Ticker

6/recent/ticker-posts

آخرت کا تصور اور خدا کا خوف نجات کی کنجی ہے

خطاب جمعہ۔۔۔۔۔۔ ۱۹/ اگست


آخرت کا تصور اور خدا کا خوف نجات کی کنجی ہے


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

وقت طلوع دیکھا، وقت غروب دیکھا
اب فکر آخرت ہے، دنیا کو خوب دیکھا

دوستو بزرگو اور بھائیو!!
اگر انسان کے اندر خوف خدا اور آخرت کا تصور پیدا ہوجائے تو وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ میں کامیاب ہوجائے گا، اخروی کامیابی تو یقینی ہے، دنیا میں بھی وہ شان و عزت کا حقدار ہوگا، خوف خدا اور آخرت کا تصور یہ مومن بندہ کے لیے کامیابی اور نجات کی کنجی ہے، اس کے بغیر مومن بندہ برائی، فساد اور گناہ اور غلطی سے بچ نہیں سکتا۔ خوف خدا کو حدیث میں اصل حکمت اور دانشمندی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ، رأس الحکمۃ مخافة اللہ، اصل حکمت اور حکمت کی جڑ خوف خدا کا ہونا ہے۔ جس شخص میں یہ دولت نہیں ہے گویا وہ سعادت و کامیابی اور شادکامی کی دولت سے محروم ہے۔

خوف خدا اور آخرت کا تصور انسان کو برائی، فساد، ظلم و زیادتی اور گناہوں سے روکتا ہے۔ آخرت کا تصور یہ وہ محور ہے، جس کے ارد گرد جملہ عبادتیں گردش کرتی ہیں۔ نماز، روزہ زکوة اور قربانی و حج اور دوسری تمام عبادتوں کا آخرت کے یقین، عند اللہ جواب دہی کے احساس اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے عقیدہ سے گہرا ربط ہے، اگر انسان کے اندر آخرت کا یقین اور جزا کی امید اور سزا کا خوف نہ ہو تو کیا یہ ممکن ہے؟ کہ موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں اور سردی کے موسم کی انتہائی سخت ٹھنڈک کے دنوں میں پنج وقتہ نماز کے لئے کوئی شخص مسجد کا رخ کر سکے گا۔

رمضان کے ایام میں گرمی کے دنوں میں چودہ پندرہ گھنٹہ بھوک پیاس برداشت کرسکے گا۔ اپنی گاڑھی کمائی میں سے زکوة و خیرات کے نام پر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا بغیر آخرت کے تصور اور خوف کے ممکن ہو سکے گا ؟۔ یہ تمام چیزیں ایک بندئہ مومن کے لئے اس لئے آسان ہو جاتا ہے کہ موت کے بعد نہ ختم ہونے والی زندگی پر اس کا گہرا یقین و ایمان ہے۔ یعنی مرنے کے بعد ہر شخص کے نیک و بد عمل کا حساب و کتاب ہو گا۔ اور اچھے اور برے لوگوں کو ان کے ہر عمل کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دیا جائے گا۔ ان تصورات کے بغیر نہ صرف عبادت بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا بھی ناممکن اور محال ہے۔ مشرکین عرب اور کفار مکہ کے سامنے بے شمار معجزات پیش کئے گئے، مگر انہیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین نہ ہوا۔ بلکہ ضد عناد، سرکشی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ یہ کہتے تھے جس کو قرآن مجید نے نقل کیا ہے :
آ إذا متنا و کنا ترابا و عظاما أ انا لمبعثون ( الواقعہ ۴۷)

کیا جب( ہم لوگ ) مر جائیں گے اور ہم مٹی بن جائیں گے، ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو پھر دوبارہ ہمیں زندہ کیا جائے گا ؟

بے شمار دلائل کی کثرت کے باوجود آخرت کے عدم تصور کی وجہ سے ایمان کی دولت سے وہ محروم رہے اور ایمان انہیں نصیب نہیں ہو سکا۔

آج معاشرہ میں خواہ وہ اسلامی معاشرہ ہو یا غیر اسلامی سماج و معاشرہ اس میں جو ظلم و ستم لوٹ کھسوٹ برائی اور بے حیائی اور گناہوں اور برائیوں کا جو سیلاب ہے، اس کی بنیادی وجہ آخرت کے تصور اور آخرت کے خوف کا کمزور ہونا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایک آدمی کے اندر خوف خدا آخرت کا تصور دوبارہ اٹھائے جانے اور سزا و جزا کا تصور اور احساس ہی سرے سے نہیں ہے تو وہ گناہ سے اور ظلم و ستم اور بری اور گندی حرکتوں سے کیوں کر اور کیسے بچے گا۔ اپنے غلط عمل اور خواہشات سے وہ کیسے رک پائے گا۔؟ لیکن اگر کسی کو یہ احساس ہو جائے کہ اگر میں ظلم کروں گا دوسروں کو ستاؤں گا دوسروں کا حق ماروں گا تو قیامت کے دن حشر کے میدان میں اس عمل کا مجھے حساب دینا پڑے گا مجھ سے بدلہ اور قصاص لیا جائے گا۔ تو یقینا وہ اپنی ان غلط حرکتوں سے باز رہے گا۔

اسی طرح اگر کسی شرابی کو اور زانی کو اس غلط حرکت کے وقت آخرت کا خوف اور تصور پیدا ہو جائے اور یہ یقین اس کے دل میں پیدا ہوجائے کہ جو ذرہ برابر بھی گناہ کرے گا اس کو اس کی بھی سزا ملے گی اور اس کو اپنے کئے کا مزہ چھکنا پڑے گا، تو وہ ان گناہوں سے یقینا بچ جائے گا اور اس کے جسم پر خوف کی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور لرزہ طاری ہو جائے گا۔ اور ان کا آرام و راحت اور سکون و اطمینان ختم ہو جائے گا۔

صحابئہ کرام رضی اللہ عنھم کے اندر آخرت کا تصور اور آخرت میں جزا و سزا کا خوف اس قدر پیوست ہو گیا تھا کہ گناہ تو دور کی بات ہے اس کا تصور بھی ان کے قریب پھٹک نہیں پاتا تھا، اور اگر بشری تقاضے اور بعض اور مصالح کی بنیاد پر کسی گناہ کا صدور ہو بھی گیا تو ایسی توبہ کی اور احساس و گریہ و زاری کا وہ سماں پیش کیا کہ فرشتوں کو بھی ان کے توبہ پر رشک آگیا۔

صحابئہ کرام کی فکر آخرت اور تصور آخرت نیز ان کے خوف خدا کی مثال )انبیاء کرام کے بعد) دنیا پیش نہیں کرسکتی وہ ولایت و تقوی اور عصمت و عفت کے اس مقام پر فائز تھے جن کی ولایت و بزرگی کی شہادت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ ان کے نیک اعمال تقوی و طہارت کی قسم کھائ جاسکتی ہے۔ لیکن جب بھی کبھی بشری تقاضے کی بنیاد پر ان سے معمولی گناہ بھئ سرزد ہوجاتا تو بے چین ہو جایا کرتے تھے۔

روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کی مشتبہ کمائی میں سے کچھ حصہ کھا لیا تھا، بھوک کی شدت کی وجہ سے تحقیق کا خیال نہ رہا، غلام نے کھا لینے کے بعد جب اطلاع دی تو سخت پریشان ہوئے اور منہ میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی اور فرمایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو جسم حرام سے پرورش پائے اس کے لئے دوزخ کی آگ بہت مناسب ہے مجھے ڈر ہوا کہ اس لقمہ سے میرے جسم کا کوئی حصہ پرورش نہ پایا جائے۔ (خلفاء الرسول بحوالہ سماج کو بہتر بنائے)

آخرت کا تصور اور خوف کا ہی نتیجہ تھا کہ جب

آخرت کا تصور اور خوف کا ہی نتیجہ تھا کہ جب بشری تقاضا اور بعض مصالح خداوندی کی بنیاد پر حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ سے زنا صادر ہوگیا تو وہ آخرت کے تصور سے بے چین ہوگئے، پہلے حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عظیم گناہ سے پاک کرنے کی درخواست کی، وہ نتیجہ سے بے خبر نہیں تھے، انہیں معلوم تھا کہ زنا کی اسلامی سزا شادی شدہ کے لئے رجم ( سنگساری کے ذریعہ ہلاک کر دینا) ہے، وہ چاہتے تو اس عمل بد کو چھپا دیتے، اس لئے کہ دنیا میں اس پردئہ راز کو انسانوں میں کوئی اٹھانے والا نہیں تھا،

کسی کی نگاہ بھی ان پر نہیں پڑی تھی کہ خبر پھیلنے کا ڈر ہو یا ذلت و رسوائی کا خوف، اسلام نے زنا کی حد جاری کرنے کے لئے چار عینی گواہوں کو ضروی قرار دیا ہے، جس کامطلقا یہاں فقدان تھا مگر کیا کیجئے۔ صحبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب ایمانی قوت، اللہ کا خوف اور آخرت کا تصور اور فکر ان کے دل و دماغ میں جو بس گئ تھی وہ ایسی چنگاری تھی جس نے ان کے چین و سکون کو چھین لیا تھا، ان کو یقین تھا کہ دنیا کی سزا اور ذلت آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی، لوگوں کی نظروں سے اگر بچ بھی گئے تو کیا حاصل ؟ تاریکی اور روشنی میں یکساں دیکھنے والی ذات خداوندی کی نظر سے نجات نہیں مل سکتی، اس لئے انہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جرم کا اعتراف و اقرار کرکیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار اعراض و انکار کے باوجود وہ اپنے عزم پر مصر رہے،

یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ صرف مردوں کے اندر ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی یقین کی یہی دولت حاصل تھی اور ان کے نزدیک بھی آخرت کا تصور اور خوف اسی طرح پایا جاتا تھا۔ حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کو سنگسار کئے جانے کے بعد حضرت غامدیہ رضی اللہ عنھا بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ٹھیک وہی صورت پیش آئی، جو حضرت ماعز اسلمی کے ساتھ پیش آئی تھی۔ آپ نے ان کو پہلی مرتبہ یہ کہہ کر واپس کردیا کہ تمہارے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کو جننے کے بعد آنا، ولادت کے بعد آئی تو آپ نے دودھ پلانے تک مزید مہلت عنایت کی، بوجھل قدموں وہ واپس ہوئیں کچھ ہی دن گزرے تھے کہ پھر اپنے بچے کے ساتھ حاضر ہوئیں، بچہ کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ جس سے بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ یہ بچہ اب اپنی ماں کے دودھ سے بے نیاز ہوچکا ہے، آپ نے اس عورت کو رجم کرا دیا، غور طلب پہلو اور امر یہ ہے کہ یہاں حضرت غامدیہ رضی اللہ عنھا پر ظاہری ایسا کوئی دباؤ نہیں تھا جس کے خوف کا انہیں احساس ہو البتہ آخرت کا تصور اور ڈر و خوف اس طرح ان کے رگ و ریشہ میں پیوست ہوئی تھی کہ راحت بے چینی میں تبدیل ہوگئی، ان کا ہر لمحہ سزا پانے کے انتظار میں گزرتا تھا، وہ اندر سے اس لئے پریشان اور گھبراہٹ میں مبتلا تھیں کہ کہیں دنیاوی سزا پانے سے پہلے ہی روح پرواز نہ ہوجائے اگر ایسا ہوا تو پھر قیامت کے دن اپنے مالک کو کیا منھ دکھائیں گے۔

کوئی شبہ نہیں کہ زنا ایک بھیانک جرم ہے، لیکن آخرت کے تصور اور خوف سے اس طرح بے چین ہونے کی مثال دنیا میں سوائے اس طبقہ کے کہیں اور نہیں مل سکتی۔ یا ایسی مثالیں بہت ہی کمیاب ہیں۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا : لقد تاب توبة لو قسمت بین امة لوسعتھم ماعز نے ایسی توبہ کی کہ اگر اس کے ثواب کو پوری امت میں تقسیم کردیا جائے تو وہ سب کے لئے کافی ہوگا۔ اسی طرح کا جملہ آپ نے حضرت غامدیہ کے بارے میں بھی فرمایا تھا۔(مسلم/ مشکوة )

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آخرت کا کس قدر خوف تھا اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو یہ محسوس ہوا کہ جب وہ حضور( صلی اللہ علیہ وسلم )کی مجلس میں ہوتے ہیں تو ایمان کی کیفیت کچھ ہوتی ہے یعنی ایمان اور آخرت کے خوف کا ٹمپریچر بڑھا ہوتا ہے لیکن جب گھر میں ہوتے ہیں تو ایمان اور خوف آخرت کی یہ کیفیت اور حالت نہیں رہتی کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ تضاد نفاق کی وجہ سے ہو اور حنظلہ منافق ہوگیا ہو قد نافق حنظلة دوڑے دوڑے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے راستے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئ گھبراہٹ تیزی سے بھاگنے اور افتاں و خیزاں چلنے کی وجہ دریافت کی؟ تو ساری سرگزشت سنا دی اور فرمایا لقد نافق حنظلة حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ارے ارے یہ کیفیت تو میری بھی ہوتی ہے۔ چلو اللہ کے نبی سے وجہ معلوم کرتے ہیں جب حضرت حنظلہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی اس الجھن اور بے چینی کو رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ تو عین ایمان کی کیفیت ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ اگر ایمان کی جو کیفیت میری مجلس میں رہتی ہے اگر وہی کیفیت گھر میں ہونے لگے تو فرشتے تمہارے بستروں پر آ آ کر سلام اور مصافحہ کرنے لگیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ رات کو بیت المال میں بیٹھے ہوئے خلافت کا کوئی کام انجام دے رہے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے اور فرمایا کہ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا کیا آپ کو خلافت کے کام سے متعلق گفتگو کرنی ہے یا اپنے کسی ذاتی و نجی مسئلہ سے متعلق، انہوں نے فرمایا مجھے اپنے ذاتی معاملہ میں گفتگو کرنی ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ، بس تو چلو کسی اور جگہ بات کریں گے۔ کیونکہ بیت المال کی روشنی میں بیٹھ کر ذاتی گفتگو درست نہیں ہے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو کھڑے ہوکر اس قدر روتے کہ ان کی مبارک ڈاڑھی تر ہوجاتی تھی، کسی نے سوال کیا آپ دوزخ اور جنت کے تذکرہ سے نہیں روتے، اور قبر کو دیکھ کراس قدر روتے ہیں، ؟ اس پر حضرت عثمان غنی نے جواب میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلا شبہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اگر قبر کی مصیبت سے کسی نے نجات پالی تو اسکے بعد سب منزلیں آسان ہوجائیں گی اور اگر اس کی مصیبت سے نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہیں۔ ترمذی شریف۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ جب نماز کا وقت آجاتا تو بدن پر کپکپی آجاتی تھی، اور چہرہ زرد پڑجاتا تھا، کسی نے سوال کیا کیا بات ہے؟ تو فرمایا، ، اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے، جس کو اللہ جل شانہ نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس کے تحمل سے عاجز ہوگئے اور میں نے اس کا تحمل کرلیا، اب دیکھنا چاہیے پوری ادا کرتا ہوں یا نہیں؟

کاش ہمارے دلوں میں خدا کا خوف اور فکر آخرت پیدا ہوجائے تاکہ ہمارے لیے گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے اور آخرت کی تیاری کی فکر میں ہم منہمک ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق بخشے آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے