Ticker

6/recent/ticker-posts

قرآن پرعمل اور اتحاد کی طاقت سےہی ہم حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں : خطاب جمعہ... ۱۷/ جون

خطاب جمعہ......... ۱۷/ جون


قرآن پرعمل اور اتحاد کی طاقت سےہی ہم حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں


محمد قمرالزماں ندوی


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

آبرو قائم تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں تو رسوا ہوا

دوستو بزرگو اور بھائیو!
اس وقت جو موجودہ ملکی حالات ہیں اور مسلمانوں پر جس قدر ظلم و زیارتی ہورہی ہے، بے قصورمسلم نوجوانوں کو جیل میں بند کیا جارہا ہے، بغیر کسی جرم کے مسلمانوں کے مکانات منہدم کیے جارہے ہیں اور معصوم اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے رحیمانہ انداز سے مارا پیٹا جارہا ہے اس کی وجہ سے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر ہے، ان حالات کی وجہ سے عقل و دماغ ایسا لگتا ہے کہ ماوف ہے، کچھ سوچنے اور سمجھنے کی طاقت بالکل نہیں ہے، بہر حال حالات انتہائی سنگین ہیں، مسلمانوں کو ہر طرف سے باطل طاقتیں اپنے یلغار میں لے کر ان کے وجود اور بیخ و بن کو ختم کردینا چاہتی ہیں، ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا سماں ہے، عدالت اور انصاف کے مرکز بے بس ہیں، اب انصاف کا آخری سہارا عدالت اور عدلیہ اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگا چکا ہے، جج و منصف بے دست و پا ہوچکے ہیں، عدالت اور ججوں کے اختیارات تقریبا سلب ہوچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم خدا کی ذات سے ناامید اور مایوس نہیں ہیں، ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ حالات مسلمانوں پر آتے ہیں، آزمائش و امتحان اہل ایمان کا ہی ہوتا ہے اور پھر مسلمان آزمائش کی اس بھٹی سے اور مصیبت کے دلدل سے نکل کر بالکل تازہ دم ہوجاتے ہیں اور پھر نئے سرے سے اپنی ایمانی زندگی کی شروعات کردیتے ہیں۔

اس وقت جو مشکل اور پیچیدہ حالات ہیں، اگر مسلمان اس سے نکلنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کو دو کام کرنے ہوں گے ایک قرآنی تعلیمات سے وابستگی اور اس پر بھرپور اور پائدار و مضبوط عمل اور دوسرے آپسی اتحاد و اتفاق، یہی نسخہ ہے موجودہ حالات سے نکلنے اور نمٹنے کا۔ اگر ہم نےاس نسخہ پر عمل نہیں کیا اور اس فارمولے کو نہیں اپنایا تو ہم کو ذلت و مسکنت کے مزید دن اور مشکل حالات مزید دیکھنے پڑیں گے۔ اس لیے میرے بھائیو دوستو اور بزرگو اس کو سمجھئے اور اس کے لیے تیار ہوجائیے۔

مشہور عالم دین اور عظیم مجاہد آزادی مولانا محمود حسن دیوبندی رح اسیر مالٹا۔ جب مالٹا کی اسیری سے وطن لوٹے تو انہوں ایک خاص خطاب میں امت کو پیغام دیا تھا کہ مالٹا کی اسیری میں جہاں تک میں نے مسلمانوں کی پستی، زوال اور انحطاط پر غور کیا تو اس کی وجہ اور سب یہ معلوم ہوا کے مسلمانوں کو یہ دن اس لیے دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ مسلمان قرآنی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں اور یہ آپس میں دوسری قوموں کے مقابلے میں سب سے زیادہ منتشر و متفرق ہیں، ان میں اتحاد و اتفاق کا سب سے زیادہ فقدان ہے۔

اب ہم نے طے کیا ہے کہ اپنی بقیہ زندگی ان ہی دو کاموں میں صرف کروں گا۔ قرآنی تعلیمات سے مسلمانوں کو جوڑنا اور قریب کرنا اور ان کو باہم متحد و متفق کرنا۔

دوستو بھائیو مولانا مرحوم نے مسلمانوں کے زوال و پستی کا جو سبب معلوم کیا تھا اور اس کا جو حل نکالا اور اس کے لیے جو اقدام کیا، ضرورت ہے کہ اس نسخہ کی روشنی میں ہم مسلمان بھی موجودہ حالات سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کریں اور ملت کو بھنور سے نکالنے کی کوشش کریں۔

دوستو بزرگو اور بھائیو!
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت پورے عالم اسلام اور خاص طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کی ناکامی تنہائی رسوائی اور مغلوبیت و مظلومیت کے دو بنیادی اسباب و وجوہات ہیں، ایک دین سے بے تعلقی، دوسرے آپسی اختلاف و انتشار، مسلمان جب بھی اس ناکامی محرومی اور مظلومیت و مغلوبیت سے نکلنا چاہیں گے ان کو اتحاد و اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا اور اپنی عزت و احترام اور آبرو کے قیام و بقا کے لئے ایک جمعیت اور جھنڈے تلے جمع ہونا ہوگا، اور دین سے گہری وابستگی اور تعلق قائم کرنا ہوگا، اس کے بغیر ہم ذلت و رسوائی اور قعر مذلت سے نہیں نکل سکیں گے۔ آج جب ہم مسلمان موجودہ ظلم و زیادتی کے خلاف کچھ حد تک متحد ہوئے ہیں، اور عرب خکمرانوں اور عوام نے کچھ حد آواز بلند کیا ہے، تو حکومت بھی ہوش میں آئی ہے،۔ اس تمہیدی گفتگو کے بعد ہم پھر اصل موضوع پر آتے ہیں کہ اتحاد و اتفاق کی کتنی اہمیت ہے، یہ کتنی بڑی طاقت ہے اور قوموں، ملتوں اور جماعتوں کے لئے یہ کتنا ضروری ہے۔

علامہ اقبال مرحوم نے امت مسلمہ کو اور خاص طور پر امت کے جانباز سپوتوں اور جیالوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔

آبرو قائم تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں تو رسوا ہوا

دوستو ! ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم کا جب بھی یہ شعر ذہن و دماغ میں گردش کرتا ہے نظر سے گزرتا ہے تو مسلمانوں کے شاندار و تابناک ماضی اور دردناک حال کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ اور مسلمانوں کے موجودہ زوال و پستی اور انحطاط و تنزلی کے اسباب و وجوہات عیاں ہو جاتے ہیں۔

علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر یقینا بہت سے دیوانوں اور کلیات پر بھاری ہے جس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے اور ہزاروں صفحات کے مضامین و مطالب کو ایک شعر میں ادا کر دیا ہے۔

ڈاکٹر علامہ اقبال صاحب مرحوم نے ان تمام قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کو جن میں مسلمانوں کو متحد رہنے اور اختلاف و انتشار اور باہم تفرقہ بازی سے گریز کرنے کی تلقین کی گئ ہے اور جس اختلاف و افتراق کے سنگین اور بھیانک نتائج اور انجام کو فتفشلوا و تذھب ریحکم ( تو تم سب ناکام ہو جاو گےاور تہماری ہوا اکھڑ جائے گی) کی صورت میں ظاہر کر دیا ہے۔ ان تمام مضامین کو اس شعر میں بڑی خوبی کے ساتھ ادا کر دیا ہے۔

یہ سچائی ہے کہ جب ہم مسلمان متحد تھے آپس میں سیسیہ پلائی دیوار کی طرح تھے جب ہم فرقہ فرقہ نہ تھے مختلف ٹولیوں اور گروہوں میں اپنے وجود و ملت کو بانٹا نہیں تھا۔ جب الفت و مودت، صداقت و محبت، مواخات و مواسات، خلوص و اخوت، تعاون و اشتراک اور ہمدردی و غمگساری ہمارا شعار تھا جب اپنائیت بھائی چارہ دوستی و صلہ رحمی پریم و وفاداری اور اتحاد و یکجہتی و غمخواری کے پاکیزہ جذبات ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتے تھے جب ہم مسلمان ایک جسم کے مانند تھے جب ہم میں سے ایک کی تکلیف سب کی تکلیف ایک کا دکھ سب کا دکھ ایک کا ماتم سب کا ماتم ایک کی ذلت سب کی ذلت ایک کی خوشی سب کی خوشی ایک کی ترقی سب کی ترقی اور ایک کی عزت سب کی عزت تھی۔ جب ہم نے تعصب و قومیت اور اونچ نیچ اور اشراف و ارزال کے جاہلی تصورات کھرچ ڈالا تھا اور معاشرے سے رسم و رواج کی بوجھل بیڑیوں کو محبت و الفت کی تلوار نے کاٹ ڈالا تھا۔ امیر و غریب چھوٹے اور بڑے اور شاہ و گدا کے فرق کو احساس اخوت و مساوات نے کچل ڈالا تھا۔

اس وقت ہم پوری دنیا پر حاکم ہو گئے تھے۔ قیصر و کسری اور اس کے چٹے بٹے سب ہم سے تھراتے تھے۔ ہم دنیا کے ایسے حاکم بن گئے تھے کہ تہائی سے زیادہ حصہ پر ہم قابض ہو گئے تنہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فتوحات کا رقبہ ۲۲/ لاکھ مربع میل مورخین نے لکھا ہے۔ مسلمانوں کی مملکت ہارون رشید کے زمانے میں اتنی وسیع ہوگئ تھی کہ سر پر گزرنے والی بدلی کو دیکھ کر ہارون رشید کہا کرتا تھا :

امطری حیث شئت سیئاتینی خراجک الینا

اے بدلی !جہاں تیرا جی چاہے وہاں جاکر برس، تیری بارش کی پیداوار خراج ہمارے بیت المال میں آئے گا۔

ہمارے اتحاد و اتفاق نے سماج کو اتنا وقار و بلندی دی اور اس مقام تک پہنچا دیا کہ صنعاء سے حضر موت تک ایک ضعیفہ سونے چاندی کے زیورات لادے اطمنان سے چلی جاتی تھی اور اسے خدا کے سوا کسی کا خوف اور ڈر نہیں ہوتا تھا۔

ایثار و قربانی اور خیر خواہی کا مسلم سماج بلکہ انسانی سماج میں ایسا جذبہ پیدا ہوگیا تھا کہ خود بھوکا رہ کر کھانا مہمانوں کو کھلا دیا جاتا تھا اور اس خیال سے گھر کا چراغ بھجا دیا جاتا تھا کہ مہمانوں کو میزبان کے بھوکے رہنے کا احساس تک نہ ہو۔

اخوت و بھائی چارگی محبت و شفقت اور فدا کاری کی اعلی اور پاکیزہ تعلیم نے ہم کو ایسا انسان بنا دیا تھا اور وہ کردار ہم کو عطا کیا تھا کہ میدان جنگ میں زخموں سے چور ٹڑپتے سسکتے مسلمان اپنی جان دینا گوارہ کرلیتے لیکن اپنے بھائ سے پہلے پانی پینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔

غرض اتحاد و اتفاق اور جمعیت کی وجہ سے ہم ثریا پر پہنچ گئے تھے دنیا عقیدت سے ہمارے لئے اپنی نگاہوں کو فرش راہ بناتی تھی چپے چپے میں ہماری عظمت و انسانیت اور کرادر و کارنامے کے گیت گاتے جاتے تھے۔

لیکن جب ہم آپس میں منتشر ہوگئے تسبیح کی دانوں کی طرح بکھر گئے ہماری جمعیت ختم ہوگئ تو دنیا میں ہم رسوا اور ذلیل ہوگئے ہماری ہوا اکھڑ گئ ہم اپنے قدر دانوں کی نگاہ ہی میں مبغوض ہوگئے۔ ملت اسلامیہ کے وقار کا سکہ جو صدیوں رائج رہا دنیا کی نگاہ میں وہ سکے کھوٹے قرار دے دئے گئے۔ مغلوبیت و محکومیت کے سیاہ بادل ہم پر ہر طرف سے چھا گئے۔ مسائل و مشکلات کے طوفان ہر طرف چھاگئے اور اب تو حالت یہ ہے کہ باطل اور استعماری طاقتیں ہمارے نونہالوں نوجوانوں عورتوں مردوں اور بوڑھوں سب کے اندر سے ایمانی روشنی کو بے نور اور ختم کرنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑنا چاہتی وہ ہمیں نام کا مسلمان بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی تا آنکہ ہم اپنے شعار اور خصوصیات کے ساتھ زندہ رہیں۔ آج پوری دنیا میں اور خصوصا عالم اسلام اور بر صغیر میں ہماری پوزیشن یہ ہے کہ

کتنے ہم رنگ عرب تابہ عجم ہیں ہم لوگ
ہر جگہ کشتئہ شمشیر ستم ہیں ہم لوگ

پروفیسر برناڈ شاہ نے ہمارے ماضی اور حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا۔

اسلام دنیا کا سب سے اچھا مذہب مگر مسلمان اس وقت دنیا کی سب سے بدترین قوم ہے

آخر ایسا کیا ہوا کہ ہم اس بلندی سے اس پستی اور حقارت و تنزلی کے مقام تک پہنچ گئے۔ اقبال مرحوم نے اس کی وجہ )قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں) اپنے اس شعر میں بیان کر دیا ہے کہ

آبرو قائم تری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت، گئ دنیا میں تو رسوا ہوا

لہذا وقت تقاضا کہ ہم شاندار اور روشن و تابناک ماضی کی طرف لوٹیں ملت کی جمعیت کو دوبارہ زندہ کریں اپنے اختلاف و انتشار کو دور کریں اپنی قوت کو اکھٹااور مجتمع کرکے اسلام کی شان و شوکت کا مظاہرہ کریں۔ اقبال مرحوم کی اس صدا پر لبیک کہیں کہ

ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے تابخاک کاشغر

دوسری جانب ہمیں اس وقت یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمان جن خطرات و مشکلات سے گھرے ہوئے ہیں جن مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن چیلنجوں کا انہیں سامنا ہے اور تاریخ کے جس نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں شاید تاریخ میں اس سے پہلے بہت کم اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ باطل طاقتیں ہر چہار جانب سے اسلام کے خلاف محاذ کھول کر اسلام اور مسلمانوں کو تختئہ مشق بنا رہی ہیں اور خود مسلمانوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہمارے مخالفین ایسے افراد تیار کر رہے جو داخلی طور پر مسلمانوں کے لئے خطرہ اور زحمت بن رہے ہیں۔

یہ حالات اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ ہم مسلمان اپنی طاقت و توانائی ان فروعی مسائل میں صرف کریں جو بحث و تحقیق کے مراحل سے گزر چکے ہیں اور صدیوں سے مسلمان ان پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ وہ موقع نہیں ہے کہ کسی فقہی مسلک کی کسی ایک ایسے مسئلے کی وجہ سے مخالفت کریں جو کوئی بنیادی اہمیت نہیں رکھتا۔ جس سے امت کی کوئی خدمت نہیں ہوتی۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اپنی توانائی صرف تعمیری کاموں میں صرف کی جائے اور اپنی کوششوں کا محور و مرکز اخلاقی بگاڑ، مشرکانہ عقائد، جاہلی رسم و رواج اور غیر اسلامی بود و باش کی اصلاح کو بنایا جائے۔ اسلامی مفادات کے لئے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ اسلامی اصولوں کے لئے چھوٹی چھوٹی بحثوں کو ترک کر دیا جائے۔ کیوں کہ مسلمان جب بھی اس طرح کی بحثوں میں اور فروعی مسائل میں الجھتے ہیں دشمنوں کو مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کا اور زیادہ موقع مل جاتا ہے اور وہ اپنی کوششیں ہمارے خلاف اور تیز کر دیتے ہیں۔ نباض ملت مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:

ائمہ مساجد، خطباء اور علماء اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور ملک میں انتشار بڑھانے والے مسائل چھیڑنے کے بجائے معاشرہ کی اصلاح پر توجہ فرمائیں۔ اس سے ملک کی بھی خدمت ہوگی اور عالم اسلام کی بھی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مغربی تہذیب فاتحانہ پیش قدمی کر رہی ہے۔ جو صرف ثقافت ہی نہیں تمدن و سیاست میں بھی انقلاب چاہتی ہے۔ وہ شرافت کا معیار بدل کر سیادت میں تبدیلی چاہتی ہے۔ وہ اسلامی بنیادوں کو ہلا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ اس ملک کی بنیاد ہلا رہی ہے، اسلامی معاشرت تبدیل ہو رہی ہے۔ اسلامی تمدن دم توڑ رہا ہے۔ مسلمان ذہنی و فکری ارتداد کے شکار ہو رہے ہیں۔ اس حال میں ہمارے یہاں علم غیب کی بحثیں چل رہی ہیں۔ بشریت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مناقشے ہو رہے ہیں۔ توقع نہ تھی کہ اس نازک دور میں جب کہ ہمارے سروں پر خطرہ کی تلوار لٹک رہی ہے اس طرح کی بحثیں چھیڑے گا۔ لیکن اس دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ ہوسکتا ہے ہم اپنی توانائی و طاقت فراست و ذہانت ان فروعی و نزاعی بحثوں میں ضائع کر رہے ہوں اور اس آن مغربیت ہمارے ملک و ملت پر غلبہ حاصل کر رہی ہو۔ آپ تو متاع اسلام کو پانے کی کوشش کریں۔ جب یہ بچ جائے گی تو ان مسائل کی بحٹ کا موقع ہوگا۔

آئیے نباض ملت اور شاعر مشرق کی اس درد کڑھن اور کسک کو محسوس کریں۔ وسعت قلب و نظر کی جیتی جاگتی مثال اور تصویر پیش کریں تمام مکاتب و مسالک فکر کے نمائندے آپس میں متحد ہوکر اسلامی اخوت و اتحاد کا عملی نمونہ پیش کریں اور اسلام کی سربلندی کے لئے آپس میں شیر و شکر ہوجائیں یہ وقت کی آواز اور پکار ہے اور یہی حالات کا تقاضا اور مشکل ملی اور قومی و ملکی مسائل کا حل ہے۔

آیئے ہم سب ایک بار پھر عزم کریں کہ ہم ہر طرح کے جزوی، فروعی اور فقہی و مسلکی اختلاف کو بھول کر ایک ملت کی حیثیت سے زندہ رہیں گے جب ہمارا خدا ایک، ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک ہماری کتاب ایک تو پھر کیوں نہ ہم دنیا میں ایک ہوکر دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھریں۔

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

آپ سب جان رہے ہیں کہ اس وقت حالات بہت مشکل اور پیچیدہ ہیں، مسلمانوں کے وجود کو مٹانے اور ان کو سیاسی سماجی اور معاشی طور پر بے وزن کرنے کی پلانگ ہے اور اس پرعمل ہونا شروع ہوگیا ہے، اس لیے ہمارے لیے آپسی اتحاد اور قرآنی تعلیمات سے وابستگی اس وقت سب سے زیادہ ضروری ہے خدا کرے ہم اس کے لیے تیار ہوجائیں اور ملت کو بچانے کے لیے فکر مند ہوجائیں۔ و ما علینا الا البلاغ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے