خطاب جمعہ۔ ۱۰/جون
باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
محمدﷺ سے محبت دین حق کی شرط اول ہے، اگر اس میں خامی اور نقص ہے تو اس شخص کا ایمان نامکمل ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و محبت کو نبی ﷺ کی محبت اور اطاعت و پیروی سے مشروط کردیا ہے، یعنی محبت رسول ﷺ اور اطاعت رسول ﷺ کو اطاعت خدا کے لیے لازم اور ضروری قرار دیا ہے۔
محمد کی اطاعت دین حق کی شرط اول ہے
اگر ہو اس میں خامی تو ایماں نامکمل ہے
اقبال مرحوم نے اسی حقیقت کی ترجمانی یوں کی ہے کہ
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
دوستو بزرگو!
یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان اپنی جان اپنی اولاد، عزیزو اقارب دوست و احباب مال و دولت اور اپنی جائیداد اور اپنی ساری چیزوں سے زیادہ اپنے محبوب آقا محمد ﷺ سے محبت رکھتے ہیں، یہ محبت دینی بھی ہے اور فطری اور طبعی بھی، آقا ﷺ کی خاطر ایک مسلمان دنیا کی بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار رہتا ہے، مسلمان دنیا میں سب کچھ برداشت کرسکتا ہے، لیکن وہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ادنی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اپنی جان مال اولاد اور دنیا کی ہر چیز قربان کرنے کے لیے مومن ہر گھڑی اور ہر آن تیار رہتا ہے۔ نبیﷺ کے سامنے دنیاوی جاہ منصب عزت و عظمت وقار و تمکنت سب کچھ ہیچ ہے۔ آخر محمد ﷺ سے اتنی محبت اور اس قدر جانثاری کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ انسانی کے ایسے زندہ و تابندہ کردار ہیں، جن کی روحانی کرنوں نے انسانیت کو معراج انسانیت سے سرفراز کیا، دم توڑتی اور سسکتی انسانیت کی آپ نے مسیحائی کی، آپ واحد وہ رہنما، ہادی اور قائد ہیں، جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ تاریخ میں باوثوق ذرائع سے محفوظ ہے، آپ کی زندگی دنیا میں تمام لوگوں سے زیادہ پاکیزہ اور صاف ستھری تھی، آپ دنیا میں سب سے زیادہ شریف، کریم، متواضع، خلیق، حلیم، برد بار، متحمل مزاج، شگفتہ مزاج، مہربان، بہادر تھے، آپ غریبوں کا ہمدرد، یتیموں کا سہارا، مظلوموں کا مددگار اور ظالم کو ظلم سے روکنے والے تھے۔ اپنا غم چھپا کر دوسروں کے غم کو دور کرتے تھے،
آپ دشمن پر بھی پھول نچھاور کرتے تھے، گالیاں دینے والے کو بھی معاف کر دیتے تھے، کانٹے بچھانے والے کو بھی آغوش شفقت میں لے لیتے تھے۔
آپ نے غلامی کی روایت کو اپنی تدبیر سے ختم کیا، عورتوں کو ان کا جائز حق دلایا، آپ نے کالے گورے عربی عجمی کا فرق مٹایا، معاشرے کے ہر طبقہ کو ایک نظر سے دیکھا، انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ رحم اور ترس کھانے کا حکم دیا۔
اس لیے آپ دنیا کے سب سے عظیم انسان قرار پائے اور آپ سے محبت کو لازم اور ضروری قرار دیا۔ آپ دنیا کے سب سے عظیم انسان ہیں، آپ کی تعلیمات اور آپ کی ہدایات نے نوجوان کو پاکیزگی عطا کی، ان کے دلوں میں خوف خدا کے جوت جگائی، بے لگام افکار سے ان کو روکا، ، عورت کو عزت و حیا کی چادر دی،۔ آپ کی تعلیمات بوڑھوں کے ضعف کا سہارا ہیں بچوں کی معصوم مسکراہٹ کے تحفظ کا ذریعہ ہیں۔ آپ کی تعلیمات میں یتیموں، بیواوں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق ہیں، اور ایسے قانون ہیں جن کی وجہ سے کوئی بھی ان کے حقوق کی پامالی نہیں کرسکتا۔ آپ کی تعلیمات میں ہر مذہب کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے اور اس کے مذہبی پیشواؤں کی تعظیم کا فرمان موجود ہے۔ یہ وہ احسانات ہیں جن کی بنا پر آپ سے محبت و عقیدت ایمان کا حصہ اور لازمہ ہے۔
دوستو بزرگو!
آئیے ذرا ایک اور زاویے سے محبت رسول ﷺ کی حقیقت کو سمجھاتے ہیں۔
عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ نعتیہ کلام کا ذخیرہ فارسی زبان میں ہے اور پھر اس کے بعد اردو کا نمبر آتا ہے۔ نعتیہ شاعری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کا اظہار شعراء نے الگ الگ انداز اور زاوئے سے کیا ہے اور آپ کی شان عظمت اور مقام رفعت کا اظہار الگ الگ پیرائے سے کیا ہے۔
وہ شعراء جو جام و سبو اور کے عادی اور جام و مینا کے خوگر و رسیا تھے انہوں نے بھی شان اقدس میں انتہائی جذباتی عقیدت کے پھول نچھاور کئے ہیں اور (انھوں نے) نعت رسول مقبول لکھتے وقت اس شئی ناپاک و خبیث سے اپنے کو دور رکھا اور بعض نے تو نعت نبی لکھنے کے بعد ہمیشہ کے لئے اس سے توبہ ہی کرلیا۔
شان نبی میں عقیدت و محبت اور خلوص و جذبات کے پھول نچھاور کرتے ہوئے ایک فارسی شاعر نے یہاں تک کہا کہ
نسبت خود بسگت کردم وبس منفعلم
زانکہ نسبت بسگ کوئے تو شد بے ادبی
حضور! بہت نادم و شرمندہ ہوں کہ آپ کے کتے سے اپنی نسبت کردی، آپ کی تو گلی کے کتے سے بھی اپنے آپ کو نسبت دینا بے ادبی اور گستاخی ہے۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے، تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ بعض مغربی ماحول کے پروردہ نام و نہاد مسلمان ایسے بھی گزرے ہیں اور اب بھی اس فکر و نظر کے لوگ موجود ہیں جو نبوت محمدی اور شان محمدی کے مقام و منصب میں سیندھ لگانے میں نہیں چونکے ہیں اور انہوں نے قومیت عربیہ کا جاہلانہ نعرہ بھی لگایا اور مصر کی قدیم فرعونی تہذیب پر فخر کرنے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا اور پوری زندگی اس کی تبلیغ و ترویج کرتے رہے ایک عربی نزاد صحافی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احمد حسن زیات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وحدت پیدا کی وہ کلی اور عام تھی، اس لئے کہ اس کی بنیاد عقیدہ پر تھی، لیکن عقیدہ چاہے کتنا بھی دیر پا ہو کمزور پڑ جاتا ہے یا مٹ جاتا ہے اور اس کے بالمقابل صلاح الدین ایوبی کی پیدا کردہ وحدت جزئی اور خاص تھی، کیونکہ وہ طاقت اور حکومت کے بل پر قائم تھی اور حکومت و طاقت بہر حال زوال پذیر ہے۔ ہاں ناصر (جمال عبد الناصر مصر کے سابق صدر ) سے جو اتحاد وجود میں آیا باقی رہنے والا اور دم بدم بڑھنے والا ہے اس لئے کہ یہ معاشی اشتراکیت، آزادی رائے اور سیاسی جمہوریت پر قائم ہے۔ اور یہ تینوں عناصر وحدت کی دائمی ضمانت ہے۔
یہ تاثر اور تبصرہ ہے ایک روشن خیال عرب صحافی کا جو مصر کے ایک مشہور اور عمر رسیدہ ادیب و مصنف اور صحافی تھے جس نے اس طرح کی باتیں مجلہ الازھر یکم محرم الحرام ۱۳۸۳ھج کے شمارہ میں اس عنوان کے تحت لکھا تھا ۰۰ أمة التوحید تتوحد۰۰ امت توحید متحد ہوتی ہے۔ ( مستفاد از کتاب مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا )
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی رح نے اپنی کتاب مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ میں اس عربی نزاد صحافی کے اس سوقیانہ اور غیر ذمہ دارانہ تحریر نظریہ اور فکر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا :
ایسے عربوں سے بھلے تو ہمارے ہاں کے باادب رندان بلا نوش ہیں ۔ برصغیر کے شاعر اختر شیرانی مرحوم کا ایک واقعہ شورش کاشمیری مرحوم کی روایت سے متعدد اخباروں میں آیا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کمیونسٹ نوجوان نے جو بلا کے ذہین تھے، ان سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی اس وقت وہ دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے، تمام بدن پر رعشہ طاری تھا، حتی کے الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے۔۔ ادھر ۰۰ انا۰۰ کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے۔ جانے کیا سوال زیر بحث تھا، فرمایا مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جنیس بھی ہیں اور کامل النفس بھی۔ پہلے ابو الفضل دوسرے اسد اللہ خان غالب تیسرے ابو الکلام آزاد۔..... شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہم عصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھا، اسے بھی اپنے سے کم تر خیال کرتے تھے، کیمونسٹ نوجوان نے مختلف شعراء کے بارے میں پوچھتے پوچھتے یہ بھی پوچھ ڈالا کہ حضرت فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں نشہ میں چور تھے زبان پر قابو نہیں تھا چونک کر فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا بکتے ہو ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ادب و انشاء یا شاعری کی بات کرو۔ نوجوان نے افلاطون، ارسطو، سقراط کے بارے میں سوالات کئے اور اناپ شناپ جواب پاتے رہے، لڑکھڑاتی آواز سے فائدہ اٹھا کر ایک ظالم قسم کے کیمونسٹ نے سوال کیا۔ آپ کا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
اللہ اللہ ایک شرابی، جیسے کوئ برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۰۰ بدبخت ایک عاصی (گنہگار ) سے سوال کرتا ہے، ایک سیہ رو سے پوچھتا ہے، ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے ۰۰ ؟
تمام جسم کانپ رہا تھا ایکا ایکی رونا شروع کیا، گھگھی بندھ گئ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے ایسی حالت میں یہ نام کیوں لیا، تمہیں جرآت کیسے ہوئ، گستاخ بے ادب !
باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار
اختر نے اس حال میں اسے اٹھوایا، پھر خود اٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے کہتے تھے کہ یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ میں گنہگار ضرور ہوں، لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں ۔
احترام اور عشق رسول کے واقعات سے تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ اس باب میں صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم تو پوری انسانیت کے لئے نمونہ ہیں۔ یاران نبی تو اس بات کا بھی تصور بھی نہیں کرسکتے تھے جس سے اندیشہ ہو کہ وہ طبع رسول پر گراں گزرے گا اور ایسی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی کسی سے سرزد ہو۔
ایک صحابی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے۔ دسترخوان پر کدو کا سالن لایا گیا تو اس ذوق و شوق کے ساتھ کھانے لگے گویا خوان نعمت آسمان سے ان کے لئے اتارا گیا ہے۔ فرمانے لگے یہ میرے آقا کی محبوب غذا ہے ۔ ان کا ایک صاحبزادہ جو پاس ہی بیٹھا کھانا کھا رہا تھا، بے خیالی میں بول پڑا۔ لیکن مجھے تو پسند نہیں۔ یہ سننا تھا کہ فورا کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ تلوار نکال لائے اور اسے جان سے مارنے کے لیے دوڑے۔ غصہ اس بات پر تھا کہ اسے ایسی بات کہنے کی جرآت کیسے ہوئ ! افراد خاندان نے بیچ بچاو کرکے لڑکے کو بچا لیا۔ لیکن باپ نے عمر بھر اس کی صورت نہیں دیکھی۔ وقت رحلت جب بیٹا شرمسار اور معافی کا خواستگوار ہوکر سامنے آیا تو منھ پھیر لیا اور کہا۔ ایسی اولاد کی صورت دیکھ کر میں اپنے آقا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ عشق کا یہ بھی ایک منفرد انداز ہے۔ ( ماخوذ از ناموس رسول اور قانون توہین رسالت از محمد اسماعیل قریشی)
ان واقعات میں ہم سب کے لئے ایک خاص پیغام ہے کہ ہم اپنی ذات کے اعتبار سے خواہ کتنے ہی خراب گندے عاصی اور گنہگار ہوں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے طبعی اور فطری ہم سب کو محبت اور عقیدت ہونی چاہیے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جو محبوب اور چہیتے تھے یعنی صحابئہ کرام رضی اللہ عنھم ان کی بھی عزت و احترام اور تقدیس ہماری نگاہ میں ہونی چاہیے کیونکہ محبوب کے محبوب سے بھی محبت ضروری ہے تھبی محبت کی تکمیل ہوتی ہے۔
ہماری فکر اور سوچ یہ ہو ہمارا عقیدہ یہ ہو کہ ہم اپنی بے عزتی نقصان اور ہتک برداشت کرسکتے ہیں لیکن شان رسالت مآب میں ادنی گستاخی ہم برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے اس قدر محبت اور تعلق ہونا چاہیئے اور ان سے ایسی عقیدت و محبت ہونی چاہیے کہ ہم ان کے بارے میں ادنی گستاخی اور بے ادبی کو سننا بھی گوارہ نہ کریں ورنہ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
الحمد آج بھی ہم مسلمانوں کی فکر اور سوچ یہی ہے اور ہم یہی سمجھتے ہیں کہ امت محمدیہ اور ملت اسلامیہ کی سربلندی کا راز اس کی عظمت و رفعت شان و شوکت اور اس کا جلال و ہیبت صرف اور صرف اپنے پاک نبی کے ساتھ والہانہ عشق تعلق وارفتگی اور ان کی محبت و عظمت کے ساتھ وابستہ ہے نبی کریم کی ذات اقدس سے والہانہ تعق و محبت مسلمانوں کے ہاتھوں میں وہ شاہ کلید ہے جس کے ہوتے ہوئے دنیا کے ہر قفل کو کھولا جاسکتا ہے اور مشکل امر کو حل کیا کیا جاسکتا ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
0 تبصرے