شاعر محسن نقوی کی حالاتِ زندگی | محسن نقوی کی شاعری
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی
پورا نام : سید غلام عباس
تخلص : محسن نقوی
ولادت : 05/ مئی 1947ءڈیرہ غازی خان پاکستان
شہادت : 15/ جنوری 1996ء لاہور پاکستان
آج 05/ مئی (1947ء) شہر کے سیماب صفت شاعر کی 75ویں یوم ولادت ہے اس عظیم شاعر کا قتل ہوتا ہے جس کا نوحہ بھی شہر کی ہوا لکھتی ہے وہ 15/جنوری 1996ء کی سرد شام تھی بارش کے باعث سردی کی شدت میں اضافہ ہو چکا تھا سردیوں کی شام یوں بھی اداس ہوتی ہے لیکن اس روز فضا میں اداسی کچھ زیادہ ہی تھی ایک سناٹا سا تھا جو فضا میں ہی نہیں دلوں میں بھی محسوس ہوتا تھا جیسے موت کا سناٹا ہو، جیسے ہنستے بستے شہروں میں کسی اندیشے کا سناٹا ہو، کوئی نامعلوم خوف تھا جو چہروں پر رقم تھا اور لاہورکا ایک بازار تھا ایک بہت آباد بازار، ایک پرہجوم مارکیٹ، پرانے لاہور کے نواح میں شاعر مشرق کے نام پر آباد ہونے والے اقبال ٹاؤن کی بارونق مون مارکیٹ جہاں لوگ اس سناٹے والی اداس شام میں خرید و فروخت کر رہے تھے کہ اچانک گولیوں کی آواز نے سناٹے کو ختم کردیا ۔پھر ہر طرف بھگدڑ تھی لوگ اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے اورسڑک پر خون میں لت پت ایک شاعر تڑپ رہا تھا۔شاعر مشرق کے نام پر آباد ہونے والی اس کالونی میں ایک شاعر کو قتل کر دیا گیا تھا شاعر جو زندگی کا پیغام دیتا ہے، موت کے گھاٹ اتار دیا گیا وہ جو محبت کا درس دیتا تھا اسے نفرتوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا 16جنوری 1996ء کی صبح اخبارات میں سیاہ حاشیے کے ساتھ شہ سرخی شائع ہوئی”نامور شاعر محسن نقوی کو بھرے بازار میں قتل کر دیا گیا“ جیسا کہ خود انہوں نے ہی کہا تھا👇
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی
میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعت دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
محسن نقوی کی حالاتِ زندگی
سید محسن نقوی اردو کے مشہور شاعر تھے ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ لہذا بحیثیت ایک شاعر انہوں نے اپنے نام کو محسن نقوی میں تبدیل کر لیا اور اِسی نام سے مشہور ہو گئے لاہور کی سڑک پر دہشت گردی کا نشانہ بننے والے محسن نقوی کی زندگی کا سفر 5 مئی 1947ء کو شروع ہوا وہ ڈیرہ غازی خان کے بلاک 45 میں سید چراغ حسین کے گھر پیدا ہوئے والد نے بچے کا نام غلام عباس رکھا غلام عباس نے پرائمری تعلیم اسی محلے کے قریب واقع پرائمری سکول نمبر 6 میں حاصل کی میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 اور ایف اے اوربی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا ایم اے کے لئے وہ ڈیرہ غازی خان سے ملتان آئے اور گورنمنٹ کالج بوسن روڈ میں داخلہ لیا نامور شاعر پروفیسر اسلم انصاری ان کے استاد تھے غلام عباس نے آٹھویں جماعت میں شاعری کا آغاز کیا تو اپنا قلمی نام محسن نقوی رکھ لیا ڈیرہ غازی خان میں شفقت کاظمی اور کیف انصاری جیسے غزل گو شعراء ان کی رہنمائی کے لئے موجود تھے علامہ شفقت کاظمی کا شمار مولانا حسرت موہانی کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ابتدائی زمانے میں ہی محسن نقوی کی شاعری نے ہم عصروں کو متوجہ کیا انہوں نے کسی سے باقاعدہ اصلاح تو نہ لی مگر وہ علامہ شفقت کاظمی کو اپنا منہ بولا استادضرور کہتے تھے ملتان آنے کے بعد انہیں انوار احمد، فخر بلوچ، صلاح الدین حیدر، عبدالرﺅف شیخ اور اصغر ندیم سید جیسے دوستوں کا حلقہ میسر آیا یہ ان سب کے طالب علمی کازمانہ تھا۔ملتان کی ادبی، ثقافتی وسیاسی زندگی میں بہت تحرک تھا گھنگھریالے بالوں والا قہقہے بکھیرنے والا نوجوان محسن نقوی ملتان کی ادبی محفلوں کی جان بن گیا 1968سے 1970 تک محسن نقوی گورنمنٹ کالج بوسن روڈ میں ایم اے کے طالب علم رہے یہ ملک میں سیاسی گہما گہمی کا دور تھا ایوب آمریت کے خاتمے کے بعد ملک ایک نئے جمہوری سفر کا آغاز کرنے والاتھا اور اسی دوران مشرقی پاکستان میں شورشوں کا آغاز ہوگیا تھا۔ترقی پسند سوچ رکھنے والے دیگر دانشوروں کی طرح محسن نقوی بھی پاکستان پیپلزپارٹی سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری سانس تک برقرار رہی۔اسی زمانے میں انہوں نے ”بندِ قبا“کے نام سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا بعد میں وہ لاہورمنتقل ہو گئے اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے جہاں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی بعد میں محسن نقوی ایک خطیب کے روپ میں سامنے آئے مجالس میں ذکرِ اہل بیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہلبیت پہ لکھی ہوئی شاعری بیان کیا کرتے تھے، محسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلاکے استعارے جابجا استعمال کیے ان کی تصانیف میں عذاب دید، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا، رخت شب، عذابِ دید اور دیگر شامل ہیں محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں تھا ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں محسن نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔
اِک جلوہ تھا، سو گُم تھا حجاباتِ عدم میں
اِک ”عکس“ تھا، سو منتظرِ چشمِ یقیں تھا
محسن نقوی کی شاعری
محسن نقوی کے غزل اور نظم کے قادر الکلام شاعر ہونے کے بارے میں دو آراء نہیں ہو سکتیں محسن کی نثر جو اُن کے شعری مجموعوں کے دیباچوں کی شکل میں محفوظ ہو چکی ہے بلا شبہ تخلیق تحریروں کی صفِ اوّل میں شمار کی جا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور صنفِ سخن یعنی قطعہ نگاری کے بھی بادشاہ ہیں اِن کے قطعا ت کے مجموعے ” ردائے خواب” کو ان کے دیگر شعری مجموعوں کی طرح بےحد پزیرائی حاصل ہوئی نقادانِ فن نے اسے قطعہ نگاری میں ایک نئے باب کا اِضافہ قرار دیا مذہبی نوعیت کے قطعات ” میراثِ محسن ” میں پہلے ہی درج کیے جا چکے ہیں محسن نے اخبارات کے لیے جو قطعات لکھے ان کی زیادہ تر نوعیت سیاسی تھی لیکن ان کا لکھنے والا بہر حال محسن تھا 1994ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا، محسن نقوی شاعر اہلِ بیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے اردو غزل کو ہر دور کے شعرا نے نیا رنگ اور نئے رجحانات عطا کیے محسن نقوی کا شمار بھی انہی شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کی کلاسیکی اٹھان کا دامن تو نہیں چھوڑا تاہم اسے نئی شگفتگی عطا کی۔ محسن نقوی کے کلام میں صرف موضوعات کا تنوع ہی موجود نہیں بلکہ زندگی کی تمام کیفیتوں کو انہوں نے جدید طرز احساس عطا کیا محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت سے منسوب ہے انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا ان کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں انہوں نے اپنی شاعری صرف الف لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ انہوں نے دینا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے, اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15/ جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق اس عاشق اہلبیت محسن کو 45 گولیاں لگی وہ سادات گاوں ڈیرہ غازی خان میں مدفون ہیں۔
یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سر سناں، کوئی سر سجاؤ ! اُداس لوگو
اپنے قتل سے چند لمحے قبل محسن نقوی نے ایک لازوال شعر کہا تھا کہ
"سفر تو خیر کٹ گیا"
میں کرچیوں میں بٹ گیا
محسنؔ نے بے انتہا شاعری کی جس میں حقیقی اور مجازی دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ محمدؐکی شان میں کی گئی شاعری بنی محسن نقوی کا شمار اردو کے خوش گو شعرا میں ہوتا ہےان کے کئی مجموعہ کلام چھپ چکے ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں 👈بندِ قبا۔ 1969ء, برگِ صحرا 1978ء, ریزہ حرف۔ 1985ء, عذابِ دید۔ 1990ء, طلوعِ اشک 1992ء, رختِ شب۔ 1994ء, خیمہ جاں۔ 1996ء, موجِ ادراک
فراتِ فکر،
💟ترتیب و پیشکش 👈سید نوید جعفری حیدرآباد دکن 💟
💟محسن نقوی صاحب شہید کے 75 ویں یوم ولادت پر ان کا کچھ منتخب کلام جو بہت مشہور ہوا قارئین کی نظر کررہا
ہوں ملاحظہ ہو👇💟
محسن نقوی اداس شاعری
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی
اس شہر میں اک دشت تھا وہ کیا ہوا آوارگی
وہ دے رہا ہے دلاسے عمر بھر کے مجھے
بچھڑ نہ جائے کہیں پھر اداس کرکے مجھے
جہاں نہ تو، نہ تری یاد کے قدم ہوں گے
ڈرا رہے ہیں وہی مرحلے سفر کے مجھے
ہوائے دشت اب تو مجھے اجنبی نہ سمجھ
کہ اب تو بھول گئے راستے بھی گھر کے مجھے
دلِ تباہ، ترے غم کو ٹالنے کے لیے
سنا رہا ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
کچھ اس لیے بھی میں اس سے بچھڑ گیا محسن
وہ دُور دُور سے دیکھے، ٹھہر ٹھہر کے مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Mohsin Naqvi Sad Shayari in Urdu
درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے
کسے خبر کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے
تعلقات ابھی اس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اب ملے بھی تو ملتا ہے اس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر
گلی سے آج بھی ان کی صدا گزرتی ہے
یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں انتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں مگر اب کے
دلوں کی خیر کہ موجِ بلا گزرتی ہے
نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں محسنؔ
درِ قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے
۔۔۔۔۔۔
Mohsin Naqvi Sad Ghazal Shayari in Urdu
میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میری تخلیق مرے فکر کی پہچان بھی ہے
میرے حرفوں مرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا
میرا فن اب میرا مذہب میرا ایمان بھی ہے
میر و غالب نہ سہی پھر بھی غنیمت جانو
میرے یاروں کے سرہانے میرا دیوان بھی ہے
مجھہ سے پوچھو کہ شکست دل و جاں سے پہلے
میرے احساس پہ گزی ہے قیامت کیا کیا
سایہ دار و شب غم کی سخاوت سے الگ
میں نے سوچی قد و گیسو کی علامت کیا کیا ؟
میرے ٹوٹے ہوۓ خوابوں کے خرابوں سے پرے
میرے بکھرے ہوۓ جذبے تھے سلامت کیا کیا ؟
طنز اغیار سے احباب کے اخلاص تلک
میں نے ہر نعمت عظمیٰ کا لبادہ پہنا
دست قاتل کی کشش آپ گواہی دے گی
میں نے ہر زخم قبا سے بھی زیادہ پہنا
میری آنکھوں میں خراشیں تھیں دھنک کی لیکن
میری تصویر نے ملبوس تو سادہ پہنا
ضربت سنگ ملامت مرے سینے پہ سجی
تمغہ جرأت و اعزاز حکومت کی طرح
کھل کے برسی مری سوچوں پہ عداوت کی گھٹا
آسمانوں سے اترتی ہوئی دولت کی طرح
قریہ قریہ ہوئی رسوا مرے فن کی چاہت
کونے کونے میں بکھرتی ہوئی شہرت کی طرح
مجھہ پہ کڑکی ہیں کمانیں مرے غم خواروں کی
میرے اشکوں کا تماشا سر بازار ہوا
میرے آنگن میں حوادث کی سواری اتری
میرا دل وجہ عذاب در و دیوار ہوا
عشق میں عزت سادات بھلا کر اکثر
میر صاحب کی طرح میں بھی گنہگار ہوا
اپنی اجڑی ہوئی آنکھوں سے شعائیں لے کر
میں نے بجھتی ہوئی سوچوں کو جوانی دی ہے
اپنی غزلوں کے سخن تاب ستارے لے کر
سنگریزوں کو بھی آشفتہ بیانی دی ہے
حسن خاک رہ یاراں سے محبت کر کے
میں نے ہر موڑ کو اک تازہ کہانی دی ہے
مجھہ سے روٹھے ہیں مرے اپنے قبیلے والے
میرے سینے میں ہر اک تیر ستم ٹوٹا ہے
لفظ و معنی کے تقاضوں سے الجھہ کر اکثر
میرے ہاتھوں میرا مجروح قلم ٹوٹا ہے
کرب ناقدری یاراں کے بھنور میں گھر کر
بارہا دل کی طرح شوق کا دم ٹوٹا ہے
میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے
میرے اعدا کا غضب ابر کرم ہے مجھہ کو
میرے احباب کی نفرت میرا سرمایا ہے
میری بکھری ہوئی رسوائی ہے شہرت میری
میرے صحرا کی تمازت میرا سرمایا ہے
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخ وفا لکھے گی
میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعت دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی
--------
محسن نقوی اردو نظم
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے ۔۔۔۔ تیرے ہجر کی شام
نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے ۔۔ تیرے ہجر کی شام
یہ برگ برگ اداسی۔۔۔۔۔ بکھر رہی ہے مری
کہ شاخ شاخ اترتی ہے۔۔۔۔۔ تیرے ہجر کی شام
اجاڑ گھر میں۔۔۔۔ کوئی چاند کب اترتا ہے
سوال مجھ سے یہ کرتی ہے تیرے ہجر کی شام
مرے سفر میں۔۔۔۔۔۔۔ اک ایسا بھی موڑ آتا ہے
جب اپنے آپ سے ڈرتی ہے تیرے ہجر کی شام
بہت عزیز ہیں دل کو ۔۔۔۔۔ یہ زخم زخم رتیں
انہی رتوں میں نکھرتی ہے تیرے ہجر کی شام
یہ میرا دل۔۔۔۔۔۔ یہ سراسر نگارخانۂ غم
سدا اسی میں اترتی ہے ۔۔۔۔۔ تیرے ہجر کی شام
جہاں جہاں بھی ملیں ۔۔ تیری قربتوں کے نشاں
وہاں وہاں سے ابھرتی ہے ۔۔۔ تیرے ہجر کی شام
یہ حادثہ تجھے شاید۔۔۔۔۔۔ اداس کر دے گا
کہ میرے ساتھ ہی مرتی ہے تیرے ہجر کی شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور شاعر محسن نقوی کی شاعری نظمیں اور غزلیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دلوں میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نور لٹاتی تھیں
جب سانسیں اجلے چہروں کی
تن من میں پھول سجاتی تھیں
جب چاند کی رم جھم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا
اپنے بے انت خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقوت پگھلتے رہتے ہیں
اب اپنی گم سم آنکھوں میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
اب دھوپ اگلتی سوچوں میں
کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں
اب اپنے ویراں آنگن میں
جتنی صبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اس کو خاکستر ہونا ہے
اب یہ باتیں رہنے دیجئے
جس عمر میں قصے بنتے تھے
اس عمر کا غم سہنے دیجے
اب اپنی اجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں
اس عمر کی سب سوغاتیں ہیں
جس عمر کے خواب خیال ہوئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے
اب اپنی دید کے رستے میں
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محسن نقوی کی غزل
وہ جِس کا نام لے لیا، پہیلیوں کی اوٹ میں
نظر پڑی تو چُھپ گئی، سہیلیوں کی اوٹ میں
رُکے گی شرم سے کہاں، یہ خال و خد کی روشنی
چُھپے گا آفتاب کیا، ہتھیلیوں کی اوٹ میں
تِرے مِرے مِلاپ پر، وہ دشمنوں کی سازشیں
وہ سانپ رینگتے ہوئے، چمبیلیوں کی اوٹ میں
وہ تیرے اِشتیاق کی، ہزار حِیلہ سازیاں
وہ میرا اِضطراب، یار، بیلیوں کی اوٹ میں
چلو کہ ہم ۔۔۔۔ بُجھے بُجھے سے گھر کا مرثیہ کہیں
وہ چاند تو اُتر گیا، حویلیوں کی اوٹ میں
_____
محسن نقوی کی غزلیں
ﯾﮧ ﺟﻮ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﺁ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮯ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﭼﭙﮑﮯ چپکے
و ﮦ ﮨﭩﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺮﺩﮦ ﺳﺮِﻋﺎﻡ ﭼﭙﮑﮯ ﭼﭙﮑﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺘﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺩﺭِِﺑﺎﻡ ﭼﭙﮑﮯ ﭼﭙﮑﮯ
ﯾﮧ ﺟﮭﮑﯽ ﺟﮭﮑﯽ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺣﺴﯿﻦ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺷﺎﺭﮮ
ﮐﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﭼﭙﮑﮯ ﭼﭙﮑﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺷﻮﺧﯿﺎﮞ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ، ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﺎ
ﯾﮧ ﺍﺩﺍﺋﯿﮟ ﮐﺮ ﻧﮧ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﭼﭙﮑﮯ ﭼﭙﮑﮯ
0 تبصرے