Ticker

6/recent/ticker-posts

قوموں کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کا کردار : خطاب جمعہ

قوموں کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کا کردار : خطاب جمعہ

خطاب جمعہ ۔۔۔۔۔۔۔۶/مئی
محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکریٹری
مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ9506600725

دوستو بزرگو اور بھائیو!
انسان کے زندہ رہنے کے لئے کھانا، پانی اور ہوا یہ تینوں چیزیں ضروری اور لازمی ہیں ۔ اس کے بغیر ایک دو دن یا زیادہ سے زیادہ ایک آدھ ہفتہ تک انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کے بعد زندہ رہنا تو ایک کرامت ہوگی۔

علم کے بغیر انسان کی شخصیت ناقص اور نامکمل ہے

تو جس قدر انسان کے زندہ رہنے کے لئے ان چیزوں (پانی۔ خوارک اور ہوا) کا ہونا ضروری ہے ۔ اتنی ہی ضرورت انسان کے لئے تعلیم کی بھی ہے ۔ علم کے بغیر انسان کی شخصیت ناقص اور نامکمل ہے، اس کے بغیر انسان صحیح زندگی نہیں گزار سکتا ۔ اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے پیدا ہونے کے مقصد کو نہیں جان سکتا وہ خیر و شر اور صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کر سکے گا ۔ بر صغیر کے ایک بلند پایہ عالم اور مفکر کی زبان سے نکلا یہ جملہ آج بھی حافظہ میں محفوظ ہے کہ انہوں فرمایا تھا، ، کہ دنیا کی سب سے بڑی اور بری گالی یہ ہے کہ کسی کو یہ کہہ دیا جائے کہ تم جاہل ہو ۔ اس سے بڑھ کر کوئی گالی نہیں ہوسکتی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور جانور کے درمیان کوئی زیادہ فروق نہیں ہے۔ جاہل اپنے جہل کی بنیاد پر کچھ بھی کرسکتا ہے، کیونکہ اس کے اندر خیر و شر اور بھلے صحیح و غلط اور برے کی کوئی تمیز ہی نہیں ہوتی ہے۔

دنیا میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے علم کو سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام دیا اس کے دروازے کو سب کے لئے وا کیا ۔ اس کے لئے جتنی رکاوٹیں ہو سکتی تھیں، سب کو دور کیا اور اس کے تصور کو اتنا وسیع اور عام کیا کہ ماں کی گود سے لحد تک اس کے سفر کو وسعت دی۔

آپ غور کیجئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کس وقت اور کس ماحول میں ہوئی۔ کون سی برائی اور بدعقیدگی اور ظلم و جہالت اور سفاکی و درندگی اس سماج اور معاشرہ نہیں پائی جاتی تھی، اس زمانہ کو زمانئہ جاہلیت کا نام ہی دیا گیا تھا ۔ بے حیائی اور بے شرمی کی انتہا یہ تھی کہ باپ کے مرنے کے بعد بڑا بیٹا ماں سے شادی کر لیتا اور سارے بھائی بہنوں کی وراثت پر قابض ہو جاتا۔ بعض خاندان اور قبیلے بیٹی کی پیدائش کو عار اورمنحسوس سمجھتے اور پیدا ہوتے ہی اسے زندہ در گور کر دیتے ۔ کسی کو داماد بنانا وہ اپنے لئے ہتک سمجھتے تھے۔ غرض ہر قسم کی برائی سے عرب معاشرہ جوجھ رہا تھا، معمولی سی بات پر برسوں ان میں لڑائیاں چلتیں۔ اس ماحول میں آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے اور چالیس سال کے بعد آپ کو نبوت و رسالت ملی، اگر اس وقت کسی سلیم الفطرت انسان سے سوال کیا جاتا کہ بتاو تقیربیا پانچ سو سال بعد زمیں کا رشتہ آسمان سے جڑا ہے اور عرب سماج کی یہ حالت ہے شرک و کفر اور بد اخلاقی و بے حیائی کا یہ مرکز اور اڈہ بنا ہوا ہے، بتاو اللہ کی طرف سے پہلا پیغام اور پہلی وحی نازل ہونے والی ہے وہ پیغام اور وحی کیا ہوگی پہلا حکم کیا ہوگا؟؟؟تو اس شخص کا جواب یہ ہوتا کہ اس پیغام میں کفر و شرک کی اور برائی و بے حیائی کی ظلم و تشدد کی نکیر اور مذمت ہوگی ۔ لیکن میرے بھائیو ! ایسا نہیں ہوا اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس موقع پر جو سب سے پہلی آیت نازل ہوئی، جو پہلا پیغام آیا جو پہلی وحی اتری ۔ وہ لفظ اور پیغام تھا اقراء اے اللہ کے نبی ! پڑھئیے

اس آیت کہ اس اعجاز پر بھی غور کیجئے کہ اللہ تعالی نے اس جملہ نما لفظ میں فاعل اور فعل کا تذکرہ کیا لیکن مفعول کا تذکرہ نہیں کیا ۔ یہ اشارہ اور دلیل ہے کہ انسان کو قرآن جو آخری الہامی اور آسمانی کتاب ہے، اس کو تو پڑھنا ہی ہے، اس کے علاوہ ہر اس علم کو سیکھنا بھی ضروری ہے جو انسانیت کے لئے مفید، نافع اور نفع بخش ہے ۔ اگر اس جگہ مفعول کا ذکر کر دیا جاتا کہ صرف قرآن پڑھو تو وحی الہی کے علاوہ دیگر علوم و فنون کا پڑھنا ممنوع ہوجاتا۔

اسلام نے علم کا جو آفاقی تصور دیا اور اس کی وسعت کے دائرے کو جو مہد سے لحد تک عام کیا دنیا کے کسی مذہب نے علم کو یہ وسعت و ہمہ گیری نہیں دی ۔ بلکہ اس کے برعکس علم کو کسی خاص طبقہ اور برادری تک محدود رکھا اور دوسرے کو اس کے ارادہ اور کی طرف نیت کرنے سے بھی روکا دیا اور معلوم ہونے پر کہ فلاں برادری اور طبقہ کا بھی کوئی فرد علم حاصل کر رہا ہے، ان کو سخت سے سخت سزائیں دی گئیں ۔ کیا دنیا کی کوئی قوم اور مذھب کے ماننے والے مسلمانوں سے اس موضوع پر آنکھ سے آنکھ ملا کر بات بھی کرسکتے ہیں؟

محترم حضرات!
علم اسلام کا نقطئہ آغاز ہے، اسلام نے اپنے سفر کا آغاز ہی علم اور روشنی سے کیا، اسلام نے علم کو جو حیثیت اور اہمیت دی اس کو جو مقام و مرتبہ دیا ۔ اس کے حصول پر جس قدر تاکید کی ۔ مرد و عورت ہر ایک کو جس طرح اس کے حاصل کرنے کا مکلف بنایا، وہ محتاج بیان نہیں ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے علم اور جہل کے درمیان خط فاصل کھینچ کر صاف لفظوں میں سمجھا اور بتا دیا کہ اے نبی !

کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ ( الزمر آیت ۹)

علم ہی وہ چیز ہے جو انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ مال و زر پرشکوہ عمارتیں اور جنت نشان عیش کدوں کے ذریعہ جسمانی سکون تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن کسی قوم کے ایک باعزت قوم کی حیثیت سے دنیا میں زندہ رہنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے، علم سے عقل و شعور کی سطح اوپر ہوتی ہے، اخلاقی معیار بلند ہوتا ہے، دلوں کو فتح کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور دنیا میں وہ قوم قیادت کے منصب سے بہرہ ور ہوتی ہے اسی تعلیم کا کوئی بدل نہیں۔

۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے سب سے زیادہ زور اسی پر دیا۔
اسلام دنیا میں آیا ہی سراپا علم و آگہی بن کر، اور اسی تعلیم کی وجہ سے مذہب اسلام پوری دنیا میں ایک ہمہ گیر انقلاب کا پیامبر ثابت ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے خدائے وحدہ لاشریک نے زیور علم سے اراستہ کیا ۔ اور اسی علم و معرفت کی وجہ سے فرشتوں پر ان کو ترجیح و برتری دی ۔ دوسرے مذاہب نے علم کو زندگی کی دیگر ضرورتوں کی طرح محض ایک ضرورت قرار دیا، مگر اسلام نے علم کو لازمئہ حیات اور ضرورت زندگی قرار دیا ۔ اسلام کے نزدیک علم صرف شعور و آگہی اور ادراک کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے ان تمام۔۔۔۔۔۔۔۔تجربات، مشاہدات اور مدرکات کا نام ہے جو اللہ کی معرفت اور دونوں جہانوں کی سعادت کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اور انسان میں جوہر خود شناسی پیدا کرتے ہیں ۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو قرآن مجید میں بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے تاکید کی کہ علم کی زیادتی کے لئے اپنے رب سے دعا کرو اور یوں کہو کہ رب زدنی علما
بار الہا!
میرے علم میں اضافہ فرما۔
اور کسی چیز کی زیادتی کی دعا کے لئے نہیں کہا گیا کہ مال زیادہ دے دے ۔ زر زن اور زمین زیادہ دے دے ۔ عہدہ اور منصب میں خوب ترقی دے ۔ صرف علم کی زیادتی اور اضافہ کے لئے دعا پر زور دیا گیا۔

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مصنف ابن ابی شیبہ یا مصنف عبد الرزاق میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنے لئے سب سے نامبارک اور نا مسعود دن وہ سمجھوں گا کہ پورا دن اور پوری رات گزر جائے اور میرے علم و معرفت میں کوئی اضافہ نہ ہو سکے۔

مکہ مکرمہ میں اسلام کے آغاز وقت بھی آپ نے حصول علم اور تربیت کے لئے دار ارقم کو اس کے لئے خاص کیا ۔ محققین اور ماہرین نے لکھا ہے کہ یہ انتخاب ایک الہامی انتخاب تھا ۔ دار ارقم کا محل وقوع کچھ اس طرح تھا، کہ وہ پہاڑ کے دامن میں تھا اس کی بناوٹ اور ہئیت کچھ اس طرح کی تھی کہ اندر کے لوگ باہر کے لوگوں کی نقل و حرکت سے واقف رہتے، لیکن باہر کے لوگوں کا اندر کا کچھ علم نہ ہوتا اس مکان کا دروازہ بھی کچھ اسی انداز کا تھا ۔۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آنے کو جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے، دروازے کے اوٹ اور سوراخ سے دیکھ لیا تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی تھی۔

دار ارقم کے محل وقوع اور دعوت اسلام کے لئے اس کے انتخاب پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئ ہیں۔

اور جب مکہ کا لٹا پٹا قافلہ مدینہ منورہ آیا تو یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت گاہ یعنی مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ کی بنیاد صفہ چبوترے کی شکل میں رکھی۔ اور یہی چھوٹی سے جگہ سارے عرب کے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا مرکز تھی اور خود آپ اس کے منتظم اور استاد تھے۔ یہ صفہ اسلامی تاریخ کا پہلا مدرسہ تھا، اس مدرسہ میں مقیم اور غیر مقیم طلبہ دونوں تعلیم حاصل کرتے تھے، دار الاقامہ کا بھی نظم تھا، اس درس گاہ حالات و مواقع کے اعتبار سے طلبہ کی تعداد گھٹتی بڑھتی تھی، ایسا بھی ہوا کہ بیک وقت چار سو طلبہ نے استفادہ کیا۔ عہد نبوی میں مجموعی طلبہ جن کا مدرسہ صفہ میں قیام رہا ان کی تعداد نو سو تک رہی۔ اس درس گاہ کے نصاب تعلیم کا موضوع قرآن پاک اور احکام کی تعلیم تھی، لیکن اس کے علاوہ تحریر و کتابت پر بھی پوری توجہ دی جاتی تھی۔۔ مدینہ منورہ میں مدرسہ صفہ کے علاوہ بعض اور مکاتب اور چھوٹی درس گاہیں بھی تھیں۔

اسلام میں علم کا درجہ اور مقام کیا ہے اس کا اندازہ جنگ بدر کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس غزوہ میں ستر اہل مکہ قتل کئے گئے اور اتنے ہی مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار کئے ہوئے اس وقت مسلمان سخت مالی و معاشی مشکلات میں گھرے تھے لیکن اس کے باوجود بعض روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا پہلا فدیہ یہ مقرر کیا گیا کہ جو لوگ بڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ دس مسلمانوں کو پڑھنا سکھا دیں۔

آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ اور عمل ہمیں یہ پیغام دیتا ہے ہم مسلمانوں کو یہ درس دیتا ہے کہ ہمیں بھوکا رہنا پڑے رہ لیں ۔ دنیا کے اسباب راحت کم میسر ہو ٹھیک ہے ۔ ہماری کروٹیں فاقوں سے بے سکون ہوں چلے گا لیکن ہم ہر قیمت پر اپنی اولاد کو علم کے زیور سے آراستہ کریں ان کی تعلیم و تربیت کا بہتر سے بہتر اور اعلی انتظام کریں ۔ اور ہم اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ کسی بھی بچے کو تعلیم سے بے بہرہ نہ رہنے دیں ۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے اس سے غفلت اور بے توجھی جرم اور گناہ ہے ۔ افسوس ہوتا ہے کہ قوم کے کتنے نونہال ہیں جن کی آنکھوں سے بلا کی ذھاتیں ٹپکتی ہیں تعلیم و تربیت کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے، مالی دشواری کی وجہ سے اور ان کی دیکھ ریکھ اور توجہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بچے ہوٹلوں میں پلیٹیں صاف کر رہے وہ بچپن ہی میں بندھوا مزدور بنے ہوئے ہیں ۔ کیا ہم سمجھتے کہ کیا ہم اپنی غفلتوں کی وجہ سے عند اللہ ماخوذ نہیں ہوں گے یقینا ہوں گے اللہ تعالی ہمارا ضرور محاسبہ اور مواخذہ کریں گے ۔ خدا کرے ہم سب کو اس کا احساس ہو جائے ۔۔۔

غرض قوموں کی تعمیر و ترقی اور عروج و بلندی میں سب سے زیادہ، تعلیم ہی کا رول اور کردار ہے ۔ مذھب اسلام، جو پوری دنیا میں پھیلا اور مذھب اسلام کو جو وسعت ہوئی، اس میں سب سے زیادہ رول اور کردار تعلیم کا ہے، صحابہ کرام علم میں گہرے تھے، ان کی معلومات بہت ٹھوس تھی ۔ علم و معرفت کی بھٹی میں انہوں نے اپنے کو تپایا اور پھر جہاں بھی داعی اور مبلغ بن کر گئے پورے ملک میں انقلاب برپا کردیا اور سارے لوگوں کی کایا پلٹ دی۔ آج مسلمانوں کو پھر علم کے ہتھیار سے اپنے کو آراستہ کرنا ہوگا ۔ علم کے میدان میں دیگر قوموں سے سبقت ریس و مسابقہ کرنا ہوگا ۔ اور پوری نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا ۔ اس کے لئے معیاری دینی و عصری ادارے قائم کرنے ہوں گے ۔ مال و دولت کی اور اپنی صلاحیتوں کی قربانی دینی ہوگی ۔ پھر کسی سر سید اور قاسم نانوتوی کو کھڑا ہونا ہوگا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے