تندرستی ہزار نعمت ہے | Tandurusti Hazar Niyamat Hai
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
بچپن سے جو اشعار بالکل زبان زد ہیں اور جن کو بارہا تقریر تحریر، عام گفتگو اور بول چال میں استعمال کرتا آرہا ہوں اور جس شعر کے ایک مصرعہ کو ضرب المثل کے طور پر لوگ بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک شعر یہ ہے،، ۔
تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
ان دنوں راقم الحروف کی طبیعت کچھ ناساز ہے، زندگی میں پہلی بار کوئی میڈیکل ٹسٹ اور چیک اپ کرایا ہے، ڈاکٹر کا کہنا ہے اب وقت آگیا ہے کہ آپ خورد و نوش میں اعتدال اور احتیاط برتیں ۔اس الٹی میٹم کا دل و ماغ پر اثر رہا اور بار بار یہ شعر گنگناتا رہا کہ
تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
عام طور پر اس شعر کو لوگ اس رنگ و آہنگ کی وجہ سے غالب کا سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ شعر سالک مرحوم کا ہے، جو غالب کے خاص شاگر تھے، دل میں خیال آیا کہ چلو آج اس شعر کی حقیقت اور تعلق سے کچھ گفتگو کرتے ہیں۔
مذکورہ شعر قربان علی بیگ سالک حیدر آباد دکن (۱۸۲۴ء ۔۔۱۸۸۰ء )کا ہے، لیکن نہ جانے کیوں اکثر پڑھے لکھے اور اہل علم حضرات بھی اس شعر کو غالب کی طرف نسبت کرتے ہوئے پڑھتے ہیں، اسی عمومی شہرت کا اثر تھا، کہ میں بھی اکثر اس شعر کو غالب کی طرف منسوب کرکے پڑھتا تھا، لیکن جب استاد محترم مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب رح کی معروف اور شہرئہ آفاق تصنیف، ، متاعِ قلم، ، کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ شعر غالب کا نہیں ہے، دیوان غالب میں یہ شعر ہے ہی نہیں، حالانکہ کے بچوں کے مشہور ادیب مولانا محمد اسماعیل میرٹھی (۱۸۴۴ء ۔۔ ۱۹۱۷ء)جو خود سالک کی طرح غالب کے شاگرد اور سالک کے ہم عصر ہیں، انہوں اپنی مشہور زمانہ تصنیف اردو زبان کی کتاب، ، تیسرا حصہ، ، کے ۴۱/ ویں سبق میں، ، تندرستی، ، کا موضوع اختیار کیا ہے اور درمیان میں اس شعر کو سالک کی طرف منسوب کرکے نقل کیا ہے۔ ہم عصر اور ہم زمانہ ہونے کے اعتبار سے ان کی اس باخبری کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، عبارت یہ ہے،،
جسم اور دماغ کے کاموں کا ٹھیک طور پر ہونا صحت اور تندرستی ہے، تندرستی ہی سے زندگی خوشگوار معلوم ہوتی ہے، ع۔۔
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
(اردو زبان کی تیسری کتاب ص، ۹۱)
جناب شمس بدایونی کی ایک مشہور و معروف کتاب ہے۔، ، شعری ضرب الامثال، ، جس کو بدایونی صاحب نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے، یہ کتاب ۱۹۸۴ء میں روشن پبلیکیشز، روشن روڈ، محلہ سوتھ بدایوں یوپی سے شائع ہوئی ہے، اس کتاب کے صفحہ ۴۱/ پر بھی یہ شعر اس طرح ہے، ۔
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
(متاعِ قلم ص، ۳۴۸ )
کلیات سالک، یہ کتاب اکمل المطابع دہلی سے ۱۲۹۷ھج مطابق ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی ہے جو ۳۸۰ صفحات پر مشتمل ہیں، اس کتاب کے صفحہ ۲۰۵ کے بالکل آخر میں یہ دو شعر موجود ہیں۔
شب بلا ہے تو روز آفت ہے
زندگی ہجر میں قیامت ہے
تنگدستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو اس شعر کی نسبت غالب کی طرف کرنا درست نہیں ہے، اس شعر کی نسبت غالب کی طرف ایک عوامی یا عمومی شہرت کی بنیاد پر ہے، جب کے سالک کی طرف اس شعر کی نسبت کرنے کی تحریری شہادتیں موجود ہیں، جس کی دوتین شہادتیں اوپر ذکر کی گئیں، ایک آخری شہادت اور سن لیجئے جو خود غالب کی ہے، جس کا اندازہ غالب کے اس خط سے ہوتا ہے، جسے انہوں نے سالک کی طرح اپنے دوسرے چہیتے شاگر میر مہدی حسین مجروح (۱۸۳۳ء۱۹۰۳ء )کے نام لکھا تھا، اس کا ایک حصہ یہ ہے :
تندرستی ہزار نعمت ہے
ہائے! پیش مصرعہ مرزا
قربان علی بیگ سالک نے کیا خوب بہم پہنچایا ہے، مجھ کو پسند آیا، ، ) خطوط غالب، تالیف مولانا غلام رسول مہر ۳۱۳ بحوالہ متاع قلم ۳۴۷)
اب یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر یہ شعر غالب کی طرف منسوب کیوں ہوگیا، اس کا جواب مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب کے الفاظ میں سنئے وہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے اپنے شاگر سالک کے اس شعر کو غالب نے تحریری اور زبانی طور پر متعدد بار مختلف انداز سے سراہا ہواور کسی موقع پر سالک کا نام لیے بغیر بھی غالب کی زبان یا تحریر میں یہ شعر آگیا ہو، اور کسی نہ اسے سن کر یا پڑھ کر غالب سے نسبت قائم کردی ہو، بعد میں ہوا یہ کہ اس نسبت نے،، عوامی شہرت، ، حاصل کرلی اور اس شعر کو لوگ عام طور پر غالب ہی کا سمجھنے لگے، ایسا سمجھنے میں معقولیت کا پہلو یہ ہے کہ اس شعر کا انداز اور آہنگ غالب جیسا ہے اور غالب نے، ، تنگدستی، ، کے لفط کو اپنے اشعار اور خطوط میں بکثرت استعمال کیا ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ کسی چیز کی شہرت سے حقیقت بدلا نہیں کرتی، بقول شخصے ع
ہر حالت میں ہر صورت میں حق حق ہے اور باطل باطل
(متاعِ قلم ص، ۳۴۶)
درجنوں اشعار ہیں، اسی طرح سیکڑوں تحریریں ہیں جو ہیں کسی اور کی، لیکن وہ اشعار اور تحریریں منسوب کسی اور کی طرف ہوگئی ہیں، نثری اور شعری دنیا میں ایک مضمون یا ایک شعر کی نسبت چند مضمون نگار یا چند شعراء کی طرف، کوئی نہیں اور انوکھی بات نہیں ہے، بعض جگہ غلط فہمی اور لا علمی میں یا عوامی و عمومی شہرت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ بعض جگہ لوگوں نے خیانت اور فراڈ کیا ہے، ۔ ندوہ کے ہمارے ایک استاد بتاتے ہیں کہ جب میں ریاض یونورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو وہاں کے مکتبہ میں ایک کتاب کو ایک عرب عالم کی طرف منسوب دیکھا، جو حقیقت میں ان کی تصنیف تھی، بڑی محنت سے اس کتاب کو انہوں نے مرتب کیا تھا، لیکن جب وہاں سے واپسی کے بعد میری تقرری ندوہ میں ہوئی، تو حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ وہی کتاب یہاں ایک ہندوستانی عالم کے نام سے منسوب دیکھا، صرف مقدمہ میں تھوڑا بہت فرق اور رد و بدل تھا۔ مشہور عالم دین مولانا مجیب اللہ ندوی کی مشہور زمانہ تصنیف اسلامی فقہ جو تین جلدوں میں ہے(جو اردو زبان میں فقہ اسلامی پر ایک وقیع کتاب ہے، جو کتاب ہر گھر 🏠 میں رہنی چاہیے اور ہر شخص کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے، ) دہلی کے ایک کتاب فروش اور مکتبہ کے منیجر نے بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے پوری کتاب کو ایک جلد میں کرکے اپنے نام شائع کردیا ۔ جس پر دہلی کے کورٹ میں مقدمہ بھی چلا۔
امام بخاری رح کی مشہور کتاب الادب المفرد کی ایک مشہور شرح ہے، فضل اللہ الصمد فی شرح الادب المفرد جس کے مصنف مولانا محمد علی مونگیری رح کے صاحب زادے مولانا لطف اللہ رحمانی رح ہیں، اس کتاب کو دکن حیدر آباد کے ایک مولوی صاحب نے من و عن اپنے نام سے شائع کرلیا ہے، اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں، حد تو یہ مقدمہ میں اپنی محنت اور جانفشانی کا تذکرہ بھی اپنے نام کیا ہے۔
لیکن کہیں کہیں ایسا غلط فہمی میں ہوگیا ہے۔ وہاں خیانت اور فراڈ کا شبہ نہیں کیا جاسکتا، مثلا ایک کتاب ہے، تذکار رمضان، ، جو رمضان کے موضوع پر بہت ہی قیمتی کتاب ہے، مگر اس وقت آپ کی حیرت کی انتہا نہیں رہے گی، جب آپ اس کتاب کو تین الگ الگ مصنف کے نام سے مکتبوں میں پائیں گے۔ اس کے مصنف مولانا آزاد رح ہیں، دوسرے مکتبہ نے اس کتاب کو علامہ سید سلیمان ندوی رح کے نام سے شائع کیا ہے، اور یہی کتاب علامہ عبد اللہ عمادی کے نام سے بھی چھپی ہے۔ یہ تینوں اپنے زمانہ کے عبقری لوگوں میں سے تھے، پھر ایسا کیوں ہوا۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ الھلال میں جو مضامین چھپتے تھے، اس میں اکثر اہل قلم کے مضامین بلا نام شائع ہوتے تھے۔ الھلال کے فائل سے بعد میں جب الگ الگ مضامین منتخب کرکے شائع کئے گئے، ان میں سے بعض مضامین تینوں کی طرف منسوب ہوگئے۔ کیونکہ سید صاحب اور عمادی صاحب بھی ایک مدت تک الھلال کے ادارتی بورڈ میں شریک رہے۔ یہ انتخاب کرنے والوں کی غلطی تھی۔ نہ خود ان اکابر کی۔۔۔
اخیر میں اپنے قارئین کو سالک صاحب مرحوم کے حالات زندگی سے بھی واقف کردیتے ہیں، مرزا قربان علی سالک کے حالات زندگی پر متعدد اہل علم اور اہل قلم نے تفصیلی معلومات بہم پہنچائی ہیں، خاص طور پر مالک رام نے،، تلامذۂ غالب، ، میں مستند حوالوں سے سالک کے بارے میں جو لکھا ہے، وہ بہت عمدہ اور لا جواب ہے۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سالک صاحب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رح کے نانا تھے۔ مشہور محقق ادیب اور تذکرہ نگار مولانا حکیم سید عبد الحئی رح نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف گل رعنا میں سالک کے مختصر حالات زندگی قلمبند فرمایا ہے اور ان کی شاعری کے نمونے بھی دئے ہیں۔ ان کی حالات زندگی صرف یہاں پیش خدمت ہے۔۔
قربان علی نام سالک تخلص، نواب مرزا عالم بیگ کے بیٹے، حیدرآباد میں پیدا ہوئے اور دلی میں نشو و نما پائی اور فارسی کی درسی کتابیں وہیں کے ارباب فضل و کمال سے پڑھیں، مومن و غالب بقید حیات تھے، اس زمانہ میں شعر و سخن کا گھر گھر چرچا تھا، ان کو بھی شوق ہوا، پہلے بطور خود کچھ کہتے رہے، اس کے بعد حکیم مومن خاں کی خدمت میں پہنچے، اس وقت قربان تخلص کرتے تھے، غالبا خان صاحب کے مرنے پر مرزا غالب کے یہاں رسائی پیدا کی اور سالک تخلص اختیار کیا۔ خوش مزاجی اور شگفتہ روئی کے ساتھ خدا نے ان کو ذکاوت ایسی عطا فرمائی تھی کہ چند روز کی مشق میں سخن سنجی اور سخن فہمی میں اپنے معاصرین میں بڑھ گئے اور مرزا غالب کے شاگردوں میں سب سے بہتر آنے لگے، ۱۸۵۷ء کے عالم آشوب ہنگامہ کے بعد الور میں جاکر پناہ لی اور خوش قسمتی سے وکالت کے عہدے پر سرفراز ہوگئے، ایک عرصہ تک وہاں رہنے کے بعد اپنا مسقط الراس یاد آیا اور حیدر آباد چلے گئے، وہاں محکمہ تعلیمات میں سررشتہ داری کے عہدے پر تقرر ہوگیا، اسی خدمت پر زندگی بسر کردی، حیدر آباد میں مخزن الفوائد کے نام سے ایک موقت الشیوع رسالہ عرصہ تک جاری رہا اور اس میں بہت بکار آمد تاریخی مضامین نکلا کئے، ساٹھ پینسٹھ برس کی عمر تھی کہ ۱۲۹۱ھج میں سفر آخرت اختیار کیا، اور حیدر آباد میں مدفون ہوئے، ہنجار سالک دیوان کا نام ہے، ، (گل رعنا ص، ۴۳۲.. ۴۳۱ بحوالہ متاع قلم ۴۴۸/ ۴۵۰)
ناشر / مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
0 تبصرے