Ticker

6/recent/ticker-posts

جمعہ کے خطاب کے ذریعہ نوجوانوں کی ذہن سازی کیجئے

جمعہ کے خطاب کے ذریعہ نوجوانوں کی ذہن سازی کیجئے


محمد قمر الزماں ندوی

محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ

جمعہ انتہائی مبارک اور مسعود دن ہے، اس دن کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، یہ سید الایام ہے، یعنی تمام دنوں کا سردار ہے، اس دن کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نام سے قرآن مجید کی ایک مستقل سورہ ہے۔سورہ جمعہ کا دوسرا رکوع بہت بعد میں نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے سبت سنیچر کے مقابلہ میں مسلمانوں کو جمعہ عطا فرمایا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس میں متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے جمعہ کے ساتھ وہ معاملہ نہ کریں جو یہودیوں نے سبت کے ساتھ کیا تھا۔

جمعہ کی حقیقت

جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اسے یوم عروبہ کہا کرتے تھے۔ اسلام میں جب اس کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا، تو اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ اگر چہ بعض مورخین یہ کہتے ہیں کہ کعب بن لوئی یا قصی بن کلاب نے بھی اس دن کے لیے یہ نام استعمال کیا تھا۔ کیونکہ اس روز قریش کا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ جمعہ کی فرضیت کا حکم نبی کریم ﷺ پر ہجرت سے کچھ مدت پہلے مکہ معظمہ میں نازل ہوچکا تھا۔ لیکن اس وقت آپ اس پر عمل نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ مکہ میں اجتماعی عبادت کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر جو آپ سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تھے، یہ حکم لکھ بھیجا کہ وہاں جمعہ قائم کریں۔ چنانچہ ابتدائی مہاجرین کے سردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے بارہ آدمیوں کے ساتھ مدینے میں پہلا جمعہ پڑھا۔ دار قطنی۔

پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک، ہمیشہ آپ کی اقتدا میں جمعہ کی نماز ادا کی، پھر آپ کے بعد خلفاء اربعہ نے اس خدمت اور فریضہ کو انجام دیا۔

چونکہ اس نماز کی الگ ہی خصوصیت ہے اس لیے دیگر نمازوں کے مقابلے میں، اس کے حدود و شرائط اور کچھ اضافی احکام ہیں۔ جس کی تفصیلات احادیث اور فقہی کتابوں میں موجود ہیں۔

جمعہ کی فضیلت و اہمیت

آج جمعہ ہے، اور جمعہ کی نماز اور خطبہ کی حکمت اور مصلحت بہت عظیم ہے، یہ ہفتہ کی وہ عبادت اور اجتماع ہے، جس کے ذریعہ امت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کی جاتی ہے، ان کو موجودہ حالات اور اس کے تقاضے سے باخبر کیا جاتا ہے، ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا جاتا ہے، مشکل حالات میں مسلمان کیا کریں اور کیا نہ کریں، اس سے باخبر کیا جاتا ہے، جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ جو ضروری درجہ میں ہے، بلکہ جمعہ کے شرائط میں سے ہے، اس کی حکمت اور مصلحت یہی ہے کہ مسلمانوں کو حالات و مسائل سے واقف کرایا جائے، ان کو مثبت کام کرنے کی تلقین کی جائے اور منفی کاموں سے روکا جائے، خصوصاً نوجوان طبقہ، جس کے اندر جوش و جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے، ان کو جذباتیت سے روکا جائے، اور تعمیری کاموں کی سمت ان کے ذہن کو مبذول اور متوجہ کیا جائے۔

جمعہ کی خصوصیات

جمعہ کی نماز کے لیے بڑی جماعت اور بڑی آبادی کی شرط اسی لیے ہے کہ مسلمانوں تک بڑے پیمانے پر اسلام کی تعلیمات پہنچائی جائے اور حالات حاضرہ سے مقابلہ کرنے کی ان کے اندر صلاحیت پیدا کی جائے، نیز مسلمانوں کی ہفتہ واری ایک ملاقات ہو اور ایک دوسرے کے حالات و واقعات سے باخبر ہوں۔ نیز اس اجتماعیت کا اثر اور رعب غیروں پر بھی پڑے۔

چونکہ نوے فیصد سے زیادہ مسلمان عربی زبان سے بابلد ہیں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ خطبہ میں کیا پڑھا اور کہا جارہا ہے، اس لیے برصغیر ہند و پاک میں اور اس جیسے ملکوں میں خطبہ سے پہلے وہاں کی مروجہ زبان میں تقریر کی جاتی ہے تاکہ خطبہ کا مقصد حاصل ہوسکے۔

اس وقت پوری دنیا میں مسلمان بہت ہی مشکل حالات سے دو چار ہیں، ان کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے، ان کو جینا دوبھر کیا جارہا ہے، ان کے جذبات کو مشتعل کرکے ان کو پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسے حالات میں جمعہ کی نماز کے ذریعہ مسلمانوں کی اور خصوصاً نوجوان نسلوں کی اچھی تربیت کی جاسکتی ہے اور انہیں بہترین گائیڈ لائن دیا جاسکتا ہے، نیز انہیں جذباتیت اور منفی کاموں سے روکا جاسکتا ہے، شرط یہ ہے کہ مسلمان جمعہ کی اس عظیم عبادت اور اس نماز اور اس میں خطبہ کے مقصد و حکمت اور مصلحت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے ذریعہ امت مسلمہ کی رہنمائی کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔

جمعہ کی نماز اور خطبہ

ہم یہاں چند ضروری نکات جمعہ کی نماز اور خطبہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور اس پر عمل کی درخواست بھی کرتے ہیں۔

” جمعہ کی نماز سے پہلے تقریر اور خطبہ کے لیے جو وقفہ ہوتا ہے، وہ مجلس جگہ اور وفقہ و دورانیہ بہت ہی نورانی اور مبارک ہوتا ہے، سب لوگ پاک و صاف باوضو اور معطر ہوتے ہیں، تلاوت اور سنتوں سے فارغ ہوکر خطیب کی تقریر اور خطبہ سنتے ہیں، سکینت کا ماحول ہوتا ہے، فرشتے اس نورانی محفل میں حاضر خدمت ہوتے ہیں۔ اس لیے جتنی توجہ سے جمعہ سے قبل کی تقریر سنی جاتی ہے، کسی اور جلسہ اور اجتماع کی تقریر نہیں سنی جاتی ہے۔ جمعہ میں شور و شرابہ نہیں ہوتا، جبکہ دیگر جلسوں اور اجتماعات میں ہنگامہ اس قدر کہ۔۔۔

اس لیے ائمہ اور خطباء کو چاہیے کہ اس نورانی اور عرفانی مجلس کو غنیمت جانیں اور اس کے ذریعہ ملت کی صحیح رہنمائی کریں“۔

”ہر ہفتہ صرف نماز اور محبت رسول ﷺ پر ہی نہیں بلکہ الگ الگ موضوعات پر بھی حالات حاضرہ کے مطابق بھر پور تیاری کرکے آئیں اور ان موضوعات پر خطاب کرکے امت کو ان کا کھویا ہوا مقام اور ذمہ داری یاد دلائیں، نوجوان نسل کو جذباتیت اور منفی کسی بھی قسم کے اقدام سے روکیں، مسلم پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی یا دیگر ذمہ دار گروپ یا اشخاص کی طرف سے جو خطاب جمعہ بھیجا جاتا ہے، اس کی روشنی میں تقریر کریں۔ اس میں اپنی ہتک نہ سمجھیں“۔

”اکثر مسجدوں میں جہاں جماعت تبلیغ والوں کا کام زیادہ ہے، وہاں چھ بات پر ہی ہمیشہ تقریر اور بیان ہوتا ہے، یہ بھی اچھی بات ہے، لیکن مسلمانوں کو حالات حاضرہ کے مطابق کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے، اس کی طرف اشارہ کرنا اور ان کو صبر و استقامت سے کام لینے اور منفی کاموں اور رد عمل روکنے کے لیے اشارہ کرنا بھی ضروری ہے، اس لیے ان موضوعات پر بھی تقریر ضروری ہے، مسجد کے متولی اور تبلیغ کے ذمہ داروں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے“۔
 
”عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ امام صاحب صرف حافظ ہیں، وہ صرف خطبہ اور نماز کی ذمہ داری پوری کرسکتے ہیں، لیکن ان کو تقریر کا مکلف بنایا جاتا ہے، ایسے لوگ رسمی اندار چند خاص موضوعات پر ہی ہمیشہ تقریر کرتے ہیں، جب کہ گاوں اور محلے میں ان سے قابل عالم اور خطیب موجود ہوتے ہیں، یا عالم صاحب دلچسپی نہیں لیتے یا ان کو موقع نہیں دیا جاتا، اس لیے درخواست ہے کہ حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے ہر عالم دین، جن کے اندر خطابت کی صلاحیت ہے وہ اس فائدہ اٹھا کر امت کی رہنمائی کریں۔ متولی اور کمیٹی کے لوگ اپنے ذہن کو وسیع رکھیں اور مقامی علماء سے رہنمائی لیں“.

جمعہ کے اجتماع اور جمعہ کی نماز کو ہمارے دشمن ہمارے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور یہ باور کرانا چاہتے کہ اس نماز کے بعد مسلمان ہنگامہ آرائی کرتے ہیں، اس شبہ اور غلط فہمی کو دور کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ یہ نماز اور جماعت و اجتماع پوری انسانیت کے لیے رحمت ہے یہاں سے امن و شانتی، پریم و محبت اور مانوتا و انسانیت کے پیغام کو عام کیا جاتا ہے“۔

”بغیر کسی مشورہ اور ملی تنظیموں کے رہنما کی اجازت اور انتظامیہ کو حمایت میں لیے کسی طرح کا کوئی مظاہرہ نہیں ہوگا، اس کا بھی اعلان جمعہ کی تقریر میں ہوجانا چاہیئے۔ 
 " جمعہ کی نماز میں ہر شخص یہ کوشش کرے کہ وہ اذان ہوتے ہی مسجد پہنچ جائیں اور سنت و نفل اور کچھ تلاوت سے فارغ ہوکر، تقریر اور خطبہ پوری توجہ سے سنیں, اور اسی کے مطابق عمل کریں اور کرائیں“.

”اودے پور کا جو واقعہ پیش آیا، یقیناً وہ انسانیت اور مانوتا کے خلاف ہے، یہ واقعہ روح فرسا بھی ہے اور دل و دماغ کو جھنجھوڑنے والا بھی ہے، اس طرح کا کوئی واقعہ آئیندہ پیش نہ آئے اور مسلمان نوجوان جذباتیت کے شکار نہ ہوں، اس کے لیے ہمیں بہت نظر رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دشمن تاک میں ہے کہ موقع ملے اور مسلمانوں پر ہاتھ صاف کیا جائے۔۔ میڈیا بھی پوری کوشش میں ہے کہ مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کردیا جائے۔۔ کتنا تضاد ہے کہ اخلاق، پہلو خان، محمد جمشید و جنید عبد القادر کی بہیمانہ قتل پر اس منافق میڈیا کو سانپ سونگھ جاتا ہے، اور اگر کسی مسلمان سے اس طرح کا اتفاقیہ کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے تو یہ لوگ آسمان سر اٹھا لیتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس طرح وہ زہر اگلتے ہیں کہ الامان و الحفیظ“۔

مذکورہ باتوں کی روشنی میں ہم مسلمانوں سے اور خصوصا ذمہ داران مساجد، علماء اور اہل علم سے درخواست کرتے ہیں کہ جمعہ کی نماز، اجتماع اور خطبہ کے ذریعے مسلمانوں کی صحیح رہنمائی فرمائیں اور اس نازک وقت میں ملت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو بھنور میں جانے سے بچائیں۔۔

نوٹ / درخواست ہے کہ دوسروں تک اس پوسٹ کو ضرور پہنچائیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے