مولانا عبدالرشید قاسمی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ کے مہتمم مدرسہ فیضان القرآن بلرام پور کے سابق استاذ، بہترین مربی، محدث کبیر حضرت مولانا تقی الدین صاحب ندوی مظاہری کے دست راست اورمعتمد خاص مولانا عبدالرشید قاسمی کا ۴۱/جمادی الاولیٰ ۳۴۴۱ھ مطابق ۸۱/دسمبر ۱۲۰۲ء کو اعظم گڑھ کے ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا، وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے اوراسی بیماریئ دل نے اللہ رب العزت کے دربار میں پہونچادیا، جس کی رضا وخوشنودی کے لیے پوری زندگی وہ کام کرتے رہے، جنازہ ان کے آبائی گاؤں پریتم پور امبیڈکرنگر یوپی لے جایاگیا، ان کے بڑے صاحبزادہ مولانا عبدالرحیم قاسمی صاحب نے اگلے دن جنازہ کی نماز پڑھائی اورمقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پسماندگا ن میں اہلیہ، پانچ لڑکے اوردولڑکیاں ہیں، سب علم اوردین سے جڑے ہوئے ہیں۔
مولاناعبدالرشید صاحب بن بخش اللہ مرحوم کی ولادت پاسپورٹ میں درج تاریخ ولادت کے مطابق یکم جنوری ۸۴۹۱ بمطابق ۷۶۳۱ھ کورسول پور منڈیراموجودہ ضلع امبیڈکر نگر میں ہوئی، پہلے یہ گاؤں فیض آباد ضلع میں ہواکرتاتھا، درجہ پنجم تک کی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کرنے کے بعد اسکول میں داخل ہوئے، اوردرجہ آٹھ تک کی تعلیم یہاں مکمل کی، ہندی اورحساب میں خصوصی دسترس حاصل کیا، دینی تعلیم کاآغاز مدرسہ قاسمیہ گیا سے کیا، پھراپنے علاقہ لوٹ آئے اوریہاں کی مشہور بافیض درسگاہ مدرسہ کرامتیہ جلال پور میں داخلہ لیا، یہاں آپ نے مولاناضمیر احمد اعظمی اورمولانااسداللہ صاحبان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، وہاں سے مدرسہ بدرالاسلام شاہ گنج آگئے، مولانا محمد عثمان اورمولانا احمد صاحب جونپوری رحمہمااللہ سے موقوف علیہ تک تعلیم پائی، دورہئ حدیث میں دارالعلوم دیوبند چلے آئے، حضرت مولانا فخرالدین صاحبؒ سے بخاری شریف سبقاًسبقاًپڑھ کر ۱۹۳۱ھ مطابق ۱۷۹۱ء میں سند فراغ حاصل کیا، یہاں آپ کے رفیق درس مولانا عبدالعلیم فاروقی اورمولانا عبدالخالق مدراسی دامت برکاتہم رہے، حضرت مولانا فخرالدین صاحب ؒ کے خادم خاص ہونے کا شرف بھی آپ کو حاصل رہا، تدریسی زندگی کاآغاز یوں تو بنگلور سے کیا؛لیکن والد صاحب کی علالت کی وجہ سے جلد ہی گھر لوٹ آئے، والد کے انتقال کے بعد گھر پر قیام پذیر ہونا ضروری ہوگیاتھا، چنانچہ آپ نے مدرسہ فیضان القرآن بلرام پور میں تدریسی خدمت قبول کرلی اورپوری دل جمعی اورمستعدی کے ساتھ چودہ سال طالبان علوم نبوت کو فیض یاب کرتے رہے، اس درمیان انتظامی امور بھی آپ سے متعلق رہے۔
۰۹۹۱ء میں حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری دامت برکاتہم کی تجویز پربمشورہ قاری اختر عالم بحیثیت مہتمم جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ میں کار اہتمام سنبھالا، اورتیس سال جامعہ اسلامیہ کی بے مثال خدمات انجام دیں، جامعہ کی تعلیمی وتعمیراتی ترقی میں وہ بانی جامعہ کے ساتھ دوش بدوش کھڑے رہے، ان کی عملی جدوجہد سے جامعہ جلد ہی علمی افق پر نیرتاباں بن گیا اوراس نے علمی دنیا میں اپنا وقار، اعتبار اوراعتماد حاصل کیا، بانی جامعہ بھی ان پر غیر معمولی اعتماد کرتے تھے اورہر کام میں ان کے تعاون کاذکر کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے، ان کے حسن انتظام کی وجہ سے بانی محترم کاقیام دیارغیر میں اطمینان کے ساتھ رہا اوراللہ رب العزت نے حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین ندوی مظاہری صاحب دامت برکاتہم سے حدیث کی گراں قدر خدمت لی۔
مولانا عبدالرشید صاحب قاسمی ؒ بڑی خوبیوں کے انسان تھے، اساتذہ اورکارکنان سے کام لینے اوران کو ساتھ لیکر چلنے کی ان میں غیر معمولی صلاحیت تھی، تکبیر اولیٰ کے ساتھ پہلی صف میں ٹھیک امام کے پیچھے کھڑے ہوکر باجماعت نماز پڑھنا ان کاطرہ ئ امتیاز تھا، طلبہ پر بھی اس سلسلہ میں ان کی نظر بڑی سخت رہتی تھی اور جن کی رکعات چھوٹ جاتی ان کی تنبیہ کیاکرتے تھے، تبلیغی جماعت کے کاموں کے بڑے قدرداں تھے، مظفرپور میں جماعت آتی تو اس کے اکرام واحترام اورتعاون میں پیش پیش رہتے، مولانا کی ایک بڑی خوبی سادہ اورتصنع سے پاک زندگی تھی، ہٹاؤ، بچاؤ کا مزاج نہیں تھا، سب سے ملتے، علم وفن اورعہدے کا کبر ان کو چھوکر نہیں گیاتھا، ان کے اند محبت کاجذبہ تھا اورہرسطح کے لوگوں سے افراط وتفریط سے پاک محبت کرتے تھے، جس کی وجہ سے لوگ ان کے گرویدہ تھے اور اپنی باتیں ان کے سامنے رکھنے سے گھبراتے نہیں تھے، اکابر سے ان کی محبت وعقید ت دیدنی تھا، خصوصاًبانی جامعہ حضرت مولاناڈاکٹر تقی الدین صاحب ندوی مظاہری دامت برکاتہم سے بے پناہ محبت کرتے تھے، کسی بھی دعائیہ مجلس میں ان کو فراموش نہیں کرتے اورنام کی صراحت کے ساتھ حضرت مولانا کی صحت وعافیت، درازی عمر اورخدمات کے تسلسل کی دعافرماتے، مولانامرحوم مہمان نواز واقع ہوئے تھے، آنے والوں سے انتہائی خندہ پیشانی سے ملتے، موقع کی مناسبت سے چائے، ناشتہ اورکھانے کا اہتمام کرواتے آنے والے کی ضرورت کی تکمیل کی کوشش کرتے۔
حضرت کی تربیت کاانداز بھی بڑانرالا تھا، نماز اوردرجہ میں غیر حاضری پر تنبیہ بھی کرتے اورسمجھاتے بھی، جن طلبہ کو نماز کاپابند، تکرار کا عادی، اسباق یادکرنے میں ممتاز اورغیرعلمی کاموں سے گریز اں پاتے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتے، تعلیم کے میدان میں بزرگوں کے قصے بھی سناتے اوراس راہ میں خود اپنی جدوجہد کی داستان سناکر طلبہ کوتیزگام کرتے۔
دوسری طرف اساتذہ کی ضرورتوں کا بھی خاص خیال رکھتے، ان کی ضرورتوں کی تکمیل میں کوتاہی نہیں کرتے، ان اوصاف وخصوصیات کی وجہ سے طلبہ اساتذہ اورکارکنان کے لیے وہ بہت پسندیدہ شخصیت تھے، حالانکہ کاراہتمام کے ساتھ سب کو خوش رکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، امیر شریعت ساد س حضرت مولاناسید نظام الدین صاحب ؒ فرمایاکرتے تھے کہ اہتمام اورنظامت کی ذمہ داریوں کے ساتھ سب کو خوش نہیں رکھا جاسکتا، مولانا عبدالرشید صاحبؒ اس معاملہ میں بڑی حد تک کامیاب تھے۔
یقینا مولانا کی شخصیت کئی اعتبار سے مفید تھی، ان کاانتقال علمی دنیا کا عموماًاورجامعہ اسلامیہ مظفر پور کا خصوصاًبڑا نقصان ہے، میں اس حادثہ پر بانی جامعہ، وہاں کے اساتذہ اورکارکنان سے اظہار تعزیت کرتاہوں اور دعاکرتا ہوں کہ اللہ رب العزت جامعہ اسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے، حضرت کی مغفرت فرمائے اوراعلیٰ علیین میں جگہ دے آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم۔
0 تبصرے