Ticker

6/recent/ticker-posts

ڈاکٹر احسان عالم کی شاہکار ادبی کاوش: ’’آئینۂ تنقید‘‘

Ahsan Alam

ڈاکٹر احسان عالم کی شاہکار ادبی کاوش: ’’آئینۂ تنقید‘‘

مظفر نازنین، کولکاتا
سب سے پہلے میں ڈاکٹر احسان عالم صاحب کی بے حد شکر گذار ہوں کہ انہوں نے اپنی شاہکارتخلیق ’’آئینۂ تنقید‘‘ مجھے بذریعہ ڈاک ارسال کیا۔ دنیائے اردو میں ڈاکٹر احسان عالم محتاج تعارف نہیں۔ موصوف اپنی ذات میں انجمن ہیں۔

Photo Aina-e-Tanquid

ان کی زیر نظر کتاب ’’آئینۂ تنقید‘‘512صفحات پر مشتمل ہے۔ جو اردو داں طلبا و طالبات کے لئے مشعل راہ ہے۔ ’’آئینۂ تنقید‘‘جو تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کے آخری صفحے پر معروف ناقد، اردو کے معروف اسکالر حقانی القاسمی صاحب کے تاثر ہیں۔ جبکہ پہلے فلیپ پر پروفیسر علیم اللہ حالی اور آخری فلیپ پر ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی (صدر شعبۂ اردو، پٹنہ یونیورسٹی ) کے تقاریظ شامل ہیں۔

معروف اسکالر حقانی القاسمی صاحب یوں رقمطراز ہیں:

’’ابھی ان کی زنبیل کو کچھ اور لعل و گہر، یاقوت و مرجان کی ضرورت ہے۔ جوں جوں ان کا تخلیقی شعور مزید پختہ ہوتاجائے گا ان کی تخلیقی زنبیل فکری زر و جواہر سے معمور ہوتی جائے گی اور پھر جو در گنجینۂ گوہر کھلے گا تو دیکھنے والے عش عشق کرتے رہ جائیں گے۔ ‘‘

ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی لکھتے ہیں:

’’مختلف اور متنوع موضوعات پر ان کی تنقیدی تحریروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے امتیازی جوہر سے اس دنیا میں ایک اہم جگہ ضرور حاصل کرلیں گے۔ ‘‘

جبکہ پروفیسر علیم اللہ حالی لکھتے ہیں :’’ڈاکٹر احسان عالم کے یہاں مختلف موضوعات کی پیشکش کے عواقب میں انسانی فلاح و مسرت کا عنصر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘

زیر نظر کتاب ’’آئینۂ تنقید‘‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔ اور موصوف نے اسے شعر وادب کی مایہ ناز ہستی پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کے نام منسوب کیا ہے۔ سرورق نہایت خوبصورت، کاغذ دیدہ زیب ہے۔ اس کی طباعت روشان پرنٹرس دہلی میں ہوئی۔ کتاب میں کل 28مضامین شامل ہیں اور یہ کتاب لاک ڈائون کے زمانے میں تصنیف کی گئی ہے۔ ان میں کچھ مضامین ان عظیم شخصیتوں پر ہیں جو آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ جن میں حکیم اجمل خاں، علامہ اقبال، مرزا غالب، شاد عظیم آبادی، بہادر شاہ ظفر، مولانا ابوالکلام آزاد، فراق گورکھپوری، سعادت حسن منٹو، مرزا یاس یگانہ چنگیزی، سرسید احمد خاں، راجندر سنگھ بیدی، سجاد حیدر یلدرم، قرۃ العین حیدر، صالحہ عابد حسین، فیض احمد فیضؔ، شین مظفرپوری، کلیم عاجز، پروفیسر منصور عمر قابل ذکر ہیں۔ جبکہ چند عصر حاضر کی شخصیتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ جن کے کارنامے اردو کی ترقی و ترویج، فروغ و بقا کے لئے معاون ہیں۔ ان شخصیتوں میں رفیع الدین راز، پروفیسر عبدالمنان طرزی، پروفیسر ظفر حبیب، پروفیسر محمد آفتاب اشرف، جمال اویسی اور منصورخوشتر ہیں۔

سب سے پہلا مضمون ’’حکیم اجمل خاں : مختصر سوانح حیات اور کارنامے‘‘کے عنوان سے ہے۔ صفحہ 12پر موصوف یوں رقمطراز ہیں:

’’وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ملک میں مدرسہ طبیہ زنانہ قائم کیا۔ اس سلسلے میں دو مقصد ان کے پیش نظر تھے۔ ایک یہ کہ ناواقف اور غیر تعلیم یافتہ دائیوں کے ہاتھوں ولادت اور زچگی کے دوران بڑے عوارضات پیدا ہوتے ہیں۔ اور وضع حمل کی خرابیوں کا زچہ اور بچہ دونوں کی صحت پر خراب اثر پڑتا ہے۔ نسوانی امراض کی بڑی وجہ وضع حمل کی پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ حوالے سے Gynacologyمیں بھی ا س حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے۔

There are a number of complications of the delivery is conducted by untrained dais.

دوسرا مضمون بعنوان ’’علامہ اقبال : مختصر سوانح حیات اور شخصیت ‘‘ہے۔جس میں شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ اقبال کی حیا ت اور خدمات او ر فکر وفن کا جائزہ لیا گیا ہے۔ صفحہ 28پر علامہ اقبال کا یہ شعر ہے جو مسلمانان کرام کی عظمت کی ترجمانی کرتا ہے:

مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں

علامہ اقبالؔ کا یہ خوبصورت سا شعر صفحہ 35پر ہے جو علامہ نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد لکھا تھا۔ والدہ کی انتقال کے بعد اقبال شدید صدمے سے روبرو ہوئے۔ اور اس درد و کرب، رنج و الم کے ماحول میں ایک نظم بعنوان ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ لکھی تھی۔ جس کے چند اشعار قارئین کی بصارتوں کے حوالے کرتی ہوں:

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟

خاکِ مرقد پر تری لے کے یہ فریاد آئوں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آئوں گا

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کا قابل جب ہوا تو چل بسی

صفحہ 86پر ’’بہادر شاہ ظفر کی حب الوطنی سے سرشار شاعری‘‘ کے عنوان سے ایک بہت اہم اورخوبصورت مضمون ہے۔ اس مضمون سے اس سنہرے ماضی کی عکاسی ہوتی ہے جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ پرانی بساط کے مہرے الٹ رہے تھے۔ بہادر شاہ کا دل حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھا:

اے ظفرؔ اب ہے تجھی تک انتظام سلطنت
بعد تیرے نَے ولی عہد، نہ نام سلطنت

جوں بوئے گل رفیق نسیم چمن ہیں ہم
اے دوستوں وطن میں غریب الوطن ہیں ہم

اور پھر صفحہ 104پر یہ شعر ملاحظہ کریں:

نہیں حال دہلی سنانے کے قابل
یہ قصہ ہے رونے رولانے کے قابل

نہ گھر ہے نہ در ہے رہا ایک ظفرؔ ہے
فقط حال دہلی سنانے کے قابل

’’مولانا ابوالکلام آزاد۔ بلند خیالات دلکش تحریریں‘‘کے عنوان سے ایک پُرمغز مضمون شامل ہے۔ ڈاکٹر احسان عالم کے تحقیق کا موضوع مولانا آزاد کانظریۂ تعلیم رہا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد پر ان کی دو کتابیں ’’مولانا ابولکلام آزاد : فکر و نظر کی چند جہتیں‘‘ اور ’’مولانا ابوالکلام آزاد اور ان کا نظریۂ تعلیم‘‘ منظر عام پر آچکی ہیں اور قارئین کے درمیان کافی مقبول ہوئی ہیں۔مولانا آزاد کے سلسلہ میں موصوف لکھتے ہیں:

’’مولانا ابوالکلام آزاد ایک عظیم دانشور، مفسر قرآن، بے باک صحافی، صاحبِ طرز ادیب، مفکر، مجاہد جنگ آزادی اور ملک کے سچے سپوت تھے۔ مولانا نے اپنے پیچھے بے شمار نگارشات چھوڑی ہیں۔ ان نگارشات کے مطالعے سے مولاناکی صلاحیتوں اور افکارکے کئے گوشے سامنے آتے ہیں۔ ان کی تحریر میں اتنی حسین بندش، الفاظ کا ایسا پرشکوہ جلال اور اس کے سات ساتھ ایسی سلاست اور برجستگی ہوتی ہے کہ چاہے نہ چاہئے قاری اپنا دل نکال کر رکھ دینے پر مجبور ہوجاتاہے۔‘‘

اس کتاب میں ہر مضمون کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جن میں ’’فراق گورکھپوری : شخصیت اور شاعری‘‘، ’’سعادت حسن منٹو: ایک منفرد ڈراما نگار‘‘، ’’کرشن چندر: اردو افسانے کا روشن باب‘‘، ’’مرزا یاس یگانہ چنگیزی بحیثیت شاعر‘‘، ’’سرسید احمد خاں اور اردو ادب‘‘، ’’راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری ‘‘، ’’سجاد حیدر یلدرم اور اردو نثر کی روایت‘‘ کافی ہم ہیں۔ ان مضامین کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا مصنف نے مضمون کا پورا حق ادا کردیاہے۔

جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ا س کے ہر پہلو کو اجاگرکرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ جہاں ایک طرف موصوف نے ’’قرۃ العین حیدر کے افسانوں کامنفرد انداز‘‘ اور ’’صالحہ عابد حسین کے ناولوں میں زندگی کی عام حقیقتوں کی عکاسی‘‘ افسانہ نگاری اور ناول نگاری کے حوالے سے بھرپور جائزہ لیا ہے۔ وہیں ’’کلیم عاجز کی شاعری‘‘کے عنوان سے اس مضمون میں درد و رنج، مصائب و آلام سے لبریز، منفرد لب و لہجے کے شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز کی شاعری کے حوالے سے بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ ان کی زندگی درد والم سے لبریز ہے۔ ذیل کے چند اشعار صفحہ 325پر اس طرح رقم کیا ہے:

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا، یہی روگ ہم نے پالا

میں ہرے بھرے چمن میں وہ شکستہ شاخ گل ہوں
نہ خزاں نے جس کو تھاما، نہ بہار نے سنبھالا

’’پروفیسر منصور عمر کی انفرادی شاعری‘‘، ’’رفیع الدین راز: ایک کثیر الجہات شاعر‘‘، ’’پروفیسر طرزی کے تابندہ نقوش‘‘، ’’پر وفیسر مناظر عاشق ہرگانوی : ایک کثیر الجہات قلم کار‘‘، ’’پروفیسر ظفر حبیب : ایک معتبر شاعر اور بہترین افسانہ نگار ‘‘، ’’پروفیسر محمد آفتاب اشرف: تخلیقات کے آئینے میں‘‘، ’’جمال اویسی کی نظمیہ شاعری :کلیات نظم ’’نقش گریز‘‘ کی روشنی میں۔ وہ تمام عناوین کے تحت بہترین مضامین لکھ کر گویا احسان عالم نے مشاہیر ادب کا ایک پلیٹ فارم تیار کردیا ہے۔ آخری مضمون ’’منصور خوشتر جواں عمر، کارنامے بڑے‘‘ کافی اہمیت کا حامل ہے۔

نئی نسل کے قلمکاروں میں ڈاکٹر منصور خوشتر کا نام کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر احسان عالم نے ان کی ادبی خدمات کے بارے میں لکھا ہے:

’’ڈاکٹر منصور خوشتر نے اپنے حوصلوں کی وجہ سے ایک لمبی اڑان بھری ہے۔ تصنیفات و تالیفات کے علاوہ انہوں نے سماجی کاموں، سیمیناراور سمپوزیم میں دلچسپی لی ہے۔ صبح سویرے جاگنے کے بعد دن کو مصروفیات کی نذر کرنا ان کا شیوہ ہے۔‘‘

 آج ضروری اس بات کی ہے کہ نئی نسل کے شعراء، ادبا اور مشاہیر اہل قلم کو منظر عام پر لایا جائے جن کے ہاتھ میں اردو کا علم ہے کیونکہ زبان کی آبیاری، اس کی فروغ اور بقامیں نئی نسل کا اہم کردار ہے۔

پوری کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بہت مختصر ہے ورنہ اگر اس کتاب ’’آئینۂ تنقید‘‘ پر تفصیل طور پر جائزہ لیا جائے تو ایک نئی کتاب شائع ہوسکتی ہے۔

میں ڈاکٹر احسان عالم کو ان کی تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’آئینہ تنقید‘‘ پر صمیم قلب سے پرخلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ میری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں اور اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ ڈاکٹر احسان عالم اپنی تخلیقی سفر جاری رکھیں گے اور جولان گاہ ادب میں نئی راہیں نکالیں گے۔ ان شاء اللہ۔

ان کی اور بھی کتابیں منظر عام پر آئیں گی جن سے اردو والے مستفیض ہوں گے۔ میں ان کی صحت کے ساتھ طویل عمر کی دعا گو ہوں۔
٭٭٭

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے