Ticker

6/recent/ticker-posts

ضرورت ہے عزم، حکمت اور منصوبہ بندی کی

ضرورت ہے عزم، حکمت اور منصوبہ بندی کی!

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ


محمد قمرالزماں ندوی


مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی رح مولانا انور شاہ کشمیری رح کے ارشد اور مخصوص تلامذہ میں سے تھے۔ اعلیٰ ترین علمی استعداد کے مالک و حامل اور غایت درجہ ذہین و فطین تھے۔ آپ سیوہارہ ضلع بجنور کے رہنے والے تھے، دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد وہیں استاد متعین ہوئے اور دار العلوم میں مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھائیں، کچھ عرصہ دار العلوم کے ذمہ داروں کے اشارہ اور ایماء پر دیگر مدارس میں بھی درس و تدریس کے لئے گئے۔ جامعہ اسلامیہ ڈھابیل میں بھی مسند درس بچھایا۔

اللہ تعالٰی نے تدریس کے ساتھ تالیف و تصنیف کا ملکہ بھی خوب عطا کیا تھا، بقول مولانا علی میاں ندوی رح علمی ذوق و اشتغال کا سیاسی مصروفیات اور ان کے تقاضوں کے ساتھ جمع کرنا بڑا دشوار اور ہمت آزما کام ہے، اور تھوڑے ہی لوگ اس پر قادر ہوتے ہیں، آپ متعدد اعلیٰ اور وقیع کتابوں کے مصنف بھی تھے آپ کی شہرئہ آفاق کتابوں میں قصص القرآن چار جلدیں اور اسلام کا اقتصادی نظام ہے، جن کو کافی قبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔

ندوة المصنفین کے اہم معماروں اور کارپردازوں میں سے تھے۔ جمعیت علماء ہند اور کانگریس کے صف اول کے لیڈرروں میں تھے۔ دار العلوم دیوبند کے شوریٰ کے ممبر اور اس کے کاموں میں دخیل تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بھی کورٹ ممبر تھے۔ پارلیمنٹ کے بے لوث اور نڈر قائد اور ممبر تھے۔ فرقہ پرست لوگ بھی ان کا لوہا مانتے تھے، اور ان کی حق گوئی اور بے باکی کا اعتراف کرتے تھے۔ ہندوستانی حکومت بھی انہیں مانتی تھی اور ان کے مشوروں اور آراء کو اہمیت دیتی تھی۔ سادگی، زہد و قناعت کا حال یہ تھا کہ ایوان زیریں کے کئ سال رکن( ممبر پارلیمنٹ ) رہنے کے بعد بھی ان کا اپنا ذاتی مکان نہ تھا، جو جائداد اور وراثت سیوہارہ میں تھی تقریبا فروخت ہوچکی تھی اور گھر بوسیدہ بلکہ ویران ہوچکا تھا۔ دہلی میں کرایہ کے ایک مکان میں رہتے تھے، بعد میں بعض اہل خیر نے اس مکان کو خرید کر ان کے اکلوتے بیٹے کے لئے رجسٹرڈ کرادیا تھا، جو کسٹوڈین کی ملکیت تھی۔

مولانا مرحوم آزادئی ہند کے عظیم سورماؤں میں سے ایک تھے، ملک کی آزادی کی خاطر متعدد بار سنت یوسفی بھی ادا کی اور جیل کے سلاخوں میں رہ کر بھی حصول آزادی کا جذبہ اور شوق و حرارت کمزور نہ ہوئی۔

مولانا علی میاں ندوی رح مولانا سیو ہاروی کی جنگ آزادی میں کردار اور نمایاں کارنامے اور ان کی سادگی اور بے لوثی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

جہاں تک دوسرے وصف جنگ آزادی کے سلسلہ کی قربانیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کی قیمت وصول نہ کرنے اور اپنے اثرات و تعلقات سے فائدہ نہ اٹھانے کا تعلق ہے اس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح اور ایک دو حضرات کو مستثنی کرکے مشکل سے ان کا کوئی سہیم و شریک ہوگا۔ (پرانے چراغ جلد سوم صفحہ ۹۴)

مولانا مرحوم کی زندگی سے آج کے نئ نسل کے علماء کو بہت کچھ سیکھنا چاہیے، اور ان کی خوبیوں اور اعلیٰ صفات و کردار کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے۔

غرض مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی رح کی شخصیت ایک جامع اور موثر شخصیت تھی۔ آج کے دور میں مولانا رح جیسی شخصیت خال خال ہی مل سکتی ہے۔ اللہ تعالٰی نے جرآت و ہمت اور شجاعت و بے باکی کی صفت سے بھر پور نوازا تھا، حق اور سچ بات پوری جرآت اور ہمت کے ساتھ کہتے تھے، بلکہ اس کے لئے گرجتے اور برستے بھی تھے اور *ولا یخافون لو مة لائم* کی سچی تصویر تھے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں، اقلیتوں کے مسائل کو پوری طاقت اور ہمت کے ساتھ اٹھاتے تھے، اور ببانگ دہل اور للکار کر کہتے تھے یہ ملک جس طرح اکثریت کا ہے اسی طرح اقلیت کا بھی۔

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہی ں رو باہی


ایک موقع پر جب کے ملک کے حالات انتہائی کشیدہ تھے اور ہندو مسلم منافرت کا ماحول گرم تھا، بھرے مجمع میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :

جو حالات ہمارے سامنے ہیں کہ انسان خود انسان کا پیاسا ہے، ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ان کو کن الفاظ سے تعبیر کریں۔ وحشت اور درندگی کا لفظ بھی کافی نہیں ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ وحشت و درندگی اس حالت سے شرم کر رہی ہے، شیر اور بھیڑیئے جو سب سے زیادہ وحشت ناک درندے مانے جاتے ہیں وہ دوسرے جانوروں کا خون چوس کر درندگی کا پیاس بجھاتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو وہ کبھی نہیں پھاڑھآتے۔۔۔۔

یہ حضرت انسان ہیں کہ خود اپنے ہم جنس بچوں اور عورتوں اور کمزور انسانوں کو ذبح کرتے ہوئے نہیں شرماتے، عوام کی وحشت اور درندگی کا علاج حکومت کا فرض ہے لیکن اس کا کیا علاج جب معالج خود اور امن کے ذمہ دار وحشت زدہ ہوجائیں۔ ہندوستان ہمارا وطن ہے، یہ ہماری روایات کا مخزن اور ہماری تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے، اس کی در و دیوار پر ہماری ہزار سالہ تاریخ کے نشانات کندہ ہیں، اگر پنڈت جواہر لال نہرو کو یہاں رہنے کا حق حاصل ہے تو کوئ وجہ نہیں کہ انہیں جیسا ہمارا حق بھی اس سر زمین پر نہ ہو۔ ھم اس ملک میں رہنے والے مسلمانان، اس لئے نہیں ہیں کہ کسی کی چاپلوسی کریں یا یہ سمجھیں کہ اس سے ہندو خوش ہوگا یا پنڈت نہرو خوش ہوں گے۔ اگر مسلم زعماء (مسلم لیڈروں) کے دل میں ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال گزرے تو میں کہوں گا کہ اس سے بڑی بزدلی اور نفاق نہیں ہو سکتا، ،۔

یہ ملک جس طرح اکثریت کا ہے اسی طرح اقلیت کا بھی
 (ماخوذ بیس بڑے مسلمان بحوالہ پرانے چراغ صفحہ ۱۵۱)

