Ticker

6/recent/ticker-posts

آسان تفسیر قرآن : شیخ عائض القرنی ترجمہ و تعلیق - ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی

آسان تفسیر قرآن : شیخ عائض القرنی ترجمہ و تعلیق - ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی


محمد قمر الزماں ندوی

تبصرہ / محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ پرتاپ گڑھ

ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی فعال، بافیض اور باصلاحیت نوجوان عالم دین ہیں، قدیم وجدید علوم پر اچھی نظررکھتے ہیں، درجنوں علمی، فکری اور ادبی کتابوں کے مصنف و مولف ہیں، ماہنامہ ندائے اعتدال علی گڑھ کے مدیر اعلی ہیں، اور مدرستہ العلوم الاسلامیہ کے عمید و منتظم بھی، درس و تدریس بھی ان کا مشغلہ ہے، اور اس میدان میں بھی وہ طاق ہیں، ان سے میرے دوستانہ روابط ہیں، نیز میرے علمی کاموں میں مشیر و معاون بھی ہیں، ان کا حسن ظن ہے کہ انہوں مجھے بھی ماہنامہ ندائے اعتدال علی گڑھ میں شریک ادارت کر رکھا ہے۔

ان کا کمال ہے کہ وہ بیک وقت علمی فکری اصلاحی، سماجی اور سیاسی و عالمی موضوعات پر کھل کر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ان کی تمام تحریروں اور آراء و افکار سے سو فیصد اتفاق تو ممکن نہیں، لیکن بہر حال حالات حاضرہ پر اکثر ان کی تحریریں قیمتی، وقیع اور معیاری ہوتی ہیں، ان کے رشحات قلم ✒ اور نگارشات علمی کا زمانہ اعتراف کر رہا ہے، وہ نوجوان علماء میں اس حیثیت سے نمایاں، ممتاز اور منفرد ہیں کہ اپنے ایک ایک لمحہ کو قیمتی بناتے ہیں اور قیمت غم حیات کو دام دام وصول کرتے ہیں اور بہار 🌱 ہو یا خزاں 🍂🍂🍃 دونوں سے کام لیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن میں کتنے قیمتی باصلاحیت اور ذی استعداد عالم دین حالات کی ستم ظریفی اور مواقع و اسباب نہ ملنے کی وجہ سے راہ سے بے راہ ہوگئے اور اپنا میدان عمل بدل لیا، یا گوشئہ گمنامی میں چلے گئے، اپنوں کی بے رخی، بے اعتنائی اور معاش و معدہ کی پریشانی نے معمولی اور حقیر خدمت پر مجبور کردیا، یا دینی لائن کو خیر آباد کہہ گئے۔

لیکن مبارک باد کے مستحق اور توصیف کے لائق ہیں، طارق ایوبی صاحب کہ ہمت کے اس دھنی نے لاک ڈاؤن کے اوقات کو ضائع ہونے سے بچا لیا اور ایک وقیع علمی خدمت التفسیر المیسر کا ترجمہ آسان تفسیرقرآن کی شکل میں، امت کے سامنے خوبصورت ترجمانی اور تعلیق کے ساتھ پیش کیا، جو مشہور عرب عالم دین ڈاکٹر عائض القرنی کی تفسیر ہے۔

رفیق محترم ایوبی صاحب کے اس اہم اور وقیع کام کا، اور اس میں مشغولیت کا علم مجھے پہلے تھا، وہ اکثر اطلاع دیتے رہتے تھے اور یہ خوشخبری سناتے رہتے تھے کہ جلد ہی، ، آسان تفسیر قرآن، ، چھپ کر آنے والی ہے، رمضان سے پہلے انہوں نے یہ اطلاع دی کہ تفسیر چھپ کر آچکی ہے، اہل علم کی خدمت میں برائے تبصرہ و تاثرات بھیج چکا ہوں، پھر جلد ہی بہت سارے علماء اور اہل علم کے تبصرے کو سوشل میڈیا کے توسط سے پڑھنے کا موقع ملا، سبھوں نے کھل کر ایوبی صاحب کی اس وقیع علمی کام کو سراہا اور اس کو وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیا، ورنہ عام طور پر دیکھا جاتا کہ علمی کاموں میں مشغول لوگوں کی خدمات کے اعتراف میں بخل سے کام لیا جاتا ہے۔

ایوبی صاحب نے اس تفسیری کام کے ذریعہ ابناء ندوہ کے سر کو مزید اونچا کیا ہے، وہ تمام اہل علم کی طرف سے اور خصوصا علماء ندوہ کی طرف سے انتہائی مبارک باد کے مستحق ہیں،۔ میں اپنی طرف سے بھی مولانا ایوبی صاحب کو ان کے اس عظیم کام اور خدمت پر دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ مستقبل میں شبلی و سلیمان اور علی میاں ندوی کی علمی وادبی وراثت کے امین بنیں، اور امت مسلمہ کو ان کے رشحات قلم اور نگارشات علمی سے خوب فائدہ ملے نیز وہ امت کے لیے خضر راہ اور ہادی و رہنما بنیں آمین

طارق بھائی اگر چہ عمر و سال میں ہم سے چھوٹے چھوٹے ہیں لیکن علم و عمل اور استعداد و صلاحیت میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ میں ان کی اس تفیسر پر کچھ لکھوں۔ میں نے وعدہ کرلیا تھا، کہ شوال میں مدرسہ پہنچنے کے بعد ان شاء اللہ کچھ لکھوں گا، مدرسہ پہنچنے کے تین دن بعد ہی تبصرہ کے لیے، ان کا قیمتی ہدیہ موصول ہوگیا، آج فرصت نکال کر تفسیر کو متعدد جگہوں سے پڑھا، مطالعہ کیا تاکہ کچھ تاثرات اور تبصرہ لکھ سکوں اور ایوبی صاحب کے حکم کی تعمیل کرسکوں، اور جو کچھ اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد ذہن میں آیا اس کو ہدئہ قارئین کرتا ہوں۔

قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر عظیم سعادت

یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر عظیم سعادت ہے اور دینی ضرورت بھی، اس ضرورت کی تکمیل اور سعادت کے حصول کے لیے دور نبوی ﷺ ہی سے شوق و سعی کا سلسلہ جاری ہے، جیسے جیسے مسلمان دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں گئے قرآن کریم کا تحفہ اپنے ساتھ لے کر آگئے، پھر ہر علاقہ کےمسلمانوں نے اور بعض جگہ کے غیر مسلموں نے بھی اپنی اپنی مقامی زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے کئے، مشہور حنفی عالم اور فقیہ امام ابو بکر محمد بن احمد سرخسی متوفیٰ ۴۸۳ھج کی صراحت ملتی ہے کہ اہل فارس کے مطالبہ پر صحابی رسول ﷺ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے سورہ فاتحہ کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھااور ایسا کیوں نہ ہو کہ خود صاحب قرآن رسول اللہ ﷺ نے خبر دی کہ یہ وہ کتاب مقدس ہے، جس کے عجائبات ختم نہ ہوں گے، جس سے اہل کبھی سیر نہیں ہوں گے اور بار بار پڑھے جانے پر بھی پرانی نہ ہوگی۔ ترمذی شریف۔

قرآن مجید کےترجمے اور تفسیر کی تاریخ

ہندوستانی زبان میں سندھی / ہندی میں بھی قرآن مجید کےترجمے اور تفسیر کی تاریخ بہت قدیم ہے، کشمیر کے ایک راجہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے ہندوسستانی زبان میں قرآن مجید کی تفسیر کی خواہش کی تھی، چنانچہ ایک عراقی عالم جو ہندوستانی زبان سے واقف تھے، انہوں نے یہ خدمت انجام دی اور قرآن مجید کے مطالب ہندوستانی زبان میں بیان کئے۔ عجائب الھند کے مصنف بزرگ بن شہر یار نے یہ بات تحریر کی ہے، جو دو سو ستر ۲۷۰ ھج مطابق ۸۸۱ء کی تالیف ہے، (بحوالہ مقدمہ علماء ہند کی اہم قرآنی خدمات)

اردو زبان میں قرآن مجید کی تفسیری خدمت کا آغاز

اردو زبان میں قرآن مجید کی تفسیری خدمت کا آغاز دکن حیدر آباد کے علاقہ سے ہوا ہے اور تفسیر کی ابتدائی کتابیں دکنی زبان و اسلوب میں لکھی گئی ہیں، تاہم معیاری اردو زبان کی پہلی تفسیر تفسیر مرادیہ ہے، جو شاہ مراد اللہ سنبھلی انصاری رح کی تالیف ہے اور اس تفسیر کا تاریخی نام خدائی نعمت ہے، جو صرف سورہ فاتحہ اور سورہ عم کی تفسیر پر مشتمل ہے۔ پھر اردو کی پہلی مکمل تفسیر شاہ عبد القادر رح کی موضح قرآن ہے جو، ، تفسیر مرادیہ، ، کے ٹھیک بیس سال بعد کی تصنیف ہے، یہ مختصر تفسیری حواشی ہیں، جو اختصار کے باوجود جامع اور فہم قرآن کے لیے بہت مفید ہیں۔ ترجمے کے اعتبار سے خدمت قرآن مجید میں اردو زبان سب سے زیادہ مالدار اور صاحب ثروت زبان ہے، اسی طرح قرآن مجید کی تفسیر بھی عربی زبان کے بعد جس قدر فارسی زبان میں لکھی گئی ہے، شاید ہی کسی اور زبان میں لکھی گئی ہو۔ یہ تفسیریں مختلف دبستان فقہ اور مکاتب فکر کی ہیں اور عربی تفاسیر ہی کی طرح مختلف مناہج پر لکھی گئی ہیں، مختصر بھی ہیں متوسط بھی اور مفصل بھی ہیں۔

راقم نے ہندوستانی علماء کی اہم قرآنی خدمات کو تفصیل کے ساتھ ماہنامہ ندائے اعتدال میں قسط وار لکھا ہے، جس کی چودہ قسطیں شائع ہوچکی ہیں اور بہت سی قسطیں ابھی باقی ہیں، ان شاء اللہ وہ مضامین کتابی شکل میں بھی شائع ہوں گے۔ جس کا ایک اہم باب ہے، عربی تفاسیر کے اردو تراجم، ہے۔

اس باب اور عنوان پر، التفسیر المیسر، عربی از شیخ عائض القرنی کا تعلیق و ترجمہ ابھی میرے سامنے ہے، اس اہم خدمت کو ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر طارق ایوبی صاحب نے انجام دیا ہے۔

اب ہم اس ترجمہ اور تعلیق سے متعلق گفتگو کرتے ہیں


میری سمجھ سے من جانب اللہ ایوبی صاحب کو یہ توفیق ملی کہ انہوں نے اس مختصر، لیکن وقیع عربی تفسیر کو ترجمہ و تعیلق کے لیے منتخب کیا، اگر احباب مبالغہ محسوس نہ کریں تو میں کہوں کہ یہ انتخاب اور اس مفید اور جامع عربی تفسیر کے ترجمہ اور تعلیق کی توفیق من جانب اللہ ہے، من یرد اللہ بھی خیرا یفقہ فی الدین۔

میں نے تفسیر کا مطالعہ جگہ جگہ سے کیا، شروع ہی میں یہ احساس ہوا کہ ترجمہ اور تعیلق میں اتنی مہارت اور فنی باریکی سے کام لیا ہے کہ اگر اصل مفسر کا نام اور تفسیر کا تذکرہ نہ کیا جائے، تو شاید اکثر قارئین یہی خیال اور تصور کریں گے کہ یہ مستقل تفسیر اور حواشی ہیں۔

یہ توفیق ایزدی ہی کی بات ہے کہ چند مہینے میں ہزار صفحات سے زیادہ ترجمے تعلیق حواشی کے ساتھ ایوبی صاحب نے کرڈالے۔

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

اس تفسیر کی چند خصوصیات یہ ہیں

دیگر فنون اور موضوعات کیساتھ ساتھ ایوبی صاحب کا قرآنی و تفسیری مطالعہ بھی وسیع اور عمیق ہے اس کا اندازہ قارئین اس تفسیر کے مطالعہ سے کر سکتے ہیں۔

تفسیر کی نمایاں خوبی

اس تفسیر کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس تفسیر میں کسی مسلک و مشرب یا نظریے کی ترجمانی کے بجائے خالص دینی اور شرعی نقطۂ نظر کو پیش کیا گیا ہے، فقہی اختلافات، مسلکی مباحث اور محتلف فیہ بحثوں سے پوری طرح اجتناب کیا گیا ہے۔

پوری تفسیر میں تذکیری دعوتی اور اصلاحی رنگ اور پہلو غالب ہے، ساتھ ہی قرآن مجید کے مضامین کی ترتیب، ہم آہنگی اور مضامین کا ربط و نظم اس قدر قائم ہے کہ قارئین کو اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد ایک طرح کا سکون ملتا ہے اور اس کے دل و دماغ کو متاثر کرتا ہے۔ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، تزکیہ و تربیت اور تعمیر انسانیت قرآن کا خاص موضوع ہے، اس کا لحاظ کرتے ہوئے اس تفسیر میں تزکیہ و تربیت اور تعمیر سیرت و کردار کے پہلو پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

مترجم ایوبی صاحب نے ہر سورہ کے آغاز میں اس سورہ کا تعارف کرادیا ہے، جس سے قارئین کو پہلے ہی اس سورہ کا خلاص لب لباب پس منظر اور مرکزی مضمون واضح ہوجائے، تاکہ یہ تعارف انہیں مہمیز لگائے اور وہ پوری یکسوئی کیساتھ مطالعہ میں منہمک ہوجائیں۔

اس کا ایک نمونہ پیش کرتے ہیں۔ سورہ تغابن کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ بھی مدنی سورہ ہے۔ ۱۸آیات پر مشتمل ہے۔ قرآن کی ترتیب میں ۶۴ویں سورہ ہے۔ نزولی ترتیب میں اس سے پہلے تقریباً ۱۰۷ سورتوں کے نازل ہونے کا ذکر ہے۔ اس کا نام علامتی طور پر اس کی آیت نمبر ۹ سے اخذ کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس کا کچھ حصہ مکی ہے اور کچھ مدنی۔ لیکن اکثر مفسرین نے پوری سورہ کو مدنی ہی شمار کیا ہے اور یہی راجح ہے۔ البتہ پوری سورہ کے مطالعہ اور مضامین پر غور کرنے سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہجرت کے بعد قریبی عہد میں نازل ہوئی ہوگی۔ کیونکہ اس میں مکی سورتوں کا رنگ و آہنگ غالب ہے۔ اس سورہ میں ایمان و کفر کی بنیاد پر الگ الگ گروہوں کا ذکر ہے۔ قیامت کا موضوع اٹھایا گیا ہے اور اسے ہار جیت کا اصل دن قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ واضح کردیا گیا ہے کہ فیصلہ صرف اللہ کا چلتا ہے۔ رسول ﷺ کو صرف تبلیغ کی ذمہ داری دے کر بھیجا گیا ہے۔ مال و اولاد کی بنیاد پر ہی عام طور پر انسان ظلم و نفاق میں مبتلا ہوتا ہے۔ انہی کی خاطر وہ خود فراموشی میں مبتلا ہوتا ہے۔

سورہ منافقوں میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ منافقوں کی روش پر چلتے ہوئے تمہارے مال و اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر پائیں۔ اس سورہ میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ مال و اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں، ،۔ تعارف سورہ تغابن۔

عربی تفسیر التفسیر المیسر کی ترجمانی اور تعیلقات

عربی تفسیر التفسیر المیسر کی ترجمانی اور تعیلقات میں ایوبی صاحب نے مولف کی تفسیر کو پوری امانت کے ساتھ اردو کے قالب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، کہیں کہیں پر افہام معانی کی غرض سے بین القوسین ایسے جملوں کا اضافہ کیا ہے جو مولف کی بات کو مزید واضح کردے۔ مترجم ایوبی صاحب نے متعدد آیتوں کے ضمن میں تعلیقات کی ہیں، یہ تعلیقات بہت ہی مرتب، جامع اور اصل روح سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔ جس میں وعظ و تلقین اور ترغیب و ترہیب کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ ان تعلیقات میں موجودہ زمانہ کے فتنوں اور آزمائشوں کی نشاندہی بھی گئی ہے، اور باطل کے اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے بعض جگہ بہت نازک اور حساس مسئلہ کو بہت خوبصورتی کے ساتھ عصری اسلوب میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ہم یہاں ایوبی صاحب کی تعلیقات میں سے ایک دو نمونے پیش کرتے ہیں:

ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشة فی الذیں آمنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا و الآخرة و اللہ یعلم و انتم لا تعلمون، ، سورہ نور آیت ۱۹..۔

اس آیت کے ضمن میں ایوبی صاحب کی تعلیقات ملاحظہ کریں۔

بظاہر اس آیت کا تعلق گزشتہ آیات میں وارد واقعہ ہی سے ہے۔ اور ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے یہ بدترین طوفان برپا کیا تھا۔ جس کے پیچھے ان بدطینت یہودیوں کا ہاتھ تھا جو مسلمانوں کی اخلاقی بالا دستی سے مارے جلن کے مرے جا رہے تھے۔ ان کو مسلمانوں کا پاکیزہ معاشرہ پھوٹی آنکھ نہ بھاتا تھا۔ کیونکہ ان کے معاشرے میں بے حیائی عام ہوچکی تھی،۔ چنانچہ انہوں نے منافقین کے ذریعہ پاکیزہ اہل بیت پر نشانہ لگایا تاکہ مسلم معاشرہ میں بھی بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دیا جاسکے۔ بظاہر آیت کا یہی مفہوم جو سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ جو لوگ اس طرح کی الزام تراشیوں اور جھوٹے واقعات گھڑ کر، مسلم معاشرہ کی عصمت تار تار کرکے بداخلاقی اور بے حیائی عام کرنا چاہتے ہیں وہ بدترین سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن چونکہ الفاظ آیت عام ہیں اس لیے معاشرے میں فحاشی و عریانیت اور بد اخلاقی اور بے حیائی فروغ دینے والے تمام لوگ اور تمام آلات و وسائل پر یہ وعید منطبق ہوتی ہے۔ فلم انڈسٹری، آرٹ اور ثقافت کے نام پر عریانیت پھیلانے والے فحاشی کے اڈے قائم کرنے والے، زنا و بدکاری کی ترغیب دینے والے، نیوم کی فحش بستی بسانے والے، رقص و سرور کی محفل سجانے والے، نائٹ کلب چلانے والے اور کسی ذریعہ سے معاشرے میں اخلاقی انارکی اور بدکاری کو عام کرنے والے قابل لعنت و ملامت اور مستحق سزا ہیں۔ ، ، ط۔ ا۔ تفسیر سورہ نور۔


سورہ نساء کی آیت نمبر تین تعدد ازدواج کے حوالے سے اپنی تعلیق میں لکھتے ہیں :

تیسری بات اس آیت میں متعدد بیویاں رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ الہی اجازت ہے۔ قرآن صراحت کیساتھ اس کا حکم بیان فرما رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کو احکام کے بیان میں کوئی باک نہیں ہے۔ یہ حکم عین فطرت انسانی اور مرد و عورت کی ضروریاتِ جسمانی کے مطابق ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے برصغیر کے سماج میں اس کو اس قدر معیوب سمجھ لیا گیا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب بظاہر دیندار نظر آنے والے لوگ بھی تعدد کے خلاف بولتے ہیں بلکہ تعدد کی خواہش ظاہر کرنے والے کو گری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ حالانکہ اس حکم میں خدا کی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں تاہم مختصراً یہ کہ اگر تعدد ازدواج کا رواج ہو اور اصحابِ استطاعت اسے فروغ دیں تو معاشرے میں عورتوں سے جڑے ہوئے بہت سے مسائل بھی ختم ہوجائیں گے اور مغرب کے فحاشی کو فروغ دینے کی لاتعداد کوششوں کے باوجود مسلم معاشرہ سے حیوانیت و شہوانیت بڑی حد تک ختم ہو جائے گی۔ تعدد پر مثبت گفتگو کو فروغ دینا چاہیے اور تعدد کو معیوب سمجھنے والے کو یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ حکم الہی پر اعتراض کرنے کا بھیانک جرم کر رہا ہے جس پر گرفت کا خطرہ ہے، ط۔ ا۔

ترجمہ و ترجمانی میں ایوبی صاحب اس بات کا خاص خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ زبان آسان اور سہل ہو اس کے لیے انہوں نے یہ معیار سامنے رکھا ہے کہ جو شخص اخبار کی زبان سمجھ لیتا ہو وہ بھی اس کو پڑھ اور سمجھ سکے،۔ اس تفسیر میں ترجمہ تو شامل نہیں ہے البتہ مترجم نے اس ترجمانی میں پوری کوشش کی ہے کہ متن کی ترجمانی ہوجائے۔

اوپر ہم نے اختصار کے پیش نظر صرف دو تعلیقات کا ذکر کیا، ورنہ سینکڑوں تعلیقات اس تفسیر میں ہیں، جو بہت ہی مفید، موثر اور دلکش ہیں، جن میں بہت اختصار، لیکن جامعیت کیساتھ عصری اسلوب میں علم و فن کی آبیاری کی گئی ہے اور تشنہ لب کو شاد کام کیا گیا ہے، ان تعلیقات کا انداز نگارش، اسلوب اور آیات کی تطبیق سے دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایوبی صاحب کی یہ خدمت، ایک مثالی خدمت ہے، یہ کام ان کی زندگی کا حا صل زندگی ہے، ویسے تو قرآن کریم کی کسی طور پر خدمت ذریعہ نجات و مغفرت اور سعادت دارین ہے۔ سب سے خوش بخت اور سعادت مند ہے، وہ انسان، جس کو کلام اللہ کی خدمت کا موقع ملے۔ ہم اس عظیم خدمت پر ایوبی صاحب کو بہت بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ یہ عظیم اور مثالی کام ان کی، ان کے اہل خانہ اور جملہ متعلقین کی نجات کا ذریعہ بنے، نیز ایوبی صاحب کو مزید خدمت قرآن اور خدمتِ دین کا موقع ملے، اللہ تعالیٰ موصوف کو سلامت رکھے، ان کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت بخشے نیز اردو داں طبقے کو اس مثالی تفسیر سے کما حقہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے آمین

ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 9506600725

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے