Ticker

6/recent/ticker-posts

ناکام ہے وہ شخص، جس کی اپنی کوئی فکر اور مقصد نہ ہو

کامیاب زندگی کے رہنما اصول ترقی اور کامیابی کا راز


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

تفکر، تدبر غور و فکر اور کسی کام اور عمل کے انجام پر نظر اور اس کے نتیجہ سے ممکن حد تک واقفیت، یہ دولت اور صلاحیت کسی انسان کو حاصل ہوجائے تو وہ کامیاب انسان ہے، اور اس کا شمار دانا اور بینا لوگوں میں ہوتا ہے۔

لیکن جو لوگ اس دولت سے محروم ہوتے ہیں، جن کی اپنی کوئی فکر اور سوچ نہیں ہوتی وہ کسی معاملہ کی تہہ اور گہرائی تک نہیں جاتے، ایسے لوگ خواہ وہ عالم حافظ مولوی، مولانا، ماسٹر اور انجیئیر ہی کیوں نہ ہوں، تو ان لوگوں کو ناخواندہ اور کم خواندہ لوگ بھی اپنے آگے پیچھے گھماتے رہتے ہیں، اپنا مقلد بنا لیتے ہیں اور اپنی سوچ اور رائے کے قائل کرلیتے ہیں، لیکن یہ پڑھے لکھے لوگ ان ناخواندہ لوگوں کو، غلط روش اور طرز سے نہیں روک سکتے، ان کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کے قائل نہیں کرسکتے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ انسان علم اور صلاحیت کے باوجود کسی بے راہ کو درست راستہ نہ بتا سکے، اس کی فکر بھی نہ کرے، اس کی زندگی کو شریعت کے مطابق نہ لاسکے اور بے راہ و بے عمل انسان کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوجائے۔


کامیاب زندگی گزارنے کا طریقہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و خرد سے نوازا، خیر و شر کی تمیز عطا کی، نفع و نقصان میں فرق و امتیاز کی صلاحیت سے بہرہ ور کیا اور فہم و فراست کی دولت سے مالا مال کیا، انسان کی ذمہ داری ہے، کہ وہ اس انعام اور دولت کا صحیح استعمال کرے، اپنے نفع و نقصان کو سمجھے اور پرکھے، عقل و شعور سے فائدہ اٹھائے، اس کا صحیح استعمال کرے، اپنی زندگی کا صحیح رخ متعین کرے اور کسی معاملہ میں اس کے انجام تک پہنچنے کی کوشش کرے، نیز اپنی کوئی فکر اور سوچ رکھے، یہ نہیں کہ فلاں جو کرے گا ہم بھی وہی کریں گے، ایسے لوگوں کا سماج میں کوئی وزن اور وقار نہیں ہوتا، عربی زبان میں اور حدیث کے الفاظ میں ایسے لوگوں کو امعہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔


کامیاب زندگی کا راز

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : تم امعہ نہ بنو کہ کہنے لگو کہ لوگ نیکی اور بھلائی کریں گے تو ہم بھی کریں گے اور بھلائی کی روش اختیار کریں گے اور اگر لوگ ظلم کریں گے تو ہم بھی کریں گے بلکہ اپنے دل کو ٹکا دو، اگر لوگ نیکی کریں تو تم پر لازم ہے کہ نیکی کرو اور اگر وہ برائی کریں تب بھی تم ظلم نہ کرو۔ ترمذی....

امعہ عربی زبان میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی رائے اور اصول پر قائم نہ رہے

امعہ عربی زبان میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی رائے اور اصول پر قائم نہ رہے بلکہ عقل اور فکر و نظر میں دوسروں کا تابع ہوکر رہے۔ وہ ہر چیز میں کسی دوسرے کا تابع اور مقلد بن کر رہے خواہ سامنے والے کی رائے و سوچ شریعت کی نظر میں غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ تعالی نے جو عقل سلیم اور فہم عمیق کی دولت اور نعمت عطا کی ہے اس کا وہ استعمال نہ کرے۔ شریعت میں اس طرز عمل کی گنجائش نہیں ہے کہ ہمارا ہر فیصلہ دوسروں کے تابع ہو۔ ہم ہر چیز کو دوسروں کی فکر اور نظر ہی سے سمجھیں اور اللہ تعالٰی نے فہم و ادراک اور بصیرت و بصارت کی جو عظیم نعمت سے ہمیں خود بھی مالا مال کیا ہے اس کو استعمال نہ کریں اور اسے پس پشت ڈال دیں۔

آج ہم فکری اعتبار سے مفلوج اور ناکارہ ہو گئے ہیں

آج ہم فکری اعتبار سے مفلوج اور ناکارہ ہو گئے ہیں، ہمارا طرز عمل یہ ہے، کہ ہم امعہ میں گرفتار ہوگئے ہیں، ہم یہ کہنے لگے ہیں کہ لوگوں کا طرز عمل ہمارے ساتھ جیسا ہوگا، وہی طرز عمل ہمارا ان کے ساتھ ہوگا۔ یہ راستہ اور طریقہ ایمان والوں کا نہیں ہے، ایمان والوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی اپنی کوئی رائے، فکر اور سوچا سمجھا طریقہ ہونا چاہیے، جس پر وہ مضبوطی سے کاربند ہوں۔ غلط لوگوں کی غلط کاری ہرگز کسی کے لئے پیروی کے لائق نہیں ہوسکتی۔

آج کتنے ہی برے اور غلط کام لوگ بگڑے ہوئے سماج کے بگڑے ہوئے لوگوں کی اندھی تقلید اور اندھی پیروی میں کرتے ہیں۔ آدمی کو خود ہر ایک کام کے حسن و قبح پر غور و فکر کرکے ایک سنجیدہ فیصلہ کرنا چاہیے اور ایک ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے اور اپنے فیصلے پر استقلال کے ساتھ عمل پیرا ہونا چاہیے۔ غلط لوگوں کی پیروی سے انسان کو بچنا چاہیے، یہی فلاح و کامرانی اور کامیابی کی صحیح راہ ہے۔

انسان اپنی زندگی میں توافق اور وحدت قائم کرے

اس حدیث میں انسان کو کردار سازی کی دعوت دی گئی ہے۔ کردار سازی کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کا اپنی زندگی کے بارے میں ایک سوچا سمجھا سنجیدہ فیصلہ ہو، یہ نہیں کہ اس کا اپنا کوئی موقف ارادہ اور فیصلہ ہی نہ ہو اور بس دوسروں کے پیچھے سرپٹ دوڑنے پر مجبور ہو، دوسرے کے تابع اور غلام ہو، اسے کچھ خبر ہی نہ ہو کہ ہم جن کی حمایت یا تائید کر رہے ہیں وہ لوگ صحیح پر ہیں یا غلط پر۔

ایسا شخص جس کی اپنی کچھ سوچ اور فکر نہ ہو، جو تدبر اور تفکر سے محروم ہو، وہ بے کردار ہے۔ کردار کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی زندگی میں توافق اور وحدت قائم کرے کیونکہ جب تک زندگی میں توافق اور وحدت کی جلوہ گری نہیں ہوگی، سماج و معاشرے میں بھی توافق اور وحدت کی جلوہ گری ممکن نہیں۔ اخلاق و کردار کی تعمیر اور خواہشات و جذبات میں وحدت و توافق پیدا کرنے کے لئے کچھ چیزیں درکار ہیں۔ پہلی چیز یہ کہ زندگی کی کچھ مستقل قدریں مقاصد اور اہداف ہو آدمی کو اس کا علم رہے اور اس پر مضبوطی سے ایمان لائے۔ زندگی کی کوئی بنیادی مقصد اور غرض و غایتی ہو حرص و ہوس عہدہ و منصب کی طمع اور مادی و افادی نقطہ نگاہ سے بلند ہو۔ ایک آخری چیز یہ بھی ہے کہ انسان کا تسلسل حیات پر یقین ہو۔ دائمی حیات کے بغیر دائمی اور مستقل قدروں کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک آدمی اس پر یقین نہ رکھتا ہو کہ اس کے افکار و نظریات اعمال و افعال اس کے مستقبل کو متاثر کرتے ہیں اس وقت تک کسی مستحکم سیرت و کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی، جس معاشرے کے افراد کا منتہائے خیال قریبی اور فوری مفاد کا حصول ہو، ان سے کسی اعلیٰ کردار کی توقع نامکمن اور فضول ہے۔ اوپر جن بنیادی چیزوں کو ذکر کیا گیا اس کا وجود اللہ کے بغیر ممکن نہیں اس لئے کہ کردار و اخلاق کو استحکام اسی وقت میسر ہوسکتا ہے جب کہ یہ دنیا بے خدا نہ ہو۔

محمد قمرالزماں ندوی


انبیاء کرام کا اور خاص طور پر آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے انسانی زندگی کے لئے وہ ساری مطلوبہ چیزیں فراہم کردیں جن کی ضرورت سیرت و کردار اور اعمال و اخلاق کی تعمیر کے لئے پیش آتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم انبیاء کی تعلیمات اور قرآن مجید کی پوری تعلیمات خاص طور پر اصول معاشرت کو اختیار کریں اور خود کو اور اپنے معاشرہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کریں۔ (مستفاد کلام نبوت جلد دوم صفحہ ۲۴۷) 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے