Ticker

6/recent/ticker-posts

تحقیق نہیں آساں۔۔۔! تحقیق کے حوالے سے دلچسپ مضمون

تحقیق نہیں آساں۔۔۔! تحقیق کے حوالے سے دلچسپ مضمون



تحقیق نہیں آساں۔۔۔۔!

حمیرا عالیہ۔

پی ایچ ڈی کا نام تو سنا ہوگا؟

جی وہی دور کے سہانے والے ڈھول۔بقول والدہ محترمہ آج کل کی جنریشن کو چڑھنے والا نیا بخار۔تادم تحریر اس کا علاج دریافت نہیں ہوا۔

لیکن انہی بیماروں بیچاروں بے قراروں کی وجہ سے یونی ورسٹیز چل رہی ہیں۔ساتھ میں اور بہت سے لوگوں کو چلارہی ہیں۔

لمبی فہرست ہے۔
پروفیسرز۔۔۔ڈاکٹرز۔۔۔اسسٹنٹ۔۔۔گیسٹ۔۔۔کانٹریکچوئل۔ جن کے چولہے ان اسکالرز کے طفیل جل رہے ہیں۔ روٹیاں بھی سینکی جارہی ہیں۔

تو آج کے مضمون میں ان عظیم لوگوں کی اقسام پر روشنی ڈالی جائے گی جنہیں عرف عام میں اسکالرز کہتے ہیں۔

جونئیر اسکالرز

یہ ایک ہونق سی قوم ہوتی ہے جو نئے داخلے کے ذریعے ریسرچ کے شعبے میں قدم رکھتی ہے۔ اس قوم سے تعلق رکھنے والے افراد خود کو نہایت مسکین تصور کرتے ہوئے اپنے تمام سینیرز کو "سر" کہتے ہیں خواہ وہ ان سے ایک سال ہی سینیر کیوں نہ ہو۔ جبکہ اس قبیل کی لڑکیاں خود کو سحرالبیان کی پندرہ سالہ ہیروئین تصور کرتے ہوئے اپنے علاوہ ہر اسکالر کو "اپی" کہنے کا تہیہ کیے ہوتی ہیں۔

جونئیر اسکالرز کو پتہ کچھ نہیں ہوتا لیکن داخلہ ملنے کے ساتھ ہی وہ خود کو ڈاکٹر تصور کرنے لگتےہیں۔ ان کی چال میں ایک بانکپن جبکہ مسکراہٹ میں ایک انداز پیدا ہوجاتا ہے۔

یہ اپنے ممکنہ موضوع کو لے کر نہایت پرجوش ہوتے ہیں اور تحقیق کے میدان میں نئے تیر، تلوار اور نیزے مارنے کے دعوے کرتے ہیں۔شروع شروع میں یہ امیج بنانے کی خاطر پابندی سے شعبے میں حاضر ہوتے ہیں اور کوئی نہ کوئی رسالہ یا کتاب اٹھا کر خود کو مطالعے میں مصروف ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن کتابوں رسالوں سے ان کا یہ علم کا سودا عارضی ہوتا ہے اور تحقیق کا موضوع الاٹ ہوتے ہی وہ اپنے ماضی کو مکمل فراموش کردیتے ہیں۔ وہیں کچھ بدر منیریں نہایت جوش و خروش سے لیپ ٹاپ لے کر آتی ہیں اور اسکرین پر خواہ مخواہ ہی کچھ کرتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔

فیلوشپ اسکالرز

یہ وہ خوش نصیب محنتی اسکالر ہوتے ہیں جنہیں حکومت سے ماہانہ تیس پینتیس ہزار روپیے بغرض تحقیق ملتے ہیں۔

یہ اسکالر بڑے ٹشن میں رہتے ہیں۔ اچھے کپڑے اور برانڈڈ بیگ لے کر آتے ہیں اور بہانے بہانے سے ان کی قیمت بھی بتاتے ہیں لیکن ساتھ ہی بلا کی انکساری ظاہر کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ وقتا فوقتا اپنی دریادلی کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپنے ساتھ والوں کو چائے بھی پلاتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار کھانا بھی کھلا دیتے ہیں۔

بیشتر فیلوشپ اسکالر اپنے وظیفے سے تحقیق کے علاوہ دیگر تمام کام کرلیتے ہیں۔ جن میں گھومنا پھرنا، ایک دفعہ ہوائی جہاز کا سفر جس میں جہاز کے پر کی تصویر بھی شامل ہے، فلمیں دیکھنا، مہنگے موبائل اور لیپ ٹاپ خریدنا(جس میں ان پیج ہوتا ہی نہیں) گھر کی از سر نو تعمیر اور ایک آدھ بہن کی شادی نمٹانا جیسے فرائض بھی شامل ہوتے ہیں۔کچھ نیک خواتین انہی پیسوں سے عمرے کی ادائیگی بھی کرآتی ہیں۔ اللہ قبول فرمائے۔

ملنگ اسکالرز

یہ وہ قابل تعریف قوم ہے جو اپنے خرچ پر تحقیق کا بیڑا اٹھاتی ہے اور ریسرچ کے پانچ چھ برسوں تک ثابت قدمی سے ڈٹی رہتی ہے۔ چونکہ انہیں کوئی وظیفہ نہیں ملتا لہذا ان کی عیاشی کی قسم الگ ہوتی ہے۔ یہ اسکالرز بدرنگ کپڑے پہن کر خود کو لاپروا اور محنتی ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ شعبے کے ہر کام میں یہ پیش پیش رہتے ہیں۔ دوتین سال کے بعد ان کے اندر لیڈرانہ روح سما جاتی ہے اور یہ کسی نہ کسی گروپ کا حصہ بن کر نیتاگری کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ملنگ اسکالرز خواہ مخواہ ہی ہرکسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ایک پرانے وضع کا بیگ ان کی پہچان ہوتا ہے۔

حالات کی سختی سہتے ہوئے ان کے چہرے کی معصومیت آہستہ آہستہ غائب ہونے لگتی ہے اور کرختگی غالب آنے لگتی ہے۔

سینیر اسکالر

یہ کسی بھی یونیورسٹی کی سب سے جڑیل اور قدیم اقوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ تحقیق کے دو برسوں کے بعد جب ایک دفعہ یہ سینیر ہوجاتے ہیں تو تادم آخر سینیر ہی رہتے ہیں۔ ان کی سینیارٹی کا عرصہ نامعلوم ہوتا ہے۔ سینیرز کے اندر اپنے جونیرز کو مفت مشورے دینے کا کیڑا اکثر کلبلاتا ہے۔ یہ نہایت قابل رحم ہوتے ہیں۔ ان کے سر کے بال آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوتے چندیا سے خالی ہونے لگتے ہیں۔ جبکہ خواتین کی گھنی زلفیں اختتام تک پہنچتے پہنچتے چھپکلی نما شئے میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ چہرے پر بشاشت کی جگہ بے رونقی چھائی ہوتی ہے اور یہ اپنے مستقبل کو لے کر کافی ناامید سے پائے جاتے ہیں۔

سینیر اسکالر کے سروں پر ان کا مقالہ تلوار کی مانند لٹکتا رہتا ہے۔ پانچ برسوں کی خواری کے بعد ان کا دل پڑھنے لکھنے سے اچاٹ ہوچکا ہوتا ہے۔ گنج پن کی وجہ سے شادی میں بھی رکاوٹیں آرہی ہوتی ہیں۔ لہذا مقالہ لکھنے کی طرف ان کا دل مائل ہی نہیں ہوتا۔ بعض سینیرز ایسے بھی ملے جنہیں اپنی تحقیق کا موضوع ہی یاد نہیں رہتا۔ مقالے کی سبمشن کا سنتے ہی یہ دانت پیسنے لگتے ہیں اور اس ہستی یا موضوع کی شان میں ناقابل بیان الفاظ کا استعمال کرنے لگتے ہیں جس پر انہیں مقالہ لکھنا ہوتا ہے۔

سینیرز کا اپنے سپروائزر سے بھی منفرد رشتہ ہوتا ہے۔ یہ اپنے نگراں کو اپنی خواری و تباہی و بربادی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اکثروبیشتر خونخوار نگاہوں سے گھورتے پائے جاتے ہیں۔ جبکہ وہی نگراں اگر انہیں گھر کی سبزی لانے کہہ دے تو یہ فراعنہ مصر کے غلاموں کی مانند جی حضوری میں گردن ہلاتے ہوئے فورا بازار نکل پڑتے ہیں۔

حقیقی اسکالرز

ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ یہ خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔یہ وہ اسکالر ہیں جو ذوق و شوق سے تحقیق کی ابتدا کرتے ہیں اور آخر تک اس شوق کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہ خاموشی سے اپنا کام کررہے ہوتے ہیں اور اگر کوئی استفسار کرے تو قہقہہ لگا کرکہتے ہیں "اماں ابھی تو شروع بھی نہیں کیا" جبکہ درحقیقت ان کے چار چیپٹر مکمل ہوچکے ہوتے ہیں۔

اسکالرز کی یہ قبیل ذہین و فطین اور پراعتماد ہوتی ہے۔ یہ اپنی صلاحیتوں کا زیادہ اظہار نہیں کرتے۔ دوسروں سے کم گھلتے ملتے ہیں اور یونیورسٹی کے تماشوں سے دور رہتے ہیں۔ دیگر اسکالرز انہیں کینہ توز نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور مغرور، پہنچے ہوئے اور گھنّا جیسے ناموں سے بلاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقی اسکالرز نہایت باصلاحیت ہوتے ہیں لیکن اپنی انہی صلاحیتوں کی بنا پر وہ اپنے نگراں کو بھی کھٹک رہے ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے اور نگراں کے تعلقات میں ہمیشہ کشیدگی برقرار رہتی ہے۔

نقلی اسکالرز

تحقیق کے شعبے میں سب سے زیادہ تعداد ان نقلی اسکالرز کی ہوتی ہے۔ یہ اسکالر اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر داخلہ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کو تحقیق سے کوئی غرض نہیں ہوتی محض ڈگری کا حصول مقصد ہوتا ہے۔ انہیں مقالے کے موضوع یا ابواب بندی کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ پیسے دے کر یا سینیارٹی کا رعب جھاڑ کر یہ مضمون بھی لکھوا لیتے ہیں اور مقالہ بھی۔ خواتین رعب کی جگہ خوشامد سے کام لیتی ہیں۔ بہتیری جگہوں پر صنف نازک کو بغیر کہے ہی یہ مراعتیں حاصل ہوجاتی ہیں۔

نقلی اسکالرز اگر اردو کا ہو تو اسے تلفظ یا املا سے کوئی واقفیت نہیں ہوتی۔ یہ "کتابچے" کو "کتّا بچہ" اور "عقدہ لاینحل" کو "عقدہ لائی خل" کہتے ہیں۔ "خودی" ان کے نزدیک "کھدی" ہوتی ہے جبکہ "غالب" کو "گالب" کہہ کہہ کر یہ دن رات ان کی روح کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اس سے بہتر تو اسد ہی تھا جس میں تلفظ کا مسئلہ تو نہ تھا۔ یہ بیچارے "غضنفر" کو "غظنفر" اور "ظفر" کو "ضفر" لکھ کر بھی مطمئن رہتے ہیں۔ "نشاۃ ثانیہ" ان کے لئے "نشاط سانیا" ہوتی ہے جبکہ حلقہ ارباب ذوق کو یہ "ہلقا عرباب زوق" لکھ کر فخر کرتے ہیں۔ انہیں خصوصا الف اور ہمزہ میں فرق کرنا دشوار ہوتا ہے۔ جبکہ س ث اور ص ان کے لیے ایک ہی بات ہے۔

ہرچند کہ مذکورہ تمام اقسام کے نمونے ہر یونیورسٹی میں پائے جاتے ہیں لیکن اگر آپ کسی اسکالر کو یہ مضمون پڑھتے ہوئے دیکھیں گے تو یقینا وہ ان تمام اقسام سے یکسر انکار کرتے ہوئے خود کو نہایت معصوم اور انجان ظاہر کرے گا۔ اسکالرز کی یہ بھی ایک قسم ہوتی ہے شاید جو ہربات کا علم ہوتے ہوئے بھی تجاہل طفلانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں "اچھا ایسا بھی ہوتا ہے۔ مجھے تو نہیں معلوم!"

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے