Ticker

6/recent/ticker-posts

ساس کے لئے بھی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے

ساس کے لئے بھی کاؤنسلنگ کی ضرورت ہے


saas-ke-liye-bhi-counselling-ki-zarurat


از :ڈاکٹر مظفر نازنین
کولکاتا

ساس اور بہو کا رشتہ ایک مقدس اور پاکیزہ رشتہ ہے۔ دونوںماںاور بیٹی کی مانند ہیں۔ جب کسی خاندان میں اولاد نرینہ شکم مادرسے نکل کر عالم فانی میں میں وجود میںآتاہے تو نہ جانے ماں اپنے دلوں میں کتنے سپنے سجائے بیٹھتی ہے۔ بزرگوں کے جذبات اس شعر کے مصداق ہوتے ہیں۔ ؎

بیٹے کو لوگ کہتے ہیں آنکھوں کا نور ہے
ہے زندگی کا لطف تو دل کا سرور ہے

خوش قسمتی کی اس کو نشانی سمجھتے ہیں
کہتے ہیں یہ خدا کے کرم کا ظہور ہے

مائیں خدائے پاک رب العزت کے شکر بجالاتی ہیں۔ شکرانے کی نماز اداکرتی ہیں کہ اللہ جل شانہٗ نے انہیں ہزاروں منت اور مرادوں کے بعد ایک فرزندعطاکیا۔ زندگی میںبچے کی کامیابی اورکامرانی کے لئے ہر لمحے دعائیںکی جاتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیاجاتاہے۔ شاندار کیرئیر اور Establishment کے ان کی شادی کے لئے بہترین سے بہترین لڑکی کے انتخاب کا دور شروع ہوجاتاہے۔ حسین ترین بہو ساس محترمہ کی پہلی پسند ہوتی ہے۔ اولین انتخاب کے بعد حسن میںشاہکار ہونے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ، امور خانہ داری سے مکمل واقفیت پروفیشنل (پیشہ ور) ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، پروفیسر سول سروس، ایگزکیٹیو، ایم بی اے کو خاص ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیکھا جاتاہے کہ لڑکی کے گھر والے معتبر اورمتمول ہو ں۔ باحیثیت ہوںتاکہ بہو کافی جہیز لاسکے۔ گویا بہوئیں کوئی آسمانی مخلوق ہیں۔ بہرحال ایک معیاری لڑکی کا انتخاب ہوتا ہے۔ اور بیٹے کی شادی دھوم سے رچائی جاتی ہے۔ اور میٹروپولیٹن شہروں میں تو فائیو اسٹار ہوٹل میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیاجاتاہے۔ جہاں اعزہ واقارب، دوست احباب، بہی خواہوں اور عظیم شخصیات کی طرف سے تہہ دل سے تہنیتی پیغام دینے کاسلسلہ شروع ہوتاہے۔ اور شادی کی محفل میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اوریہ حاضر ین محفل میں عروس و نوشہ کو خوشگوار اورکامیاب ازدواجی زندگی کے لئے دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ ان کی لمبی عمر کی دعائیں کرتے ہوئے زبان سے بیساختہ نکل پڑتا ہے۔ ؎

تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

نشاط کیف کی محفل اور پررونق بزم میں شاید ہی کوئی ایسا خدا کا بندہ ہو جو ساس بہو اور خاندان کے دوسرے افراد کے لئے بھی دعائیں کریں کہ ان کے ساتھ بھی اس جوڑے کے رشتے کے خوشگوار ہوں۔ کہانی یہاں سے نیا موڑلیتی ہے۔ اب پرانی روایات اورپرانی قدریں دم توڑ رہی ہیں۔ جن پر ہم مشرقی تہذیب والوں کو بڑاہی ناز تھا۔ برصغیرہند و پاک کی تہذیب بدل چکی ہے۔ روزانہ خبریں نشر ہورہی ہیں اخبارات گواہ ہیں۔ جہیز اور خانگی مسائل کی بنیاد پر بہوئیں جلائی جارہی ہیں۔ساس اور بہو کا مقدس رشتہ پامال ہورہاہے۔ اور دونوں فریق ایک دوسرے کو کیفر کردارتک پہنچانے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہندستان میں تقریباً ہر گھنٹے ایک نئی دلہن جہیز کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے۔ جو ہمارے سماج اور معاaazشرے کے لئے کاؤنسلنگ کی شدید ضرورت ہے۔ موجودہ تقاضاملت کو مسیحائی کا پیغام دیتاہے۔ بہو ایک نئے ماحول میںآتی ہے۔ اس سے نہ جانے کتنی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔جسمانی خدمت سے لے کر آفس کے جاب۔ اگر پروفیشنل بہو ہوتو پروفیشن کے لئے دامے، درمے، سخنے ہمہ تن کوشاں رہتی ہیں۔اور گھر پر مکمل طورپر وقت نہیں دے سکتی۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر بہو کے اخلاق بلند ہوں، دریا دلی، فیاضی اور سخاوت ہوتو اپنے شعار و سلیقے سے ساس کی دلجوئی کرسکتی ہیں۔بعض اوقات ساس محترمہ کا نادر شاہی حکم صادر ہوتاہے۔ اور وہ اپنی پروفیشنل بہو کو اس کے پروفیشن کوسدا کے لئے ترک کرنے پر دباؤ ڈالتی ہیں۔ اور شوہر کی طرف سے بھی دباؤ ڈالاجاتا ہے۔ جبراً، قہراً مجبوراً انہیں (بہو کو) ساس اور شوہر کے حکم کی تعمیل کے لئے جاب دائمی طور پر چھوڑ دیناپڑتا ہے۔ لیکن بہو کی دلازاری ہوتی ہے۔ ساس اور بہو کے درمیان تنازع جنم لیتا ہے۔ بعد میں یہ چنگاری شعلہ بن کر ابھرتی ہے۔ بہو کے دلوں میں انتقام کاجذبہ فطری طور پر امنڈ تاہے۔ ساس اور بہو کی ذہنیت مختلف ہوتی ہے۔

Generation Gap ہوتا ہے جس بہو نے اپنے کیرئیر کی تکمیل کے لئے ساری زندگی صرف کردی۔ محنت، جانفشانی اورلگن سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد صرف ایک حکم کی تعمیل کے لئے اپنے کیرئیر کو برباد کرنا اس کے لئے خون کے آنسورونے سے کچھ کم نہیں۔ یہ سب کچھ ایسی فیملی میں ہوتا ہے۔ جہاں لوگ کو تاہ نظرہوں اور کہنہ خیال ہو کہتے ہیں ایک ہوم میکر اپنے بچے کی تعلیم و تربیت بہترین ڈھنگ سے کرتی ہے۔ گھر کو جنت کا نمونہ بناسکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے لیکن تصویر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پروفیشنل ماں کیبچے زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ان کے ساتھیوں سے کہیںزیادہ ہوتاہے۔ یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ تعلیم آج کے دورمیں بہت مہنگی ہے۔گرانی آسمان چھورہی ہے۔ ایسے نازک موڑ پر ایک متوسط گھرانے میں بچے کی اعلیٰ تعلیم و تربیت دوسرے اخراجات کے لئے والد اوروالدہ دونوں کے لئے ذریعہ معاش کی ضرورت ہے۔ ایسے حالات مین مشترکہ خاندان میں ساس اورگھر کے دوسرے افراد کی ہمدردی، مدد اور ہم آہنگی لازمی ہے۔ ساس اور بہو کے درمیان افہام و تفہیم کے ذریعہ مسئلے کا بہترین حل نکالنا ممکن ہے۔ بہوئیں حکمت عملی سے کام لیکر ساس کا دل جیت سکتی ہیں۔ اسلام میں خواتین ادب و تہذیب کے دائرے میں رہ کر جاب کرسکتی ہیں۔ جب مشکل درپیش ہوتو کسی کے سامنے گداگری کرنے سے بہتر بذات خود ذریعۂ معاش کی تلاش ہے۔ اسلام میں خواتین کو کب معاش کی اجازت ہے بہو کے انتخاب ضروری ہے۔ زندگی انسانیت کو جہد مسلسل اورعمل پیہم کا پیغام دیتی ہے۔ آئیے عہد کریںکہ اب ہمارے ملک میں امن اور آشتی کی فضا قائم اور دوائم رہے۔بہوئیں جلائی نہ جائیں اورساس کو ظلم نہ سہنا پڑے۔ گنگاجمنی تہذب جو ہمیں ورثے میں ملی ہے اس کاپامال نہ ہو۔ہرگھر میں امن کاچراغ روشن ہو۔ اور شمع عندلیب کی روشنی سے ہر گھر منور ہو۔ بیٹے اور بہو کی اپنی زندگی ہے۔ ساتھ ہی ساس کو عالم ضعیفی میں بہو اوربیٹے کی شدید ضرورت ہے۔ یعنی دونوں فریق ایک دوسرے کیلئے لازم او رملزوم ہیں۔ اس لئے جس طرح میڈیکل انجینئرنگ کی تعلیم سے پہلے کاؤنسلنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر ساس بہو اور دوسرے افراد کی کاؤنسلنگ ہوتو شاید سماج کے اس سنگین مسئلے کا حل بہت حدتک ممکن ہے۔ خدائے پاک برتر وبالا ہم سبھوں کوبہترین ساس اور بہو بننے کی توفیق عطاکرے۔ آمین) اللہ جل شانہ ہمیں بہترین عمل کرنے توفیق عطا کرے۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ؎

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے

Mobile: 988470916
Email-muzaffar.nazin.93@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے