Ticker

6/recent/ticker-posts

شہر وانم باڑی میں ادب کی بے ادبی، ایک سانحہ ایک المیہ

شہر وانم باڑی میں ادب کی بے ادبی، ایک سانحہ ایک المیہ


اسانغنی مشتاق رفیقی


اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
جرعات
ادب کسی بھی سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور اس کو پرکھنے کا قابل اعتماد پیمانہ بھی۔ کسی بھی سماج ومعاشرے کی تہذیب و تمدن کو سمجھنا ہو تو اس کے ادب کا مطالعہ ضروری ہے اس سے جہاں اس کے اقدار کا پتہ چلتا ہے وہیں اس کے نشیب و فراز سے واقفیت بھی حاصل ہوجائے گی اور اس کا بھی اندازہ ہوجائے گا کہ اس کا معیار زندگی، اخلاقیات، مذہب اور انسانیت کے حوالے سے اس کا نقطہء نظر کیا ہے۔ موجودہ مادہ پرست دور میں بھی ادب کی افادیت کم نہیں ہوئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مغرب جسے مادہ پرستی کا سرخیل سمجھا جاتا ہے، اپنی تہذیب کو آج بھی ادب سے جوڑے رکھنے میں کامیاب ہے لیکن اس کی اندھی تقلید میں مبتلا مشرق کے اقوام خاص کر ہم، مادہ پرستی سے اس حد تک متاثر ہوچکے ہیں کہ ہم نے ادب کو اپنی زندگی سے ہی نکال دیا ہے، اس پر بس نہ کرتے ہوئے ادب کی تحقیر بھی شروع کر دی ہے کہ یہ سب چیزیں وقت کا زیاں ہیں اس کی جگہ اگر کوئی بہتر کام کیا جائے تو چار پیسے ملیں گے اور زندگی عیش میں گذرے گی وغیرہ وغیرہ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ادب کی قدر دانی نہ کرتے ہوئے جہاں ہمارے درمیان سے ایک دوسرے کا ادب اٹھتا جارہا ہے وہیں ہم اپنی تہذیبی شناخت سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں اور اس کا ہمیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں ہے۔ سرمائے کی ہوس ہم میں اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہم ایک مشین بننے پر تو آمادہ ہیں لیکن اپنے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج کھٹکنے لگا ہے۔ مفاد پرستی اور ھل من مزید کے اس دوڑ میں اگر ہمیں کچھ یاد ہے تو بس اتنا کہ ہمیں ہر حال میں سب سے آگے رہنا ہے اور دولت کے اتنے انبار حاصل کر نے ہیں کہ ساری دنیا ہماری قوت خرید میں آجائے۔

ہمارے شہر، شہر وانم باڑی میں ہماری ادبی تاریخ لگ بھگ ایک صدی سے زیادہ عرصے میں پھیلی ہوئی ہے۔ وانم باڑی کے پہلے صاحب دیوان شاعر کی پیدائش 1854ء کی ہے اور اس سے پہلے ہی سے ہمارے شہر اور اطراف و اکناف میں ہمارے سماج اور معاشرے کی حساس شخصیتیں ادب کے ذریعے اپنی شناخت بنانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ان ڈیڑھ سو سے زائد سالوں میں ہمارے پاس جو ادبی سرمایہ جمع ہوا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ دور کن اعلیٰ اقدار اورتہذیب کے کس اونچے معیار پر فائز تھا۔ان ڈیڑھ سو سالوں میں ہمارا ادبی معیار کا عالم یہ رہا ہے کہ اطراف واکناف کیا، پورے جنوبی ہندوستان میں ہماری پہچان مستحکم رہی اور دوسرے شہر کے لوگ ہماری تقلید کو شان سمجھنے لگے تھے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ یہ سب ایک خواب ہوتا جارہا ہے۔ جس سرمایہ داری کی وجہ سے تمام عالم متاثر ہے اسی سرمایہ داری نے یہاں بھی ادب کی نیا ڈبونے میں اپنی پوری زور صرف کر دی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے شہر کے دانشور اور عالم کہلانے والے حضرات بھی اس شور سگاں سے متاثر ہوکر ادب کو بے کار اور لغو باور کراتے پھر رہے ہیں۔اپنی تاریخ سے بے پرواہ، کچھ مٹھی بھر سرمایہ داروں نے ہمارے اس خوبصورت شہر کو جو ایک شاندار ادبی ورثے کا حامل ہے، اپنے مفاد پرستی کے ناپاک منصوبے کے لئے یرغمال بنا کر مشینی بنا دیا ہے اور ان دانش گاہوں میں جہاں یہ اپنی سیاسی چالاکیوں سے قابض ہیں ادب کو یکسر نکال دیا ہے، اب وہاں نہ ادبی محفلیں سجتی ہیں نہ وہاں سے فارغ ہو کر شعراء اور ادباء نکلتے ہیں۔ اب یہاں جو بھی ادب کی بات کرتا ہے اسے یا تو پاگل سمجھا جاتا ہے یا سماج اور معاشرے کے ترقی کا دشمن۔ اس پر المیہ یہ کہ ہم جس زبان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور جس زبان میں ادب تیار کرتے ہیں وہ زبان ارباب سیاست و حکومت کے عتاب کا شکار بھی ہے۔ ایسے میں جب نہ باہر سے کسی کمک کی امید ہو نہ گھر سے کسی قسم کا مدد مل رہا ہو تو ادب کے سپاہیوں کی شکست یقینی ہے، پھر بھی یہ اس کی سخت جانی ہے وہ آج بھی ڈٹا ہوا ہے اور سماج اور معاشرے کے تئیں اپنے فرائض برابر انجام دے رہا ہے۔

ادب کے حوالے سے یہاں کے مذہبی طبقے نے بھی جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ میں ایک سیاہ باب بن کر ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ حالانکہ اسلام نے ادب کو جو مقام دیا ہے وہ شاید ہی کسی دوسرے دین میں دیا گیا ہو۔ آقائے کائنات تاجدار انبیاء ﷺ کی موجودگی میں مسجد نبوی کے مبارک سائے میں منبر رسول ﷺ پر اگر کسی کو بیٹھنے اور کچھ کہنے کا شرف حاصل ہوا تھا تو وہ ایک شاعر کو اور وہ بھی اس کی شاعری کے حوالے سے۔ حضرت حسان بن ثابتؓ منبر رسول ﷺ سے آپ ﷺ کی مدحت میں اور کفار کی ہجو میں اشعار پڑھا کرتے تھے اور آقائے کائنات ﷺ اُسے پوری توجہ سے سنتے تھے۔ اس قسم کے روایتوں کے باوجود بھی ہمارے شہر کے موجودہ مذہبی طبقے نے نہ ہمارے شہرکے شعراء کی قدر کی نہ ان کی شاعری کو قابل توجہ سمجھا۔ بلکہ اپنے سرمایہ دار آقاؤں کو خوش کر نے کے لئے الٹا دانستہ اور غیر دانستہ ادب اور صنف ادب کی تحقیر کرنے کی کوشش میں صف اول میں کھڑے ہوگئے اور شعر و ادب کی مجلسوں کو وقت کا زیاں اور لہو لعب سے تعبیر دے کر کار لایعنی باور کرایا۔

آج ادب کے حوالے سے شہر کے حالات اتنے مخدوش ہوچکے ہیں کہ وہ شہر جو کبھی ادب کا گہوراہ اور جنوب کا لکھنو اور علی گڈھ سمجھا جاتا تھا، وہاں ایک معیاری ادبی مجلس منعقد کرنا گویا لوہے کے چنے چبوانے جیسا ہوگیا ہے۔دو ایک ادبی انجمنیں ہیں جو سال بھر میں ایک یا دو معیاری نشستیں منعقد کر لیتی ہیں اور اس کے بعد قرض دار ہو کر سال بھر نشست کے لئے سامان مہیا کرانے والوں سے منہ چھپائے پھرتی ہیں۔ (یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے اسی شہر میں علاقائی زبان سے وابستہ ادباء سہ روزہ پروگرام بڑی شان سے سجاتے ہیں اور جو سرمایہ دار اپنی مادری زبان کی ادبی نشستوں کے لئے مالی امداد دینے میں پس و پیش کرتے ہیں یا صریح انکار کرتے ہیں وہ دل کھول کر اس سہ روزہ پروگرام کے لئے چندہ دیتے ہیں، پتہ نہیں ایسا کر کے وہ اپنے کس جذبے کو تسکین پہنچاتے ہیں۔)

سب سے بڑی لاپروائی عوام کی جانب سے برتی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے اب شعرو ادب کا ذوق سماج سے تقریبا ختم ہوچکا ہے اور پورا معاشرہ مشینی بن چکا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ اردو بولنے والوں کی اس آبادی میں مہینہ یا سال بھر میں اپنی زبان اور اس سے وابستہ ادب کے لئے ایک یا دو گھنٹے بھی نکالنا مشکل ہوچلا ہے تو سمجھئے یہ سماج اور معاشرہ کس حد تک مادیت کا شکار ہوچکا ہے۔(مشاہدہ ہے کہ دو تین گھنٹے چلنے والی ادبی نشستوں میں شروع سے آخر تک بھی گنتی کے لوگ ہی بیٹھتے ہیں اکثر تو خاص کر وہ سرمایہ دار جن کی مالی تعاون سے یہ نشستیں سجتی ہیں، انگلی کٹا کر یعنی دو چار تصویریں کھنچوا کر پانچ دس منٹ کے فورا بعد ایسے بھاگتے ہیں جیسے ان کے لئے کوئی ہوائی جہاز تیار کھڑا ہے اور اگر ایک منٹ کی بھی دیری ہوگئی تو وہ پرواز کرجائے گا اور وہ کروڑوں کے خسارے میں آجائیں گے۔) انگریزی زبان میں تعلیم دلوانے کے جنون میں ہم نے اپنی نسلوں کو نہ انگریزی کا رکھا نہ ان کے مادری زبان کا رکھا۔ اب ایسی نسلوں سے ادب کو لعل و گوہر کے بجائے کچھ چمکتے ہوئے پتھر بھی مل جائیں تو بڑی بات ہوگی۔ سچ پوچھئے تو سرمایہ داروں کی مفاد پرستی، مذہبی طبقے کی ظاہر پرستی اور عوام کی مادہ پرستی کی وجہ سے ہمارا سماج ادب کے حوالے سے بانجھ ہو چکا ہے۔

آخر میں شہر کے ان اصحاب دانش اور سرمایہ داروں سے ایک استدعا ہے کہ اپنے شہر کے دانش گاہوں میں جس پر وہ دہائیوں سے قابض ہیں کم از کم ادب کا ایک مقبرہ یا میوزیم ضرور تعمیر کردیں تاکہ سند رہے کہ یہاں بھی کبھی ادب زندہ تھا اور اس شہر میں اور یہاں کے دانش گاہوں میں بھی ادباء اور شعرا ء کی قدر دانی ہوا کرتی تھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے