دور روز کلکتہ میں
(۲)
محمد قمر الزماں ندوی
غالب نے کلکتہ کے بارے میں کہا تھا :
کلکتہ کا جو ذکر کیا تم نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
پتہ نہیں کہ چچا غالب کو کلکتہ کی کون سی ادا بھا گئی تھی کہ، جس نے انہیں اس قسم کا شعر کہنے پر مجبور کیا۔ لیکن اس وقت کلکتہ کی جو تصویر اور نقشہ ہمارے سامنے ہے، یقیناً چچا غالب کے دور کے کلکتہ سے بہت ہی، الگ، مختلف اور جدا ضرور ہے۔
ہمارے بہت سےقارئین کی خواہش ہے کہ میں آپ سب کو تحریری انداز میں کلکتہ کا سیر کراؤں اور یہاں کی تاریخ، ثقافت کلچر، سیاست، معیشت اور یہاں کی ریتی رواج کو قلمبند کروں۔ دوسری قسط تیار ہے، پہلی قسط زیر ترتیب ہے، اس لیے قارئین سے معذرت کرتے ہوئے، دوسری قسط پہلے شائع کر رہا ہوں، جس سے آپ کلکتہ کی تاریخ، کلچر اور ثقافت سے اچھی طرح واقف ہوجائیں گے۔
مکتب میں زیر تعلیم تھا، اس وقت ہی کلکتہ کا نام سنا اور پڑھا تھا کہ ہندوستان کے چند بڑے شہروں میں کلکتہ سرفہرست ہے۔ بڑے چچا مولانا ادریس عاصی صاحب حفظہ اللہ اردو کے گھنٹے میں سوال لکھاتے تھے کہ ہندوستان کے پچیس بڑے شہروں کا نام لکھو؟ تو پٹنہ کے بعد دوسرا شہر کلکتہ ہی لکھتا تھا۔ پھر اردو کی پانچویں میں کلکتہ کی مختصر تاریخ پڑنے کا موقع ملا، اور پھر برسوں سے یہ کتاب زیر تدریس ہے۔ اس لیے اس مضمون کی شروعات اسمعیل میرٹھی مرحوم کے مضمون ہی سے کرتے ہیں، تاکہ کلکتہ کی قدیم تاریخ سے واقفیت ہوسکے، اس کے بعد موجودہ کلکتہ کی تفصیلات پھر یہاں کی علمی، ادبی، ثقافتی، معاشی، سماجی اور سیاسی تاریخ بھی پیش کی جائے گی۔۔۔
شہر کلکتہ زمانہ سابق میں ایک قریہ تھا۔ وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے ۔ کہ کالی نام کا یہاں ایک بت ہے۔ اور کتا بنگلہ زبان میں صاحب کو کہتے ہیں ۔ اس لئے گاؤں کالی کتا مشہور ہوا۔ رفتہ رفتہ بکثرت استعمال نے کلکتہ بنا دیا ۔
عہد عالمگیری میں بڑا شہر بندر ہگلی تھا۔ اسی بندر میں تجارتی جہاز لنگر انداز ہوتے تھے اور اکثر تجارت پیشہ لوگوں کی یہاں سکونت تھی ۔ چنانچہ انگریزی کمپنی کی کوٹھی بھی وہیں تھی اتفاقا زمین کے دھنس جانے سے انگریزی کوٹھی منہدم ہوگئی ۔ بہت سا مال و اسباب تلف ہوا۔ تب مسٹر چانک نے دوسرے مقام پر کوٹھی کی بنا ڈالی اور دو منزلہ سہ منزلہ عمارتیں بنانے کا ارادہ کیا مغل تاجروں کو یہ امر شاق ہوا۔ انھوں نے فوجدار سے شکایت کی ۔ اس نے صوبہ دار بنگالہ کو اطلاع دی ۔ وہاں سے ممانعت کا حکم صادر ہو گیا۔ ناچارمسٹر چانک اپنا جہاز لے کر دکن کو چل دیا۔
ان دنوں اور نگ زیب مہمات دکن میں مصروف تھا ۔ اور قحط عظیم کی وجہ سے بادشاہی لشکر کو سخت تکلیف ہو رہی تھی۔ کرناٹک کی کوٹھی کے انگریزی افسرنے بہت سا غلہ اور سامان رسد لشکر شاہی کو پہنچا یا اس خدمت شائستہ کے صلہ میں بادشاہ نے انگریزوں کو معافی محصول کی سند عطا فرمائی اور کوٹھی کے بنانے کی اجازت دے دی تب مسٹر چانک شاہی فرمان لے کر بنگالہ کو واپس آیا ۔ اور موضع کلکتہ میں کوٹھی تعمیر کی تجارت کی بدولت آبادی روز بروز بڑھتی گئی ۔ پھر جو گورنر آیا ۔ آبادی کی ترقی اور تعمیر کی افزائیش پر متوجہ رہا چنانچہ کرنل کلایو نے پلاسی کی فتح کے بعد شہر سے کچھ فاصلے پر قلعہ کورٹ ولیم تعمیر کرایا اس کی ساخت اور طرز عمارت اس بلاد کے قلعوں سے نہیں ملتی نئے انداز کا اور نہایت مضبوط ومستحکم ہے۔
خاص کر لارڈ ولزلی کے عہد گورنری میں اس شہر کا اسلوب نہایت خوب ہو گیا ۔ ایک عمارت عالی شان منجانب کمپنی تعمیر ہوئی ۔ غرض تجارت کی گرم بازاری اور انگریزی حکومت کا صدر مقام ہونے کے باعث ہرقسم کے اہل پیشہ صناع ساہوکار وہاں بکثرت آباد ہوتے گئے اور اپنے اپنے مقدور کے موافق حویلیاں اور کوٹھیاں تعمیر کرائیں فی الحال یہ ہی شہر صوبہ بنگال کا دارالصدر اور کل ہندوستان کا دارالسطنت ہے۔ دریائے ہگلی کے دونوں کناروں پر اس کی آبادی ہے ۔
خاص شہر چھ میل طویل اور ڈیڑھ میل عریض ہے جس میں اہل فرنگ رہتے ہیں ۔ وہاں مکان نہایت عالیشان اور سڑکیں بہت خوش قطع اور فراخ ہیں ایوان گورنری کے سامنے ایک بڑا وسیع میدان ہے اس میں کئی سٹرکیں نکلی ہیں ۔ جن پر صبح وشام اکثر صاحبان انگریز سیر و تفریح کے لئے سوار ہو کر نکلتے ہیں ۔ دریائے ہگلی اس شہر کے متصل نصف میل کی چوڑائی میں بہتا ہے۔ اس کے کنارے کنارے پختہ سٹرک اور مضبوط دیوار تعمیر کی گئی ہے ۔ جہازوں اور کشتیوں سے مال تجارت اتارنے کے لئے چند گھاٹ بنے ہوئے ہیں ۔ کل تعداد اس شہر کے باشندوں کی قریب آٹھ لاکھ کے ہے۔
2011ء میں شہر کی آبادی 4.5 ملین، جبکہ شہر اور اس کے مضافات کی آبادی 14.1 ملین تھی جو اسے بھارت کا تیسرا بڑا میٹروپولیٹن علاقہ بناتی ہے۔ کولکاتا میٹروپولیٹن علاقے کی معیشت کا حالیہ تخمینہ 60 تا 150 بلین امریکی ڈالر (مساوی قوتِ خرید خام ملکی پیداوار ) تھا، جو اسے ممبئی اور دہلی کے بعد بھارت کا تیسرا سب سے زیادہ پیداواری میٹروپولیٹن علاقہ بناتا ہے۔
اپنے بہترین محل وقوع کی وجہ سے کولکاتا کو "مشرقی بھارت کا داخلی دروازہ" بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نقل و حمل کا اہم مرکز، وسیع مارکیٹ تقسیم مرکز، تعلیمی مرکز، صنعتی مرکز اور تجارتی مرکز ہے۔ کولکاتا کے قریب دریائے ہوگلی کے دونوں کناروں پر بھارت کے زیادہ تر پٹ سن کے کارخانے واقع ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں موٹر گاڑیاں تیار کرنے کی صنعت، کپاس-کپڑے کی صنعت، کاغذ کی صنعت، مختلف قسم کی انجینئری کی صنعت، جوتوں کی صنعت، ہوزری صنعت اور چائے فروخت کے مراکز وغیرہ بھی موجود ہیں۔
: کولکاتا (انگریزی: Kolkata (بنگالی: কলকাতা)؛ تلفظ:/koʊlˈkɑːtɑː/ ؛بنگالی تلفظ: [kolkat̪a]) جس کا سرکاری نام سنہ 2001ء سے قبل کلکتہ (انگریزی: Calcutta؛ تلفظ: /kælˈkʌtə/) تھا، بھارت کی ریاست مغربی بنگال کا دار الحکومت ہے جو دریائے ہوگلی کے مشرقی کنارے پر واقع ہے اور مشرقی بھارت کا اہم تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی مرکز ہے۔ کولکاتا بندرگاہ بھارت کی قدیم ترین اور واحد اہم دریائی بندرگاہ ہے۔
کولکاتا کے شمال میں 35 کلومیٹر (22 میل) کے فاصلے پر شمال میں چندرکیتوگڑھ کے آثار قدیمہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ یہ علاقہ دو ہزار سال قبل آباد تھا۔ [21][22]مہا بھارت میں بھی بنگال کے کچھ راجاؤں کا نام ہے جو کورو فوج کی جانب سے جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ اس شہر کے وجود کا ذکر تجارتی بندرگاہ کے طور پر چین کے قدیم مسافروں کی سفرناموں اور فارسی تاجروں کی دستاویزات میں ملتا ہے۔ شہنشاہ اکبر کی محصول دستاویزات اور پندرہویں صدی صدی کے ادب اور نظموں میں اس نام کا بار بار ذکر ملتا ہے۔
/1698ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک مقامی زمیندار خاندان ساورن رائے چودھری سے تین گاؤں (شوتنتی، کولیکاتا اور گوبندپور) حاصل کیے۔ اگلے سال کمپنی نے ان تین گاؤں کا ارتقاء پریسیڈنسی سٹی کے طور پر شروع کر دیا۔ 1727ء میں مملکت برطانیہ عظمی کے بادشاہ جارج دوم کے حکم کے مطابق یہاں ایک شہری عدالت قائم کی گئی۔ کولکاتا میونسپل کارپوریشن قائم کی گئی اور پہلے میئر کا انتخاب ہوا۔ 1756ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ نے كولكاتا پر حملہ کرکے اسے فتح کر لیا اس نے اس کا نام علی نگر رکھا۔ لیکن سال بھر کے اندر ہی سراج الدولہ کی گرفت یہاں ڈھیلی پڑ گئی اور انگریزوں کا اس پر دوبارہ غلبہ ہو گیا۔ 1772ء میں وارن ہیسٹنگز نے اسے برطانوی راج کا ہندوستانی دارالحکومت بنا دیا۔ کچھ مورخ اس شہر کو ایک بڑے شہر کے طور پر 1698ء میں فورٹ ولیم کے قیام سے جوڑتے ہیں۔ 1911ء تک کولکاتا ہندوستان میں برطانوی راج کا دارالحکومت رہا۔
0 تبصرے