Ticker

6/recent/ticker-posts

فانی دنیا کی حقیقت | Faani Duniya Ki Haqeeqat

فانی دنیا کی حقیقت


محمد قمرالزماں ندوی

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اس فانی دنیا کی بے ثباتی اور بے وقعتی کو جگہ جگہ بیان کیا ہے۔ سورہ یونس میں اللہ تعالٰی نے دنیا کی حقیقت کو کچھ اس طرح سمجھایا ہے۔ إنما مثل الحیاة الدنيا کماء انزلناہ من السماء فاختلط به نبات الارض مما یاکل الناس و الأنعام حتى إذا أخذت الأرض زخرفھا و ازینت وظن اھلھا انھم قادرون علیھا اتاھا امرنا لیلا او نھارا فجعلنھا حصیدا کان لم تغن بالامس کذلک نفصل الآیات لقوم یتفکرون (یونس آیت : ۲۴)

دنیا کی زندگی دھوکہ

دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے بارش برسائی، اور اس سے زمین کے پودے جس کو انسان اور جانور کھاتے ہیں خوب اگ آئے، یہاں تک کہ جب زمیں لہلہانے لگی، اپنے پھول کھلانے لگی، اور سج دھج گئ، اور زمین والے سمجھنے لگے کہ اب وہ اس سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، تو اچانک ہمارا فیصلہ رات یا دن میں نافذ ہوا، اور ہم نے اس کو بیخ و بن سے یعنی جڑ سے ایسا صاف کیا کہ جیسے کل کچھ تھا ہی نہیں۔ ہم نے اسی طرح ( مثالوں) سے اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ سوچیں اور فکر کریں۔

دنیا کی زندگی سوائے فریب کے کچھ نہیں

دنیاوی زندگی کی بے یقینی اور بے ثباتی کی اس سے زیادہ بڑی کوئی مثال ہو نہیں سکتی کہ اللہ تعالی نے خود اس کی بے ثباتی کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ مفسرین نے اس آیت اور اس مثال کی تفسیر میں بڑی مفید اور نفیس گفتگو کی ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔

آخرت کی کامیابی فکر آخرت میں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی حقیقت سے واقف تھے اور اس کی بے ثباتی اور بے وقعتی سے پوری طرح واقف، آگاہ اور باخبر تھے، اسی لئے آپ نے ہمیشہ فقر کو ہی ترجیح دی دولت سے پرہیز کیا۔ آپ کے گھر ہفتوں فاقہ رہتا اور چولہا نہیں جلتا۔ بھوکے ہوتے تو صبر کرتے اور آسودہ ہوتے تو شکر ادا کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے مال اور دنیا کی شکل میں جو فتنہ ہوسکتا تھا، اس کو بھی بیان فرما دیا۔ لیکن یہ نکتہ بھی ذھن میں رہے کہ آپ کا یہ فقر مجبوری اور محتاجگی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ آپ کا فقر اختیاری تھا۔ آپ کے پاس دولت آتی تھی، لیکن محتاجوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیتے تھے۔

فکر آخرت قرآن و سنت کی روشنی میں

اس دنیا کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان الدنیا حلوة خضرة، و ان اللہ مستخلفکم فیھا فینظر کیف تعملون، فاتقوا الدنیا و اتقوا النساء فان اول فتنة بنی اسرائیل، کانت فی النساء (مسلم شریف )

دنیا کے متعلق احادیث

بیشک دنیا سرسبز و شاداب ہے، اور اللہ تعالی نے اس میں تم کو خلیفہ بنایا ہے۔، تاکہ تم کو دیکھے کہ تم کیا کر رہے ہو، دنیا سے بچو اور عورتوں سے احتیاط برتو، بنی اسرائیل کی سب سے پہلی آزمائش کا سبب عورت ہی بنی۔

دنیا کو آخرت کی کھیتی کیوں کہا گیا ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا کے بارے میں یہ تصور تھا کہ دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں اور جنت اس کے لئے ہے جس کو دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں۔

فکر آخرت واقعات

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کا اصل محور آخرت تھی کیونکہ آخرت آپ کو پسند تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا بھی یہی مزاج بنایا تھا اور اپنی امت کو بھی دنیا کو ضرورت کے بقدر برتنے اور اصل فکر آخرت کی کرنے کی ترغیب دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی زندگی کی مثال بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا : مالی و للدنیا، ما انا فی الدنیا الا کراکب استظل تحت شجرة ثم راح و ترکھا (ترمذی شریف)

دنیا عارضی ہے

مجھے دنیا سے کیا لینا دینا، میں تو دنیا میں اس طرح ہوں جیسے کوئی مسافر کسی درخت کے نیچے کچھ دیر کے لئے سایہ حاصل کرتا ہے اور پھر اس کو چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتا ہے۔

دنیا آخرت کی کھیتی ہے کیا یہ حدیث ہے

اس حدیث میں آپ نے دنیا کی حقیقت کو ایک بہترین مثال سے اس طرح واضح فرما دیا کہ ادنیٰ غور و فکر کرنے والا انسان بھی دنیا کی حقیقت اور حیثیت کو سمجھ لیگا۔

ان تفصیلات سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مال و دولت کمانا، اولاد کے لئے جائز اور حلال روزی کی فکر کرنا اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے ہرگز نہیں اپنے لئے روزی کمانا اولاد کے لئے روزی کی فکر کرنا ان کے لئے دنیاوی ضروریات کا مہیا کرانا یہ بھی عبادت ہے اور اسلام نے جگہ جگہ اس کی تعلیم دی ہے خاص طور پر سورہ جمعہ میں تو جمعہ کی نماز کے بعد رزق کی تلاش میں نکلنے کی تاکید و ترغیب بھی آئی ہے۔

فکر آخرت اور صحابہ کرام

آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو محنت کی کمائی کرنے کا حکم دیتے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تجارت بھی کرتے تھے کاشت بھی کرتے تھے مویشی پالن کا کام بھی کرتے تھے، حکومت و خلافت کی ذمہ داریاں بھی اٹھاتے تھے۔ ان کاموں کے لئے دنیا برتنا اور اسباب دنیا کے لئے تگ و دو کرنا برا نہیں ہے۔

دنیا کی مذمت اور دنیا سے ملوث ہوجانے والوں کی نکیر جب ہے کہ انسان پیدا کرنے والے کی مرضی اور مقصد کو بھلا کر صرف دنیاوی زندگی میں اپنے کو منہمک کرلے۔ اور دنیا کی محبت میں اس طرح ڈوب جائے کہ یاد خدا سے بالکل غافل ہوجائے۔ اور انعام و بخشش کرنے والی ذات یعنی خدا تعالی کا ہی احسان فراموش ہو جائے۔ ورنہ تو یہ دنیا دار الاسباب ہے اور اسباب کی حد تک تو دنیا سب لوگ برتتے ہیں اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے