Ticker

6/recent/ticker-posts

مدارس اسلامیہ کا نیا سال : مدارس اسلامیہ دین کی حفاظت، فروغ اور اشاعت اسلام کا ذریعہ

مدارس اسلامیہ کا نیا سال


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا

شوال المکرم کا مہینہ چل رہا ہے، اس مہینہ میں مدارس اسلامیہ میں نئے داخلے جاری ہیں، چند دنوں میں مدارس اسلامیہ مہمانان رسول سے آباد ہوجائیں گے اور قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی صدا گونجنے لگے گی اور ایک ایمانی اور روحانی ماحول کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔

آج مدارس کی کمی نہیں ہے، ہر گاؤں گلی اور شہر میں مدارس ہیں، لیکن مدارس کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود عام احساس ہے کہ مناسب اور معیار کے افراد نہیں ملتے، ائمہ اور علماء اب بھی کم ہیں، جو صحیح طور پر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں۔ ماضی میں مدارس اسلامیہ کا کردار قابل رشک ہے، کیونکہ ان مدارس نے فکری، علمی اور مذہبی بلکہ اس سے بھی آگے ملکی قیادت کا فریضہ انجام دیا، جو تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ آج پھر ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ وہی کردار ادا کریں جن کی توقع پہلے کے لوگ ان دینی اداروں سے کرتے تھے، آج ضرورت ہے کہ مدارس دینیہ اپنے مقاصد کی عملی تصویر پھر ماضی کی طرح پیش کریں تاکہ دنیا ان کی افادیت و نافعیت کی قائل ہو اور ان کی اتباع کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھیں۔ صرف ماضی کے کردار کو شمار کرانا اور حال کے مطابق تدبیر و اصلاح نہ کرنا اور مستقبل کے خطرات و خدشات کے مطابق شایان شان نظام کو مستحکم نہ کرنا یہ بڑی بے عقلی کی بات ہوگی، بقول مولانا علی میاں ندوی رح، ، دنیا میں کوئی ادارہ محض اس وجہ سے نہیں چل سکتا کہ یہ ادارہ آج سے سو برس دو سو برس پہلے قائم ہوا، اور اس نے کچھ مفید خدمات انجام دی تھی، محض تاریخ کے بل پر، تاریخ کے سہارے کوئی ادارہ، کوئی تحریک، کوئی فلسفہ، کوئی نظام نہ چلا ہے، نہ چلے گا، اگر آپ کسی ادارے کو قائم رکھنے کے لیے اور اس سے کچھ مراعات حاصل کرنے کے لیے، اس کی تاریخ پیش کرتے ہیں، کہ اس نے ماضی میں یہ خدمات انجام دیں، تو لوگ اس کو بالکل نہیں سنیں گے، اور اگر کوئی آج خاموش ہوجائے گا، تو کل اس کے اندر نہایت پرزور اور پر جوش تقاضا پیدا ہوگا کہ اس کو ختم کردینا چاہئے،،

اس لیے مدارس اسلامیہ کل کے مقابلہ آج زیادہ ضرورت مند ہیں کہ وہ اپنی نافعیت و افادیت کو ثابت کریں۔

لیکن اس جانب بھی اشارہ ضروری ہے کہ جو لوگ مدارس کے نظام تعلیم و تربیت کچھ کمی اور نقص کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کی افادیت کا سرے سے انکار کرتے ہیں، منفی تبصرے کرتے ہیں اور مدارس اسلامیہ کو بالکل بے فیض سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی میں ہیں، لاکھ معیار گر جائے اور افادیت میں کمی آجائے، آج بھی یہ مدارس تعلیم وتربیت کے مراکز ہیں اور لاکھوں غریب بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ ہیں، جو لوگ مدارس کی نافعیت پر ہمیشہ انگلی اٹھاتے ہیں اور اس کی افادیت کے قائل نہیں ان کی خدمت میں ذیل کی تحریر ایک بار پھر، ، قند مکرر، ، کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

مشہور ادیب اور شاعر حکیم احمد شجاع، علامہ اقبال رح کے دیرینہ نیاز مند تھے، انہوں نے اپنی کتاب۔ ۔ خون بہا۔


محمد قمرالزماں ندوی


میں علامہ اقبال کے بارے میں بھی اپنی بعض یاد داشتیں قلمبند کی ہیں، اس کتاب میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک مجلس میں، میں نے دینی مکاتب و مدارس کا تذکرہ کیا تو علامہ اقبال نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بڑی درد مندی اور دلسوزی کیساتھ فرمایا :

٫٫جب میں تمہاری طرح جوان تھا تو میرے قلب کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی میں بھی وہی کچھ چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو۔ انقلاب ! ایک ایسا انقلاب جو ہندوستان کے مسلمانوں کو مغرب کی مہذب اور متمدن قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے۔ یورپ کو دیکھنے کے بعد میری رائے بدل گئ ہے۔ ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مکتبوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا ؟ جو کچھ ہوگا میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیرووں اور اسلامی تہذیب کے آثار کو کوئ نقش ہی نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئ نشان نہیں ملے گا،،۔
(اوراق گم گشتہ، از رحیم بخش شاہین بحوالہ چراغ راہ ص: ۹۲)

دینی مدارس ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل

اس میں کوئی شک اور شبہ نہیں کہ دینی مدارس ملت اسلامیہ کا دھڑکتا دل ہے۔ وہ دل جس کی دھڑکن زندگی کی علامت اور پہچان ہے اور جس کی خاموشی موت کی خاموشی بن جاتی ہے، دل اگر پورے جسم میں خون پہنچاتا ہے اور اسے سرگرم اور زندہ رکھتا ہے تو یہ دینی مدارس بھی امت مسلمہ کو دین کا خادم مبلغ اور ترجمان فراہم کرتے ہیں۔ جن کی وجہ سے امت مسلمہ کا وجود متحرک زندہ اور فعال رہتا ہے، تمام دینی جماعتوں تحریکوں، اداروں تنظیموں اور سوسائٹیوں کو یہیں سے قوت و طاقت کمک اور رسد پہچتی ہے۔ اگر ان اداروں تحریکوں جماعتوں اور تنظیموں کو یہاں سے یہ پاور طاقت و قوت انرجی نہ پہنچے تو ان کی فعالیت اور حرکت و حرارت میں کمی آجائے اور ایک طرح سے بے جان و بے حس ہو جائے۔ داعی ہوں یا مبلغ دین کا خادم ہوں یا ترجمان امام ہوں یا خطیب مصنف ہوں یا مولف مرتب ہوں یا صحافی و محرر خطیب ہوں یا واعظ استاد ہوں یا مربی مفتی ہوں یا قاضی امیر ہو یا حاکم یا کوئی بھی خدمت گزار دین کے لائن سے ہوں یا سماجی ورکرر کے اعتبار سے سب اسی کے خوشہ چیں اسی گل کے پھول و کلی اور اسی چمن کے گلہائے رنگا رنگ ہوتے ہیں۔

مدارس اسلامیہ حفاظت دین، فروغ دین اور اشاعت اسلام کا ذریعہ ہیں، تقریبا ڈیڑھ سو سالوں سے تو خود ہندوستان بلکہ بر صغیر میں ان مدارس کے جو خدمات اور کردار ہیں وہ کسی سے بھی مخفی نہیں ہے۔ موجودہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کے جو بھی جلوے ہمیں نظر آتے ہیں، وہ انہی مدارس کی دین ہیں اور انہیں دینی اداروں کا فیض ہے۔ انہیں دینی اداروں نے اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کے لئے ایسے افراد اور ایسی ٹیم تیار کی ہے، جو اپنے زمانہ کے چیلنجوں کا ڈٹ کر، آنکھ سے آنکھ ملا کر اور سینہ سپر ہوکر مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت ہر طرح کی قربانی دے کر امت کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کا حوصلہ رکھتی ہے، آپ ماضی قریب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے اور تاریخ کے ان اوراق کا مطالعہ کرلیجئے آپ کو معلوم ہوگا کہ جب بھی اسلام کے خلاف کوئی آندھی اٹھی تو ان مدارس اور دینی جامعات کے فارغین اور فضلاء نے ہی اس باد سموم اور باد سرسر کا مقابلہ کیا اور امت محمدیہ کو راہ حق کی رہنمائی کی۔


اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا

دشمنان اسلام کی طرف سے مدارس اور علماء کے خلاف یہ مہم جوئ جو آج اور بھی زور و شور پر ہے خود اس حقیقت کو واشگاف کرتی ہے اور اس راز کو ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی عقیدہ، اسلامی ثقافت اور اسلامی تشخصات کی حفاظت اور مسلمانوں کو مسلمان باقی رکھنے میں مدارس اسلامیہ کا اور طبقئہ علماء کا کتنا بڑا حصہ ہے۔ جو آج دشمنوں کی نظر میں اور اغیار کی نگاہ میں سب سے زیادہ کھٹک رہا ہے۔ آج باطل کو سب سے زیادہ خطرہ اور خوف انہیں مدارس اور مدارس کے انہیں درویش صفت اور مادی وسائل کے اعتبار سے خستہ حال لیکن اسلام کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے والے علماء سے ہے۔

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر یہ مدارس اور یہ علماء باقی رہیں گے تو ممکن نہیں کہ مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ اور ان کے اسلامی شعار و تشخصات و امتیازات کو اغوا کیا جا سکے اور ان میں کسی طرح سیندھ لگا سکے۔ یا انہیں مغربی اور زعفرانی تہذیب میں جذب کیا جاسکے۔ بقول گھر کے ایک گواہ کے کہ یہ ایسا سخت جان گروہ ہے کہ اسے بیگانے بھی برا کہتے ہیں، اور اپنے ہیں وہ بھی اس پر تحقیر و ملامت طنز و استہزاء کا تیر پھینکنے سے نہیں چوکتے۔

مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے

جن دینی مدارس کے بارے میں مفکر اسلام علی میاں ندوی رح نے یہ فرمایا تھا: کہ مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں اور عالم اسلامی کا یہ بجلی گھر ہے جہاں سے اسلامی ابادی میں بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے اور جہاں قلب و نگاہ اور ذھن و دماغ ڈھلتے ہیں ان مدارس کے بارے میں غیروں کی عیاری اور اپنوں کی سادگی پر سخت افسوس اور حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بہت سے اچھے خاصے پڑھے لکھے، اسکالر اور دانشور لوگ بھی بے تکلف سازش کا شکار بن رہے ہیں اور وہ بھی ان مدارس میں خدمت کرنے والوں کو اپنی بے نگاہی اور کم نگاہی کی وجہ سے کم نگاہی سے دیکھ رہے ہیں۔ اور شب و روز مولویوں پر اعتراض اور نقد کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ علماء کے اعتماد کو مجروح کرنا اور ہمہ وقت مدارس اور وہاں کے نظام میں کیڑے نکالنا در اصل دین و مذہب کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ اس میں بھی کوئ شبہ نہیں کہ ہم طبقئہ علماء میں بھی بہت کمیاں ہو سکتی ہیں اور ہیں، یہ گروہ کوئی فرشتہ ہے۔

ممکن ہے کہ کسی مدرسہ اور دار العلوم سے آپ کو شکایت ہو اور آپ کی شکایت بالکل بجا اور درست ہو کسی عالم پر آپ غصہ ہوں اور ان پر آپ کی خفگی اور غصہ و ناراضگی سو فیصد درست ہو لیکن خدا را آپ پورے گروہ علماء بدگمانی کریں ان کے بارے میں غلط رائے قائم کریں یہ اپنے گھر کو آپ آگ لگانے کے ہم معنی ہے۔

آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ اگر بر صغیر ہندو پاک میں یہ مدارس نہیں ہوتے تو مغلیہ حکومت و امپائر کے زوال کے بعد ہم کس حشر میں ہوتے ہمارا انجام کیا ہوتا۔ کیا ہمارے نام اور کام میں کہیں اسلامی شان و شوکت کا معمولی سا رنگ بھی ہوتا ؟کیا حلال و حرام جائز اور ناجائز سے واقف ہوتے کیا ہمیں دینی مسائل میں رہنمائی کرنے والا کوئ ملتا اور ہمیں فکری اور تہذیبی ارتداد سے بچنے کو کوئی سامان مہیا ہوتا ؟

اس لئے خدا را ! علماء اور مدارس کے وقار و اعتماد کو ٹھیس مت پہنچائے اپنی مثبت رائے اور نظام تعلیم میں مفید اصلاح اور تبدیلی نیز نصاب تعلیم کے بارے میں صحیح مشورہ اور تجزیہ ضرور پیش کیجئے، صرف تھیوری نہ پیش کرکے، پرکٹکل کچھ کرکے دکھائیے کچھ ایسے معیاری اور آیڈیل مدارس قائم کرکے دکھائیے تاکہ دوسرے بھی آپ کی تقلید کریں اور آپ کے آدئیل کو آڈیل بنائیں۔ بعض مدارس نے اس جانب قدم اٹھایا ہے جو خوش آئند قدم ہے اور امید ہے کہ اس کے مفید اثرات جلد ظاہر ہوں گے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے