Ticker

6/recent/ticker-posts

مدارس اسلامیہ : ماضی، حال اور مستقبل

مدارس اسلامیہ : ماضی، حال اور مستقبل

(١)

محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

ہندوستان میں دینی مدارس کی ایک روشن اور تابناک تاریخ ہے۔ یہ ملک کی پسماندہ اور غریب اقلیت کا اعجاز ہے کہ اس نے دو دو چار چار روپے اکھٹا کرکے قوم کے لاکھوں بچوں کی دینی تعلیم و تربیت اور اخلاقی ڈسپلن کا اعلی انتظام کر رکھا ہے۔

مغلیہ حکومت کے زوال کے بعد جب اس ملک میں اسلامی شان و شوکت کا چراغ گل ہوگیا اور تقریباً آٹھ سو سال مکمل عظمت و جلال اور شان و شوکت کے ساتھ حکمرانی کرنے والی قوم یک لخت زوال و پستی اور ذلت و نکبت میں گرفتار ہوگئی اور یہ خطرہ منڈلانے لگا کہ ہندوستان میں بھی اسپین و اندلس کی تاریخ دھرائی جائے گی تو اس وقت کے درویش صفت علماء نے مدارس اسلامیہ کی بنیاد رکھنی شروع کی اور سب سے پہلے ١٨٦٦ء میں دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی اور اس کے بعد ہر جگہ مدارس اسلامیہ کا جال پھیلتا چلا گیا جو دین اسلام کی حفاظت اور شریعت اسلامی کی بقا کے لیے یہ مدارس قلعے،چھاونی اور پاور ہاؤس ثابت ہوئے اور یہاں کی اسلامی آبادی میں بجلی پہنچنا شروع ہوگیا۔

مدارس کا ماضی انتہائی روشن، تابناک اور شاندار ہے

مدارس کا ماضی انتہائی روشن ✨ تابناک اور شاندار ہے اور ایثار و قربانی اور زہد و قناعت کے تمام اوصاف سے پر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس جاں گسل حالات کے باوجود آج اس ملک میں اسلام کا اس شان کے ساتھ باقی رہنا دینی مدارس ہی کی دین ہے۔ اسلام کے شجر طوبی کے بچانے میں ان مدارس کا جو کردار ہے وہ کسی سے مخفی و پوشیدہ نہیں ہے۔

مدارس اسلامیہ اگر چہ ہر دور میں ظاہری اسباب و وسائل سے خالی رہے لیکن ان کا اندورن مضبوط و مستحکم رہنے کی وجہ سے ان کی افادیت میں ہمیشہ ترقی ہی ہوتی رہی۔ تعلیم و تربیت کا میدان ہو یا اخلاق و تربیت اور للہیت و تزکیہ کا، ہر میدان میں ان کے نقوش دلوں پر چھائے رہے۔ مدراس اسلامیہ کا مقصد کبھی علم برائے علم نہیں رہا بلکہ علم برائے عمل تھا۔ اس لیے ماضی میں اساتذہ اور طلبہ علوم ظاہری اور علوم باطنی کے جامع ہوتے تھے، کردار و عمل اور ذھن و فکر کے لحاظ سے طلبہ و اساتذہ مثالی نمونہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ صرف اساتذہ و طلبہ ھی آہ سحر گاہی کے پابند نہیں ہوتے بلکہ دربان میں بھی یہ صفت پائی جاتی تھی۔

ماضی میں مدارس کے اساتذہ میں قناعت تکلفات سے دوری، اور سادگی ہوتی تھی

ماضی میں مدارس کے اساتذہ میں قناعت تکلفات سے دوری، اور سادگی ہوتی تھی اور توکل علی اللہ ان کا خاص وصف ہوتا تھا اور یہی وصف ان کو ان کے شاگردوں کی نگاہ میں محبوب بنا دیتا تھا۔ وہ اجرت کی بجائے اجر پر نظر رکھتے تھے۔ اگر اس سلسلے کے واقعات لکھے جائیں تو ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ صرف ایک واقعہ ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔ سید محمد مبارک محدث بلگرامی رح، مولانا نور الحق رح (مصنف تیسر القاری شرح فارسی صحیح بخاری) کے شاگردوں میں تھے، ان کے بارے میں میر محمد طفیل محمد بلگرامی نے نقل کیا ہے کہ ایک روز میں میر مبارک رح کی خدمت میں حاضر ہوا، میر مبارک وضو کے لیے اٹھے اور اچانک گر پڑے، ایک گھنٹہ کے بعد افاقہ ہوا، میر طفیل محمد نے بے ہوشی کی وجہ دریافت کی تو بہت اصرار کے بعد فرمایا :

'تین دن سے کوئی غذا میسر نہیں آئی ہے۔ لیکن نہ کسی کے سامنے زبان سوال کھولی اور نہ قرض لیا، میر طفیل محمد فورا گھر گئے، عمدہ کھانا جو آپ کو مرغوب تھا تیار کرایا اور خدمت میں پیش کیا، میر مبارک نے پہلے تو خوشی ظاہر کی اور دعائیں دیں، پھر فرمایا کہ بار خاطر نہ ہو تو ایک بات کہوں اور وہ یہ کہ جب تم میری یہ کیفیت دیکھ کر گئے تو مجھے خیال ہوا کہ تم میرے لیے کھانا لانے گئے ہو۔ اسی کو اشراف کہتے ہیں اور ایسے کھانے کو صوفیاء منع کرتے ہیں، اس لیے میں اسے نہیں کھا سکتا، شاگرد بھی باکمال اور نکتہ شناس تھے، فوراً کھانا اٹھا لیا، واپس لے آئے اور لمحہ بھر رک کر دوبارہ اسی کھانے کے ساتھ میر مبارک کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ جب میں نے اس کھانے کو اٹھا لیا تو یقیناً آپ کو یہ امید نہ رہی ہوگی کہ میں اسے دوبارہ آپ کے پاس لاوں گا۔ پس اب اشراف کی کیفیت باقی نہیں رہی، استاذ، نے شاگرد کی اس سمجھ داری کی داد دی اور پھر پوری رغبت سے کھانا تناول فرمایا' (ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ٣٩)

یہ تھا ماضی میں مدارس کے اساتذہ کا معیار لیکن اب صورت حال کیا ہے؟ اس سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ تو مبالغہ ہوگا کہ اس دور زوال میں دینی مدارس کے تمام اساتذہ سے میر مبارک کی کردار کی توقع رکھیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ایک اچھی چیز کی سطح گر بھی جائے تب بھی اس کا ایک معیار ہونا چاہیے۔

ماضی میں مدارس کے اساتذہ طلبہ اور پورا عملہ توکل اور استغنا کا خوگر

ماضی میں مدارس کے اساتذہ طلبہ اور پورا عملہ توکل اور استغنا کا خوگر ہوتا تھا۔ حالات کتنے ناسازگار و نامساعد کیون نہ ہو جائیں ان کے پائے استقامت میں جنبش نہیں آتی تھی، ان کے خیالات پاکیزہ اور ان کے ذھن دنیا طلبی و جاہ پرستی کے فتنوں سے پاک ہوتے تھے وہ عہدے اور منصب کے حریص اور لالچی نہیں ہوتے تھے وہ صرف اللہ کی خاطر اپنی مفوضہ ذمہ داری خلوص کے ساتھ ادا کرتے تھے۔


مدارس اسلامیہ کا نظام ماضی میں خاص طور پر شورائی ہوتا تھا۔ حساب و کتاب کی شفافیت، ہر مد کی رقم کا اسی مد میں استعمال۔ اخراجات کا صحیح طور پر اصولوں کے مطابق اندارج اور مجلس انتطامی میں اس کی توثیق، نیز مدارس کی املاک مدرسہ ہی کا نام پر ہوتی۔ شخصی ناموں پر نہ ہوتی۔ جس سے لوگوں کو بدگمانی کا موقع ہی نہ ملتا تھا اور مدارس باہمی ربط و ضبط، کے ساتھ کسی دوسرے کے درپہ توہین ہوئے بغیر اپنے مقصد کے حصول میں کوشاں تھے۔ ( مستفاد روز نامہ منصف جمعہ ایڈیشن ٢/اپریل ٢٠١٠ء)

نوٹ اگلی قسط مدارس اسلامیہ کا حال اور مستقبل کل ملاحظہ کریں۔

مدارس اسلامیہ ماضی، حال اور مستقبل

(٢)
محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

ماضی میں مدارس کا کردار یقیناً انتہائی روشن اور تابناک، ایثار و قربانی، ورع و تقوی اور زہد و قناعت کے تمام عناصر سے پر ہے۔ ارباب مدارس اسلامیہ رخصت نہیں عزیمت اور فتویٰ نہیں تقوی کی راہ اختیار کرتے تھے۔ حساب و کتاب کی شفافیت اور مدارس کی چیزوں کے استعمال سے اجتناب ان کا نمایاں وصف ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا منیر احمد نانوتوی رح سابق مہتمم دار العلوم دیوبند کا واقعہ ہم مدارس سے تعلق رکھنے والوں کے ایک آیڈیل اور نمونہ ہے۔

ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد منیر صاحب رح مہتمم دار العلوم دیوبند ڈھائی سو روپے لے کر مدرسہ کی روئداد طبع کرانے دہلی تشریف لے گئے اتفاق سے روپے چوری ہوگئے آپ نے اس چوری کی کسی کو اطلاع نہیں کی اور اپنے وطن واپس آکر زمین فروخت کی اور ڈھائی سو روپے لے کر دہلی پہنچے اور کیفیت مدرسہ چھپوا کر لے آئے کچھ دنوں کے بعد اس کی اطلاع اہل مدرسہ کو ہو گئی انہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی کو واقعہ لکھ کر حکم شرعی دریافت کیا وہاں سے جواب آیا کہ مولوی صاحب امین تھے اور روپیہ بلا تعدی کے ضائع ہوا ہے اس لیے ان پر ضمان نہیں ہے۔ اہل مدرسہ نے مولانا منیر صاحب سے درخواست کی کہ آپ روپیہ لے لیجئے اور مولانا گنگوہی کا فتویٰ دکھایا۔ مولانا محمد منیر صاحب نے فتویٰ دیکھ کر فرمایا کہ :میاں رشید احمد نے فقہ میرے لئے ہی پڑھا تھا اور کیا یہ مسائل میرے لیے ہی ہیں۔ ذرا اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر تو دیکھیں اگر ان کو ایسا واقعہ پیش آتا تو کیا وہ بھی روپیہ لے لیتے؟ جاو اس فتویٰ کو، میں ہرگز دو پیسے بھی نہ لوں گا۔ ( نقوش علمائے دیوبند ص٢٩)

مولانا محمد علی لاھوری رح کے بارے میں مولانا علی میاں ندوی رح نے لکھا ہے کہ میں ان کے گھر میں مہمان تھا شام کے کھانے میں صرف روٹی اور ماش کی دال تھی میرے خاطر دو پیسہ کا دہی منگوا لیا تھا۔ جب کہ مولانا کے مدرسہ میں بچوں کے لیے ہر وقت عمدہ اور اعلی کھانا ہوتا تھا۔ لیکن مولانا کے گھر والے اور بچے ہمیشہ سادہ کھانے ہی پر اکتفا کرتے تھے۔ جیب اس کے علاوہ کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

ماضی میں مدارس کے ذمہ داروں میں خوداری اور زہد و استغنا کا وصف اور جوہر کمال درجہ میں ہوتا تھا وہ بادشاہوں اور ارباب اقتدار اور اصحاب ثروت سے کبھی مرعوب نہیں ہوتے اور جہاں مناسب سمجھتے ان کی امداد اور عطیہ کو لینے سے صاف انکار کردیتے تھے یا حکمت سے ٹال دیتے تھے۔

والی افغانستان سلطان حبیب اللہ خاں نے ایک مرتبہ اپنے سفیر کے ذریعہ پانچ ہزار روپے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں بھیجے( پانچ ہزار کی حیثیت آج سے ایک صدی قبل کتنی تھی ذرا اندازہ لگائیے) اور ساتھ ہی یہ پیغام دیا کہ یہ مقدار ہرسال خدمت میں پہنچتی رہے گی اور معاوضہ صرف دعاء ہے۔ مگر حضرت نے قبول نہیں فرمایا اور نہ صرف اس وقت کے پانچ ہزار روپے بلکہ ہر سال کی ایک مستقل آمدنی کو پائے استغنا سے ٹھکرا دیا۔

سفیر نے عرض کیا کہ حضرت! کم از کم میری حاضری کا تو لکھ دیں، والی کو شبہ ہوگا کہ میں آپ کے پاس پہنچا ہی نہیں۔ اور ویسے ہی بات بنا دی۔ اس پر مولانا گنگوہی رح نے فارسی زبان میں ایک خط سلطان حبیب اللہ خاں کے نام لکھوایا جس کا مضمون یہ تھا۔ بحیثیت اسلام مجھے آپ سے تعلق ہے اور میرا دل ہمیشہ آپ کو دعا دیتا ہے۔ خصوصاً موجودہ حالات میں محبت اسلام اور قدرو منزلت علم کی خبریں سن کر بہت خوش ہوتا ہوں۔ اللہ تعالی برکت عطا فرمائے۔ آپ کی نذر پہنچی مگر چونکہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ اور حق تعالیٰ نے مجھے بہتیرا کچھ دے رکھا ہے جمع کرکے کیا کروں گا۔ اس لیے واپس کرتا ہوں کسی دوسرے مصرف میں خرچ کردیا جائے اور مجھے بہر حال دعاء گو سمجھئیے۔ ( تذکرہ رشید)

آج بعض مدارس والے سرکاری ایڈ اور گرانٹ حاصل کرنے کے لیے نہ جانے کیا کیا حربے اختیار کرتے ہیں اور حکومت کی نظر میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور گرانٹ قبول کرنے کے نتیجے میں سرکار کے کن کن خلاف شرع حکموں کا ان کو پالن کرنا پڑتا ہے یہ بات باکل عیاں ہے۔ لیکن ماضی میں مدارس کے ذمہ داران اور ارباب اہتمام نے ان کے پیشکش کو ہمیشہ ٹکھرا دیا اور اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

آزادی کے بعد جب وزارت قائم ہوئی اور مولانا ابو الکلام آزاد رح وزیر تعلیم و ثقافت بنے تو انہوں نے ایک موقع پر ندوہ کے ذمہ داروں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ گورنمنٹ آف انڈیا ہندوستان میں ایک نمونہ کی عربی درسگاہ قائم کرنا چاہتی ہے جو جدید اصولوں اور عصری تقاضوں کے مطابق ہو اگر ندوہ اس پیشکش کو قبول کرلے تو یہ سب سے بہتر ہوگا حکومت عمارتوں کی تکمیل کرادے گی۔ یہ تجویز آئی تو ذمہ داران ندوہ بڑی کشمکش میں پڑ گئے۔ موت و حیات کا مسئلہ تھا دوسری طرف مولانا آزاد کی تجویز کو یکسر رد کر دینا بھی مشکل تھا کیونکہ وہ خاندان کی بزرگ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ندوہ کے زبردست حامی و موئد تھے اور مستقل رکن انتظامی تھے۔ اس کے لیے ارباب ندوہ کی نظر مولانا مسعود علی ندوی پر پڑی جو مولانا سے بے تکلف تھے وہ دہلی گئے مولانا ازاد نے پوچھا مولانائے مسعود کیسے آئے۔

مولانا مسعود نے کہا کہ کچھ بزرگوں کے لوح مزار کی عبارت کے بارے میں غور و خوض ہورہا ہے، مولانا محمد علی مونگیری رح کے لوح مزار پر بانی ندوہ العلماء لکھنا تجویز ہوا ہے، اسی طرح مولانا شبلی کے لوح مزار کی کوئی عبارت بتائ جس سے ان کی ندوہ کی تحریک کو ترقی دینے کا اظہار ہوتا تھا، کہنے لگے کہ اندیشہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے مزار پر قاتل ندوہ العلماء لکھا جائے مولانا آزاد نے بڑے استعجاب سے پوچھا کہ کیوں❓ معاملہ کیا ہے ؟ مولانا مسعود علی ندوی نے کہا آپ نے جو تجویز پیش کی ہے، اس کا مآل تو یہی ہے کہ ندوہ العلماء ختم ہوجائے اور ہم آپ اس کے قاتل ٹھریں، آج تو آپ منصب وزارت پر ہیں اور آپ کی موجودگی میں اس کا خطرہ نہیں، لیکن پھر کون آتا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ مولانا آزاد کی شہرئہ آفاق ذہانت کے لیے اتنا اشارہ کافی تھا، وہ دور تک بات کو سمجھ گئے اور فرمایا کہ آپ لوگوں کا فیصلہ صحیح ہے اور اس تجویز پر کوئی اصرار نہیں۔ ( مستفاد پرانے چراغ جلد دوم)

ماضی میں مدارس کا یہ کردار رہا ہے، لیکن کیا آج مدارس اسلامیہ میں اس کا عشر عشیر بھی پایا جارہا ہے؟ کیا مدارس کے مالیات کے نظام میں وہ احتیاط اور شفافیت ہے؟ کیا ہمارے مالی فراہمی کے نظام میں استغنا اور خوداری ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے سفراء اصحاب ثروت کے سامنے ذلیل و خوار ہوتے ہیں؟ کیا چندہ کی وصولی کا جو صحیح نظام ہونا چاہیے وہ نظام مدارس میں ہے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن پر ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

آج مدارس اسلامیہ دھیرے دھیرے اپنی معنویت و مرکزیت کھوتے جا رہے ہیں، اور انکے شاندار اور تابناک ماضی کو خلف باقی رکھنے کامیاب نہیں ہو پا رے ہیں۔ جس کا شکوہ بہت پہلے علامہ اقبال مرحوم نے بھی کیا تھا کہ

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ محبت نہ مروت نہ حقیقت نہ نگاہ

یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں جہاں زندگی کے تمام شعبہ میں زبردست تنزلی، پستی انحطاط اور زوال آیا ہے وہیں مدارس اسلامیہ بھی شدید تنزلی، زوال و انحطاط اور زبوں حالی کا شکار ہوئے ہیں۔ علمی و اخلاقی معیار کی پستی اور زوال کا شکوہ سب کی زبان پر ہے، اور سب اس کا رونا رو رہے ہیں۔ اگر آج کے دینی مدارس کا مقابلہ چالیس پچاس سال پہلے کے مدارس سے کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اب عام مسلمانوں کی زندگی پر ان مدارس کی تاثیر میں دن بدن کمی آرہی ہے۔ اگر ارباب مدارس اس جانب توجہ نہیں دیں گے تو یہ مدارس اپنی معنویت اور اہمیت مزید کھو دیں گے اور عوام کا رشتہ اور تعلق علماء اور مدارس سے کٹ جائے گا اور ان کے درمیان مزید دوری پیدا ہو جائے گی۔

اس وقت مدارس اسلامیہ میں جو افراط و تفریط ہے، اور جو کمیاں اور خامیاں ہیں، جن کی طرف بہت سے صاحب بصیرت متوجہ کر رہے ہیں اور ارباب مدارس کے ذھن کو مبذول کررہے ہیں، ہم بھی اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ اس وقت دینی مدارس نے عصری اسکولوں اور کالجوں کی طرح تعمیرات، ظاہری و مادی وسائل اور نظم و نسق کے شعبوں میں یقینا ترقی کی ہے۔ لیکن مدارس کی اصل روح جن پر ان کی حقیقی زندگی موقوف ہے، اس میں زبردست زوال اور انحطاط واقع ہوا ہے۔ دھیرے دھیرے مدارس کا تعلیمی نظام اور تعلیم و تعلم ایک رسمی شکل اختیار کر چکا ہے اور مدارس کے قیام کا اصل مقصد اور مشن نگاہوں سے اوجھل ہو رہا ہے۔ پہلے کے فارغین اور اب کے فارغین کی صلاحیتوں اور خدمات میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ زیادہ تر مدارس اسلامیہ میں ظاہری چیزوں اور تعمیرات کو فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ باصلاحیت اساتذہ اگر ان کے اندر مالی فراہمی کی صلاحیت نہیں ہے، تو اس کی حیثیت مدرسہ میں کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اراکین مدارس اور ارباب اہتمام کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح مدرسہ کی شہرت میں اضافہ ہو۔ طلبہ کی تعداد کمیت کے اعتبار سے بڑھے کیفیت کچھ بھی ہو۔ لیکن طلبہ کی تعلیمی اخلاقی اور دینی حالت کیا اور کیسی ہے؟ مدارس سے کس قسم کے افراد تیار ہو رہے ہیں اور ان سے دین و ملت کو کتنا فایدہ ہورہا ہے اس پر توجہ دینے والے اور اس جانب فکر کرنے والے مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ مدارس میں پہلے اساتذہ اور طلبہ کا گہرا علمی تعلق اور مضبوط اخلاقی و روحانی رشتہ ہوتا تھا، وہ طلبہ اپنے اساتذہ کی نیک نامی اور شہرت و مقبولیت کا ذریعہ بنتے تھے۔ اساتذہ اپنے طلبہ کو بیٹے کا درجہ دیتے تھے، بلکہ بعض جگہ تو نسبی اولاد سے زیادہ روحانی اولاد کو ترجیح حاصل ہوجاتی تھی، سید سلیمان ندوی رح اور علامہ شبلی رح کے تعلق کو دنیا جانتی ہے، کہ کس طرح سید صاحب نے اپنے استاد کے تشنہ کاموں کو مکمل کیا۔ لیکن علامہ شبلی کی صلبی اولاد کو وہ شہرت حاصل نہیں ہوسکی اور نہ لوگوں میں ان کا کوئی چرچا ہوسکا جو شہرت و مقبولیت سید صاحب کو حاصل ہوئی۔

مدارس میں اساتذہ اور طلبہ کا رشتہ

اس وقت مدارس میں اساتذہ اور طلبہ کا رشتہ محض ایک رسمی رشتہ بن کر رہ گیا ہے۔ جو صرف درسگاہ کی حد تک محدود ہے۔ جبکہ ماضی میں استاد اپنے طلبہ کے لیے ایک شفیق باپ، روحانی مربی، اور علم و عمل کے میدان میں ایک شفیق نگران اور اتالیق کی حیثیت رکھتا تھا۔ جو طلبہ کے نجی معاملات تک دخیل ہوا کرتا تھا۔

انتظامی امور کے اعتبار سے بھی سینکڑوں خامیاں ہیں۔ مدارس جو روحانیت اور صداقت وراست بازی کے اعتبار سے لوگوں کے لیے ایک زمانہ میں مرکز ہوا کرتے تھے آج بعض اداے خود جھوٹ اور فراڈ کرتے ہیں طلبہ اور اساتذہ کی تعداد بڑھا کر بتاتے ہیں، جو سراسر دیانت و امانت کے خلاف ہے۔ بہت سے ادارے جو ثانویہ کے لائق ہیں زبردستی وہاں عالیہ کی پڑھائی کی جاتی ہے، جب کہ نہ وہاں ڈھنگ کے اساتذہ ہوتے ہیں اور نہ طلبہ اور نہ ہی اسباب و وسائل۔ ہر ضلع میں سینکڑوں مدارس ہیں جب ایک ضلع میں ایک دو ہی مرکزی اور بڑھے مدرسے ہونے چاہئیں اور گاؤں گاؤں میں مکتب کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ پتہ چلا کہ ایک ایک ضلع سے دو تین سو سفراء زکوۃ کی وصولی کے لیے نکلتے ہیں لوگوں کو تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی ضلع میں آخر کتنے مدارس ہیں۔ رمضان میں ایسے ایسے لوگ مدارس کے چندے کے لیے کمیشن پر نکلتے ہیں جن کو صحیح نام لکھنا تک نہیں آتا اور ان کو دعائیں تک یاد نہیں ہوتیں۔ جس کی وجہ مدرسے کی شبیہ لوگوں کی نظر میں خراب ہو رہی ہے۔ بعض جگہ مدرسہ کا وجود نہیں ہوتا جیبی مدرسے ہوتے ہیں کمال عیاری سے تصدیق نامہ حاصل کرلیتے ہیں اور سال بھر چندہ کے پیسے سے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے افسوس کہ اس پر عمل نہیں ہو پا رہا ہے۔

اب جو مدارس قائم ہورہے ہیں زیادہ تر مدارس شخصی ہوتے جارہے ہیں۔ مزید یہ کہ مدرسہ کی املاک بھی شخصی ناموں پر بنتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے فتنے اور فساد پیدا ہو رہے ہیں اور بدگمانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔

مدارس کے نظام میں مالی شفافیت کی بھی کمی

مدارس کے نظام میں مالی شفافیت کی بھی کمی ہے۔ بہت سے طلبہ جو مالی اعتبار سے خود کفیل ہوتے ہیں وہ بھی زکوۃ کی رقم سے استفادہ کرتے ہیں اور اس بارے میں نہ کوئی تحقیق کی جاتی ہےاور نہ ان کے والدین اور سرپرستوں سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا ذھن بن گیا ہے کہ مدارس میں فیس طعام کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اچھے صاحب حیثیت لوگ اپنی اولاد کو زکوۃ کھلاتے ہیں۔ اسی طرح مدوں کا فرق نہیں کیا جاتا ہے اساتذہ کی تنخواہ بھی زکوۃ سے ادا کی جاتی ہے۔ مجبوری میں تو اس کی گنجائش نکل سکتی ہے لیکن عام حالت میں اس کا جواز نہیں ہے۔

مدارس کے نصاب تعلیم کا قدیم ہونا

مدارس کے نصاب تعلیم کا قدیم ہونا اور حالات زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے اس میں تبدیلی نہ کرنا اور اس کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھانا بھی مدارس کے زوال و انحطاط کا ایک سبب ہے۔ اس بارے میں ہم تفصیل کے ساتھ الگ مضمون میں اظہار خیال کرین گے۔

مدراس کے جو طلبہ اب فارغ ہوکر نکلتے ہیں اپنی اصلاح و تربیت کے لیے ان کا کسی استاد اور شیخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بلکہ اس راہ تصوف و سلوک کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کو فعل عبث سمجھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی اور تعلیم و تربیت سے دوسروں کا بھلا نہیں ہوتا اور نہ خود کا بھلا ہوتا ہے۔

بہت سے مدارس کے مالی نظام کے مرتب اور منظم نہ ہونے کی وجہ سے اور حساب نہ آڈٹ کرانے کی وجہ سے حکومت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ اس جانب بھی توجہ کی سخت ضرورت ہے۔

ان حالات میں ہمیں مدارس کے مستقبل کے تئیں کیا کرنا ہے اور کیا نظام بنانا ہے چند باتیں پیش کی جاتی ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے