہ اپنی اولاد سے خوش ہیں کیونکہ ان کی اچھی تربیت بھی ہوئی اور والدین کی ہر طرح سے خدمت کررہے ہیں اور درھم و دینار بھی ان کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ میں تو ایسے حضرات سے عرض کروں گا کہ وہ بچوں کی شرارتوں اور ذہنی و دماغی کمزوریوں سے عاجز آکر بادل ناخواستہ نہیں، بلکہ دینی قدروں اور اس کی رفعتوں سے متاثر ہوکر پوری دل کی آمادگی کے ساتھ اپنی اولادوں کو دینی مدارس و جامعات میں داخل کریں اور پھر اس کے بہتر اعلیٰ اور مثبت نتائج کا انتظار کریں۔
اس سلسلے میں ہم دینی درسگاہوں کے ارباب حل و عقد، ارباب اہتمام اور حضرات انتظامیہ سے عرض کریں گے کہ آپ اپنے حلقہ اثر کے مالداروں اور اپنے عقیدت مند خوشحال مسلمانوں کو، ان کی اولاد کو دینی تعلیم کی طرف دعوت و ترغیب دیں اور مالی اعانت کے حصول سے زیادہ دعوت حصول علم کو اہمیت دیں اور ایسے حضرات کی کشش کے لیے تعلیم و تربیت کا بہتر سے بہتر معیار قائم کریں۔ ماہرین تعلیم جن کی قدیم صالح اور جدید نافع پر گہری نظر ہو ان کی نگرانی میں عصر حاضر کی رعایت کرتے ہوئے نصاب تعلیم تیار کریں اور ماہر اساتذہ کی خدمات حاصل کریں اور ان کو معیاری تنخواہ دیں کہ وہ پورے طور پر یکسو ہوکر بچوں کو تعلیم دیں، اس کے ساتھ ساتھ قیام و طعام کا اعلیٰ سے اعلیٰ نظم کریں، نیز عمومی نسق و نظم میں حسن و خوبی اور سلیقہ و قرینہ کا اظہار کریں۔ تو بعید نہیں کہ دینی مدارس کو مستطیع اور بامقصد و باشعور طلبہ کی ایک تعداد میسر آجائے گی۔
الحمدللہ حالیہ برسوں میں اس طرح کی کچھ کوششیں برصغیر میں کی گئی ہیں، جس کے بہتر اور مثبت نتائج آرہے ہیں۔
اگر ہم اس طرح کے کچھ معیاری مدارس اور جامعات قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو مستقبل میں علماء کی وہ جماعت تیار ہوگی، جن کا ذکر ملت کی علمی تاریخ کا زریں ورق ہے۔ اور بقول مولانا محمد رضوان القاسمی رح، ، جو تاجر تھے، اہل حرفہ و پیشہ تھے مگر ان میں سے ہر ایک علم و دین کا مرکز و مرجع فی سبیل اللہ، اس کی ترویج و اشاعت کے جذبے سے سرشار، وقت کے بادشاہوں اور حاکموں سے بے نیاز اور حق گوئی و بے باکی کا نمونہ تھے، ضرورت مندوں کو اپنی طرف سے بخشش و عطاء اور داد و دہش علماء سلف کا شعار تھا، یہ امام ابو حنیفہ رح کا علم و عمل تھا جو امت کو قاضی ابو یوسف رح جیسا فقیہ اور کتاب الخراج جیسی کتاب عطا کرنے کا ذریعہ بنا۔
مولانا قاسمی رح کے اس جملہ کے درد کو محسوس کیجئے۔ مولانا لکھتے ہیں،
غرباء کے دم سے دین قائم ہے، یہ بات اپنی جگہ بجا۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔ قابل تحسین، اطمنان بخش اور آخرت کی جواب دہی سے نجات دینے والی نہیں، ۔۔۔۔۔ آخرت میں نعمتوں کے متعلق پرسش ہوگی، ثم لتسئلن یومئذعن النعیم، مال اللہ کی نعمت ہے، اس کا وہ انفاق و استعمال جو ابد الآباد تک صدقئہ جاریہ، اصلاح امت کا ذریعہ اور آئندہ نسلوں کی فلاح و نجات کا وسیلہ بنے وہ یہ ہے کہ مالدار اور اصحاب ثروت اپنی اولاد کو علماء دین کے اس گروہ میں شریک کریں، ، جن کا ذکر قرآن پاک میں، ، لیتفقھوا فی الدین، ، ( تاکہ دین کے مسائل میں سمجھ بوجھ پیدا کریں) کے تحت آیا ہے،،۔ (مستفاد چراغِ راہ از مولانا محمد رضوان القاسمی رح)
( ناشر مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، دگھی، گڈا، جھارکھنڈ۔)
0 تبصرے