لیکن افسوس کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی صحیح، بہتر اور موثر قیادت کے لئے مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی رح جیسے قائد نہیں مل رہے ہیں، جو مسلمانوں کو تشویش، پست ہمتی اور کم حوصلگی سے نکال سکے اور ان کے ایمان و یقین اور فکر و نظر مضبوط کرسکے نیز ان کے عزم و ہمت اور حوصلہ کو مہمیز لگا سکے۔ اور جو یہ حقیقت واضح کرسکے کہ کفر کی نفسیات اور شیوہ و وطیرہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ خوف و ہراس اور دہشت میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ایمان والوں کا حوصلہ ٹوٹ جائے ان کی ہمتیں پست ہوجائیں وہ نربھس ہو جائیں۔ یہ ایک شیطانی چال ہے۔ اس لئے ایسی چالوں سے اور ایسے حربوں سے ہمیں گھبرانا نہیں ہے بلکہ ہمت اور حوصلہ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور جمہوری راستے سے اور یہاں کے آئین کے دائرے اپنے حقوق نہ صرف مطالبہ کرنا چاہیے، بلکہ متحد ہوکر اس کو حاصل کرنا چاہئے۔ یہ جمہوری ملک ہے اس ملک کو آزادی دلانے میں ہمارے اسلاف نے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ اپنی جانیں قربان کی ہیں تب یہ ملک آزاد ہوا ہے۔ اس ملک کی تقدیر سنوارنے میں اس کے بنانے اور سجانے میں اس کے نوک و پلک درست کرنے اس کی آبیاری اور حنا بندی میں ہمارے جو احسانات ہیں وہ کوئی بھی باضمیر اور زندہ دل انسان فراموش نہیں کرسکتا۔ ہم نے اس ملک کی بہترین خدمت کی ہے۔ ہم اس ملک میں چور اور لٹیرے کی طرح نہیں آئے، بلکہ ہم نے اس سرزمین کو اپنا وطن بنایا، اس ملک میں انسانیت و محبت اور مساوات کا سبق سکھایا۔ مذھبی رواداری کا اعلیٰ نمونہ اور اونچی مثال پیش کی، اس ملک کو خوش حال بنایا۔ اس ملک کے جغرافیائی حدود کو وسیع کیا اور اتنی وسعت دی، جو پہلے کبھی اس ملک کو حاصل نہیں تھی۔ صحیح یہ ہے کہ اس ملک کی وسعت و اتحاد مسلمانوں کی دین اور احسان ہے۔ ہم نے اس ملک کو فلک نما عمارتیں دیں جو آج لوگوں کی سیر و تفریح کا ذریعہ ہیں اور حکومت کی آمدنی کا بہترین مد اور ذریعہ ہیں۔ اس ملک کو ہم نے کیا نہیں دیا تہذیب دی معاشرت دی کلچر دیا خوشحالی دی وقار و اعتبار دیا، اس ملک کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کے نقوش محبت ثبت ہیں چاہے دہلی کا لال قلعہ ہو یا آگرہ کا تاج محل۔ دہلی کا قطب مینار یا حیدر آباد کا چار مینار اور قلعہ گولکنڈہ یا پھر ہندوستان کے ایک کنارے سے دوسے کنارہ احاطہ کرنے والی وہ شاہراہ جسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کیا تھا۔

اس ملک میں ہمیں مکمل حق اور آزادی ہے کہ ہم جمہوری حقوق کے ساتھ شان اور خود داری کے ساتھ جئیں۔ ہم اس ملک میں لقمئہ تر، کی طرح نہیں ہیں جن کو نگل لیا جائے۔ ہمارا امتحان اور ہماری آزمائشیں ہوتی رہتی ہیں ہمارے اوپر حالات آتے ہیں لیکن ہم ہمیشہ سرخ رو ہوتے ہیں۔

اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کے وہ حالات سے کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ مایوس اور بددل نہ ہوں۔ بلکہ مخالف حالات میں اپنی قوت عمل میں اضافہ کریں۔ بحیثیت امت مسلمہ اپنی دعوتی ذمہ داریاں سمجھیں۔ مانوتا اور انسانیت کے لئے کام کریں۔ جمہوری دائرے میں رہ کر اپنے حقوق کو حاصل کریں مختلف شعبوں میں آگے بڑھیں آگے بڑھنے کے لئے منصوبہ بندی کریں اور حکمت و استقامت دونوں سے کام لیں۔

یہ وقت مغلوں سے رشتہ توڑنے اور بے تعلق ہونے کا نہیں، مغلوں سے مسلمانوں کا اور ہندوستانیوں کا رشتہ اٹوٹ ہے، یہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے، مغلوں اور دیگر مسلم بادشاہوں کی تاریخ ہمیں پڑھنی چاہیے، انہوں نے مذہبی رواداری کی جو مثال قائم کی وہ دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی، انہوں نے ہندو و مسلم ایکتا کو، انسانیت اور مانوتا کو فروغ دیا، بھائی چارہ اور اخوت کا وہ نمونہ پیش کیا کہ اس کی تاریخ ہمیں دوسری جگہ کم ملتی ہے۔ جو لوگ ان کے کردار کو مشکوک کرتے ہیں اور ان سے اپنے رشتے کی نفی کرتے ہیں وہ خود مشکوک ہیں، مفاد پرستی اور مطلب پرستی کے لیے وہ کہیں بھی اور کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں، خدا انہیں صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور ہمیں حکمت و حوصلہ دے آمین

ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے