Ticker

6/recent/ticker-posts

بھائی چارہ اور اخوت میں کمی اکثر گھر کی کہانی

بھائیی چارہ اور اخوت میں کمی اکثر گھر میں یہی حال

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ بھائیی ۔ بھائی میں کتنی ہی محبت کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن ایک دوسرے سے الگ ہونا ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کائنات میں صرف ایک ہی گھر ہوتا اور ایک ہی چولہا جل رہا ہوتا ۔ بھلے سے جدائ کا سبب کچھ بھی ہو مگر ایک وقت زندگی میں ضرور آتا ہے جب ایک بھائیی سے دوسرے بھائی کو جدا ہو کر ایک نئی دنیا بسانا ہوتی ہے۔اور یہ الگ ہونا یا دور ہونا برا نہیں، برا ہونا تب ہے جب ایک بھائیی دوسرے بھائیی کی نظروں سے دور ہونے کے ساتھ ساتھ دل سے بھی دور ہو جائے۔

سیاست تو گھر کے لوگ بھی کرتے ہیں

ایسا نہیں ہے کہ سیاست صرف نیتا لوگ ہی عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں، سیاست تو گھر کے لوگ بھی کرتے ہیں اور ایسی ایسی سیاست کہ عالمگیر سیاستدان بھی دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ نتیجہ ہے کہ یہ بدبودار سیاست اچھے خاصے گھر کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔

گھر اور رشتے داریاں خراب ہونے کی وجہ

ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر گھر اور رشتے داریاں خراب ہونے کی وجہ دوسروں کو حقیر جاننا، بدگمانی، حرص، ڈکٹیٹر شپ، یا کسی کا خود کو سب سے بہتر جاننا/ عقلمند جاننا۔اور باہری لوگوں کا دخل، شادی شدہ بہن اور اس کے شوہر کا دخل وغیرہ۔ بلکہ ایک لمبی فہرست ہے جسے لکھنا آسان بھی نہیں۔

شادی سے قبل ہر لڑکے کی زندگی اطمینان و سکون سے گزر رہی ہوتی ہے، شادی کے بعد زندگی کا اصل مفہوم سمجھ میں آ رہا ہوتا ہے، جہاں سب کو Balance میں رکھ کر چلنا ایک شادی شدہ لڑکے کے لیے بہت مشکل امر ہوتا ہے۔

شادی کے دن تو دلہے دلہن کو شادی کا منڈپ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ محسوس ہوتا ہے پھر اس کے بعد جس طرح منڈپ بے رونق ہونا شروع ہوتا ہے اسی طرح زندگی بھی اپنے رنگ بدلنا شروع کر دیتی ہے۔

دلہن کا رخ بورچی خانے کی طرف اور دلہے کا رخ روکڑا کمانے کی جگہ کی طرف لگ جاو بیٹا ڈئیوٹی پہ۔ اب اس کے بعد اصل کہانی شروع ہوتی ہے اور یہ کہانی اکثر و بینتر گھر میں ہوا کرتی ہے۔۔ میں یہاں طویل داستان تو بیان نہیں کر سکتا مگر مختصراً۔

سیاست اور گھریلو جنگ ساس اور نندوں کی طرف سے

سیاست اور گھریلو جنگ ساس اور نندوں کی طرف سے شروع ہوتی ہے جس میں بعض عورت نما مرد حضرات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عموماً فساد کا دھواں بورچی خانے سے اٹھنا شروع ہوتا ہے۔ ہاۓۓ ہاۓۓ اتنا تیل خرچ اللہ اللہ۔ اتنی جلدی گیس ختم۔ اوہے اوہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

اپنے سسرال میں بہتر کرے

ہر لڑکی، حقیقتا، چاہتی ہے کہ وہ اپنے سسرال میں بہتر کرے، اور اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔ مگر معاملہ وقت کے ساتھ الٹ پلٹ ہو جاتا ہے۔

عورتیں کئی کردار میں نظر اتی ہیں

عورتیں کئی کردار میں نظر اتی ہیں ماں کی شکل میں، بہن بھوجائ، بیوی، ساس، سالی وغیرہ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہر عورت اپنے مقام پہ خود کو بالکل سپر وومن سمجھتی یے۔

اگر ساس ہے تو یہ ڈائلاگ عام ہے۔۔ میری جیسی عورت، میری جیسی ساس۔۔ تم لوگ کیا جانو ہم نے کیسی کیسی تکلیف اٹھائ ہے۔ میری ساس اور نندوں نے میرے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا جبکہ وہ خود وہی کام کر رہی ہوتی ہے مگر اسے اس کا گمان نہیں ہوتا۔۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر ماں کو اپنی بیٹی ٹھیک اسی کی ہی طرح سپر وومن لگتی ہے جس طرح وہ تھی یا ہے اور بہو دنیا کی سب سے دھیمی اور بیکار گھوڑی۔۔جب کہ کسی بھی بھائیی کی بیوی پہ حکم چلانے کا حق یا کچھ بھی الٹ پلٹ کہنے کا حق نہ نند کو ہے نہ ہی دیور کو مگر یہاں تو۔

ہمارے یہاں بہت ساری کہاوت عام ہے

ماں ٹٹولنے پیٹ، بیوی ٹٹولنے پاکٹ۔۔۔ یہ ڈائلاگ آپ ماں کے سامنے کہیں تو ماں کے چہرے پہ تبسم بکھر جاتی ہے اور بیوی ناراض ہو کر کمرے میں۔۔۔ تھوڑی دیر ٹہر کر یہ بات آپ ماں سے پوچھیں کہ ماں اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ والد صاحب کا پاکٹ ٹٹولتی تھیں اور دادی پیٹ۔ کہ میرا بیٹا بھوکا تو نہیں۔۔ پھر ماں کا چہرہ دیکھیں۔۔ ایک ہی کہاوت اور دو جگہ پہ مختلف رنگ۔۔ جو طنز جو کہاوت بہو پہ اچھا لگتا ہے وہ کسی ساس کو خود پہ اچھا کیوں نہیں لگتا۔۔۔حالانکہ وہ بھی کسی کی بیوی اور بہو ہے۔

ایسے بیشمار کہاوت سماج میں موجود ہیں

اب مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کنوارے بھائیی بہن کو لگتا ہے کہ بھیا تو گۓ، بھوجائ کی محبت میں فنا ہو گۓ، ان کو ماں سے کوئ مطلب نہیں۔ ہم بھائی بہنوں سے کوئ مطلب نہیں۔ پھر یہ ذہن ماں کو بھی دیا جاتا ہے۔ کنوارے بھائیی بہن کو یہ لگتا ہے کہ ماں کے لیے بس ہم ہی ہیں۔ یہ شادی شدہ بھائیی تو نکل لیا۔۔ یہاں سے اہک الگ کفت کا جنم ہوتا ہے۔۔ اس دوران بھائی بہن ماں کو کوئی دشواری آئ اور ایک شادی شدہ بھائیی نے فوری طور پہ ایکشن نہ لیا تو بھائیی سب لوگ نوچ کھانے کو تیار رہتے ہیں۔۔ چونکہ گھر میں پہلے سے ہی بدگمانی کا بیج بویا جا چکا ہوتا ہے۔۔ اگر گھر میں بھائی بہنوں کی تعداد زیادہ ہے تو یہ معاملہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔۔۔

پھر ماں کے لائق فائق اولاد صرف کنوارے بھائیی بہن رہ جاتے ہیں چونکہ شادی شدہ بھائیی تو جورو کے غلام ہو چکا ہوتا ہے۔

اس جورو کے غلام سے بات یاد آئی کہ اگر داماد بیٹی کا غلام بن جائے تو دس بلائیں دماد کو مگر اس کے بر عکس بیٹا بہو کا خاص خیال رکھنا شروع کر دے تو قیامت۔۔

دوسری طرف مسئلہ یہ ہوتا کہ اگر آپ کی دھرم پتنی کو آپ کی ساس ہا سسر نے مغموم پایا تو پھر یہاں الگ ٹیپ ریکارڈر چالو ہوگا۔۔ ہاۓۓ کہاں اپنی بیٹی کو دھسا دیا۔ کیسی چہکتی مہکتی دمکتی پھول جیسی میری بیٹی کیا سے کیا ہوگئ۔۔ بیچارہ لڑکا محرم کا ڈھول بن جاتا ہے ادھر گھر والے جورو کا غلام کا طعنہ دے رہے ہوتے ہیں اور ادھر سسرال میں ظالم کا خطابِ نایاب۔۔ بیچارہ جائے تو جاۓ کہاں۔۔ مولوی صاحب کہتے ہیں خودکشی حرام ہے اور حلال بھی ہوتی تو کون خودکشی کرنے جا رہا ہے۔ خودکشی کے لیے بھی کلیجہ چاہیے۔۔

بھائی اگر گھر میں دیکھ لیا کہ اپ اسی گلاس سے پانی پی رہے ہیں جس سے آپ کی بیوی نے پیا تھا تو آپ یقیناً جورو کےغلام ہیں اور نبی کریم کی سنت پہ عمل کر بیوی کی چھوڑی ہوئ ہڈی (جھٹن) چسنی شروع کر دی تو اور بھی قیامت ہے۔ اور پیار سے بیوی کو کسی اور نام سے پکارا تو گئ بھینس پانی میں۔۔ آپ لاکھ کہتے رہیں ماں میں بدلا نہیں ہوں، آپ میری آخرت ہیں، اپ کے پیر تلے میری جنت ہے، آپ بتائیں تو سہی آپ کیا چاہتی ہیں۔۔ مگر۔۔۔۔

اور اس کے بعد کنوارے چھوٹے بھائیی بہن یا شادی شدہ بہنیں بھی آپ کو " والدین کے حقوق" پہ اچھا خاصا کلاس دے جائیں گے حالانکہ آپ نے اس پہ پی ایچ ڈی ہی کر رکھا ہے اور اس پہ عمل بھی کرتے ہیں۔۔

حالانکہ کنوارے شادی کے بعد آپ سے کہیں زیادہ نرالے ہونگے(جو کہ آپ نہیں ہیں) جبکہ وہ بولتے پھرے گیں۔ نہ نہ ہم تو شادی کے بعد بڑے بھائیی کی طرح تھوڑے نہ کریں گے اور اکثر بہنوں کا دسطور سسرال میں کچھ اور میکے۔ میں کچھ۔۔ کچھ شادی شدہ بھائیی بھی بڑے Diplomatic ہوتے ہیں بلکہ مفاد پرست ہوتے ہیں موسم کے حساب سے ہر سے اپنا رشتے نبھاتے ہیں۔

دوسری طرف یہ دیکھا گیا ہے کہ گر بھائیی بہنوں کی تعداد زیادہ ہو تو چھوٹے بھائیی بہن بھائیی بھوجائیووں کا گراف چارٹ تیار کریں گیں۔ کب کس بھائیی بھوجای کو عرش معلی کا سیر کرانا ہے کب کس کے کودھڑام سے گرانا ہے۔۔ کب کس بھائیی کا قصیدہ پڑھ اسے یہ یقین دلانا ہے کہ اس گھر کے اصل جانشین تو آپ ہی ہو۔۔۔ جسے جانشین والی فیلنگ آ گی پھر اس کی تگڑم بازی دیکھنے لائق ہوتی ہے۔

ہم نے تو یہ تک دیکھا ہے کہ بڑا بھائیی خموش۔ باپ بھی خموش اور چھوٹا بھائیی خود کو ہوشیار عقلمند سمجھ کر گھر کا حاکم بنا پھر رہا ہے۔۔ اور ہر جا بولتا پھر رہا ہے گھر میں بغیر میرے مشورے اور حکم کے ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔۔ ہم جو چاہیں گے وہی ہوگا۔۔

جوائنٹ فیملی کے نقصان

اگر جوائنٹ فیملی ہے تو وہاں ایک ہنگامہ یہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں کی کمائی کم ہے فلاں کی ذیادہ۔ کپڑے سب ایک جیسے کھانے ایک جیسے۔ تو جس کی انکم زیادہ ہے وہ خسارے میں ہے اور جو کم کما رہا یا بیکار ہے وہ تو فائدے میں ہے۔ اور یہ سوچ۔۔

کچن ایک ہو اور بہوویں کئ ہوں تو کچن میں بھی کچ کچ ہونا طے ہے۔۔ اورجس گھر میں باپ کی موجودگی نہیں وہ گھر تو اور بھی جہنم بن جاتا ہے۔

اسی طرح کے بیشمار حرکات و سکنات سے ایک خوبصورت گھر بکھر جاتا ہے۔اس معاملے میں عرب کو بہتر پاپا شادی کیجے گھر الگ کجیے۔

میرا بس یہی کہنا ہے نظر سے دور رہنا برا نہیں۔ نظر سے دور رہیے مگر دل سے نہیں۔۔ اگر گھر میں کسی سے کسی کا اختلاف ہو جائے تو دل سے دل کو ملانے کی کوشش کیجیے اس میں آگ نہ لگائیے، بڑا عذاب ہے ایسے لوگوں کے لیے۔۔۔ اگر دماغ میں بدگمانی جگہ لینا شروع کر دےتو اس منفی خیال سے بچیے ۔۔ عفو درگزر کا مزاج پیدا کریں، اللہ و رسول کی خوشنودی کے لیے۔ خود پہ دوسروں کو ترجیح دیں۔۔ دوسروں کو بیوقوف اور حقیر نہ جانیں۔ ملنے میں پہل کریں۔۔ کوئ ناراض ہو تو اس کی ناراضگی کا سبب پوچھیں اور اسے منانے کی کوشش کریں۔ چار دن کی زندگی ہے سب کچھ یہیں دھرا رہ جائے گا۔۔

ہاں۔ منانے کہ باوجود بھی سامنے والا اپنے بدن ہاتھ کو ٹیڑھا کر رہا ہو تو self respect بھی ضروری ہے، ایسے عالم میں معاملہ اللہ کے حوالے۔۔

یہ سب لکھنا شوشل مڈیا پہ مناسب ہے یا نہیں میں نہیں جانتا۔ جو دکھا محسوس کیا لکھ ڈالا۔ ممکن ہے میری بات سے کچھ لوگوں کو اختلاف بھی ہو۔جو کہ ایک فطری عمل ہے۔ ۔ میری بات جو غلط اور غیر مناسب لگے، مجھے آگاہ ضرور کیجئے گا

اپ کا بھائی

شاہ ظفر حسین ارولہ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے