Ticker

6/recent/ticker-posts

دو روز شہرنگارستان کلکتہ میں | Do Roz Shahar E Nigar Kolkata Mein

دو روز شہرنگارستان کلکتہ میں

(۳)

محمد قمر الزماں ندوی

محمد قمر الزماں ندوی

سفر انسانی ضرورت ہے، خواہش اور تفریح بھی ہے، قدیم زمانے سے اس کو انسانی ضرورت سمجھا گیا ہے۔ اہل عرب تو طویل اور منظم طریقہ سے سفر کرتے تھے ، قرآن مجید میں بھی سفر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے, کہ اس سے حالات کا علم ہوتا ہے، تجربے ہوتے ہیں، حقائق معلوم ہوتے ہیں اور صحیح بات کو سمجھنے میں اور صحیح علم حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مواقع پر ایسی آیتیں موجود ہیں, جن میں سفر کرنے اور چل پھر کر حالات کو دیکھنے اورگزشتہ قوموں کے حالات جان کر عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، سورہ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام اور ساتھ ہی ذو القرنین کے سفر کے واقعہ کو قرآن مجید نے خاص انداز اور قدر تفصیل سے بیان کیا ہے، عربوں میں اور عربوں کی شاعری میں اس کی خاص اہمت ظاہر کی گئی ہے اور مسافر کو حوصلہ مند اور بلند صفات بلکہ حیثیت کا آدمی قرار دیا ہے، حتیٰ کہ سفر کی نسبت سے اس کی عظمت کو ثابت کیا ہے، مشہور شاعر جریر کہتا ہے :

الستم خیر من رکب المطایا۔ آپ تو سفر کرنے والوں کے بلند طبقے میں ہیں،

ابو تمام نے اپنی شریک حیات کو اپنے سفر پر رخصت کرتے ہوئے رنجیدہ ہونے پر سمجھایا ہے اور موثر انداز میں نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سفر تو ضروری کام ہے، اس کے بغیر عزت کم حاصل ہوتی ہے اور سفر سے واپسی پر جو خوشی ہوتی ہے وہ خود ایک بڑی چیز ہے، یہ خوشی بغیر مشقت اور دوستوں اور اقربا کی جدائی برداشت کئے بغیر حاصل نہیں ہوتی ہے۔ (مستفاد سہ ماہی کاروان ادب جولائی۔ ستمبر ۱۹۹۶ء )

ڈاکٹر یحییٰ نشیط صاحب نے سفر کے بارے میں بہت اچھا لکھا ہے کہ :
 
”انسان تنگئ ماحول سے گھبرا کر اپنے آپ کو اجنبی فضاوں سے روشناس کرانے کے لیے ہمیشہ سے مائل بہ سیاحت رہا ہے۔ ایک جیسا ماحول جب اس کی اکتاہٹ کا باعث بن جاتا ہے، تو دنیا بو قلمونی اور رنگارنگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ،،شوق،، اسے اکساتا ہے،،لگن،، اشتیاق پیدا کرتی ہے، ہمت پسپا ہوتی ہے، تو تجسس آگے بڑھاتا ہے اور پھر چمن کی گل کاریاں، پرندوں و طیور کی خوش الحانیاں ، پہاڑوں کی بلندیاں، صحراوں کی سحر آفرینیاں، آبشاروں کی قلابازیاں، دریاؤں کی روانیاں، موجوں کی اٹکھیلیاں، ساحلوں کی خاموشیاں، شاہوں کی فیاضیاں، تجارت کی منڈیاں، تعلیم کے ادارے، تہذیب کے گہوارے، تاریخ کے شہہ پارے اور نہ جانے اقصائے عالم میں کون کون سے محرکات ہیں، جو ذوق کو مہمیز دیتے ہیں اور انسان،، سیروا فی الارض،، کے حکم خداوندی کے لیے رخت سفر باندھتا ہے ع

کیوں تعجب ہے میری صحرا نوردی پہ تجھے
یہ تو گویا بوئے دما دم زندگی کی ہے دلیل


لیکن بقول مولانا عبد اللہ عباس ندوی مرحوم،،سفر وہی قابل اعتناء ہوتا ہے، جس کے پیچھے کوئی مقصد ، جستجو ہو، ورنہ دنیا کی کوئی بستی خیر و شر کے امتزاج سے خالی نہیں ہے۔انسانوں کی بستیاں نہ فرشتوں کی وادیاں ہوتی ہیں اور نہ محض شیطانوں کی آبادیاں، ہر جگہ اچھوں کے ساتھ برے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بروں کے درمیان خال خال اچھے بھی مل جاتے ہیں اسی طرح ہر منظر دلفریب اور جنت نگاہ نہیں ہوتا، ویرانے، دشت اور متعفن مقامات بھی ہوتے ہیں، اب یہ مسافر کی طلب اور تلاش پر ہے کہ وہ کس چیز کو دیکھنا چاہتا ہے اور کس طرف سے دامن کشاں اس طرح گزرتا ہے کہ وہ اذا مروا باللغو مروا کراما کی صورت نظر آتی ہے۔ (سہ ماہی کاروان زندگی جولائی۔ ستمبر ۱۹۹۶ء)

معلوم یہ ہوا کہ مسافر جب اپنا سفر نامہ لکھتا ہے تو اس کے اندر مسافر کی تصویر صاف جھلکتی ہے، اس کے معیار خیر و شر اور افکار و نطریات اور رجحانات و میلانات کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔ راہ پیمائی اور رہ و منزل کے مناظر، تلخ و شریں تجربات کا بھی ضمنا بیان آتا ہے۔

راقم الحروف ۲۳/ تا ۲۵ جون کلکتہ کے سفر پر تھا، سفر کلکتہ کی داستان دو قسطوں میں، اس پہلےلکھ چکا ہوں پہلی قسط ابھی باقی ہے، یہ تیسری قسط ہے ، پانچویں قسط میں یہ سفر نامہ مکمل ہوگا۔

اس قسط میں ہم شہر کلکتہ میں گداگری، پر لکھیں گے ، جو ہر شہر کا ایک بڑا مسئلہ ہے، ۔

دوسرے بڑے شہروں کی طرح کلکتہ میں بھی مختلف پیشہ کے لوگ موجود ہیں جو اپنی دال روٹی کے لیے دن بھر جد و جہد کرتے ہیں اور اپنی روزی کمانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک رزق حلال کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کسی نہ کسی حیلے سے رزق مہیا کردیتا، لیکن ناجائز طور پر روزی روٹی کمانے والوں نے آج کل آرٹ کا استعمال اندھا دھند شروع کردیا ہے، اور شہر کلکتہ میں تو یہ وبا عام ہے۔اگر کسی جیب کترے سے پوچھا جاتا ہے، آپ یہ حرکت کیوں کرتے ہیں تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ وہ آرٹ کے ذریعہ اپنی روزی کماتا ہے، جیب کاٹنا آسان کام نہیں ہے۔ کسی کا جیب کاٹنا یہ آسان کام نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی ایک فن، کلا اور آرٹ ہے، ۔ اگر یہ کام آسان ہوتا تو سارے لوگ یہی کرتے۔

باقی کل کی تحریر میں ملاحظہ کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے