Ticker

6/recent/ticker-posts

ادب گیلیکسی کی تا بندہ کہکشاں : ام ماریہ حق

ادب گیلیکسی کی تا بندہ کہکشاں : ام ماریہ حق

از قلم : ڈاکٹر مظفر نازنین ( کلکتہ)
ام ماریہ حق جنہیں ادب گیلیکسی کی تابندہ کہکشاں کہا جاسکتا ہے۔ جو اپنی ذات سے انجمن ہیں۔ موصوف بیک وقت ادیبہ، شاعرہ، artist, interior designer ہیں۔ وہ ایک artistic nature کی شخصیت ہیں۔ ام ماریہ painter کے ساتھ ساتھ interior designer بھی ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کی یہ ہر فن مولا ہیں۔ انھیں بچپن سے ہی کچھ کرنے کا شوق تھا۔ اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کا اور جب دلچسپی ذوق بدرجہ اتم موجود ہو تو قسمت ساتھ دیتی ہے۔ شادی کے بعد ان کے شوہر نے ایک مسیحا کا کردار ادا کیا اور شریک حیات کی صلاحیتوں کو جو خفیہ تھیں انہیں منظر عام پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی دامے، درمے، سخنے، فہمے ام ماریہ کے talent کو اجاگر کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کرکے بہترین رفیق حیات ہونے کا پورا پورا ثبوت دیا۔ شوہر اور بچوں کا ان کی زندگی میں ہمیشہ تعاون رہا ہے۔ ام ماریہ کی ادبی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ موصوف نظمیں بہت شاندار لکھتی ہیں اور قرتہ العین حیدر ( عینی آپا) کو پڑھا ہے۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔ ان کی تحریریں اس حقیقت کو آشکار کرتی ہیں۔

زندگی بہت مصروف ہے ۔ لیکن ام ماریہ حق کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے لیے بھی وقت نکالیں اور اپنی ذہنی تشنگی کی تسکین کے لئے بھی کچھ کریں۔ اردو کے مشہور شاعر اور ادیب نے عیش کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "جس شخص کو جس شغل کا ذوق ہے اور اگر اسے وہ بے تکلف کرے تو اسی کا نام عیش ہے"۔ ام ماریہ غالب دہلوی کے اس حسین اقتباس کی مصداق ہیں۔ یعنی ام ماریہ حق کے ذہن میں ایک خمار تھا اور وہ خمار جو انہیں ایک artist کے ساتھ شاعرہ اور مبصر کے روپ میں پیش کیا۔

While a desire is stronger and an intense feeling, this is comparatively less in case of want.


adab-galaxy-ki-tabinda-kahkasha-umm-maria-haq

ام ماریہ کو ادب اور شاعری سے والہانہ لگاؤ ہے اور بے پناہ نسبت ہے موصوف اپنی ذہنی تشنگی کی تسکین کے لیے ہمہ تن اور ہمہ وقت سرگردہ رہتی ہیں۔ ان کا نام شبینہ حق اور قلمی نام ام ماریہ حق ہے۔ ان کی پیدائش فیروز آباد جو چوڑیوں کے لئے پورے ہندوستان میں مشہور ہے یکم جولائی 1979 میں ہوئی۔ پیشے سے Interior designer ہیں۔

موصوف کی ادبی خدمات، تبصرے، مضامین اور نظمیں بھی خوب لکھتی ہیں انکی شاہکار تخلیقات ہند اور بیرونِ ہند کے اخبارات اور رسائل کی زینت بنتے ہیں ۔ ان کا ایک بہت اہم مضمون" نظیر اکبر آبادی اور ہندوستان " ہے۔ ان کے اس خوبصورت مضمون کے حسین اور دلکش پیرائے اقتسبات کو ملاحظہ کریں۔

”نظیر کی شاعری میں ہندوستانی تہذیب کی قوسِ قزح نظر آتی ہے اگرکوئی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو محسوس کرنا چاہتا ہے تو اسے نظیر کے کلام کو پڑھنا چاہیے ۔ انکی شاعری میں ہندوستان سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اس کی تہذیبی دھڑکن کو صاف طور پر سنا جا سکتا ہے"۔ ام ماریہ کے تبصرے بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اپنے تبصروں میں جملے، محاورے اور استعارات کا بہت خوبصورتی سے استعمال کرتی ہیں ۔ ان کے تبصروں کے بارے میں کہ سکتے ہیں کہ جیسے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہو۔

معروف شاعر راشد طراز صاحب کی غزلوں کا مجموعہ "صبح ازل" کا تبصرہ کرتے ہوئے موصوف یوں رقم طراز ہیں "راشد صاحب کی شاعری لب و لہجے سے مزین ہے۔ ان کی پیکر تراشی ایک مثال ہے جو قاری کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے“۔

ام ماریہ کی ایک نظمیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں ان کی ایک نثری نظم قارئین کی فن شناس نظروں کے حوالے۔

یادوں کی لائبریری

میرے ذہن کی لائبریری میں
کچھ کتابیں سجی ہیں
یادوں کی
جن کے اوراق پر میں نے
ماضی کے کچھہ لمحے
وقت سے چرا کر
تہہ در تہہ تحریر کئے ہیں
جب بھی !
فرصت کے خوشنما جھونکے
ان کتابوں سے ٹکراتے ہیں
ہر صفحے کی منجمد یادیں
ذہن قرطاس پر پھیل جاتی ہیں
گیلی مٹّی کی
سوندھی خوشبو بن کر
کبھی میری روح سے
لپٹ جاتی ہیں
اور کبھی آنکھوں میں
سلگتے منظر دے کر
درد کے کالے بادل بن کر
پرانے زخم پھر سے
ہرے کر جاتی ہیں!!

ام ماریہ حق

تمام زاویوں سے تجربہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ام ماریہ حق کا قلم اردو ادب اور شاعری میں پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ بارگاہ ایزدی میں سر بجور ہو کر دعا کرتی ہوں کی خدا ان کے قلم کو مزید لغویت بخشے۔ آج جہاں شیریں زباں اردو کے پڑھنے والوں کا دائرہ محدود ہے ۔ اس ضمن میں ام ماریہ حق ادب اور شاعری کی بے لوث خدمت کر رہی ہیں۔ اردو کی یہ کہکشاں آسمان ادب پر جلوہ نما ہے اور اپنی ضیاء پاشیوں سے اردو ادب اور شاعری کو روشن کر رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کی فروغ اور بقا کے لئے ایسی ادیبہ اور شاعرہ کی پزیرائی کی جانی چاہیے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ آج ادب کے قدرداں اور قدر شناس بھی عنقا ہیں ۔ اس ضمن میں ہمیں ادب کے اس ذرّ نایاب کی حوصلہ افزائی قدر ضرور کرنی چاہیے جو ان کا حق ہے۔ کیوں کہ اپنی شناخت کے لئے اور اپنے کریر کے لیے خواتین کو مردوں کی بنسبت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔

آخر میں میری نیک خواہشات اور دعائیں ہیں خداۓ پاک رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کی ان کی کتاب منظرعام پر آئے اور ام ماریہ ماہ کامل بن کر آسمان ادب پر روشن رہیں۔ ان کے لیے میر کا یہ شعر صادق آتا ہے۔۔۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا فلک برسوں 
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
_ _ _

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے