Ticker

6/recent/ticker-posts

ایسا کیوں ہورہا ہے؟

ایسا کیوں ہورہا ہے؟


اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی
دنیا کا منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ حالات ایک دوسرے پر اس طرح سبقت لے جانے میں مصروف ہیں جیسے سمندر ی لہریں ایک دوسرے پر چڑھی جاتی ہیں۔ کل کا سورج دنیا کے ایک نئے رنگ پر طلوع ہوا تھا، آج کا سور ج ایک اور رنگ پر اورپتہ نہیں کل کا سورج کس رنگ پر طلوع ہوگا۔ ایک طرف سائنس حیرت انگیز ترقی کرتی جارہی ہے اور انسانیت کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازتی جارہی ہے کہ جس کا تصور بھی ایک دور میں محال تھا۔ ہزاروں سال پہلے ہوئے کائناتی اتھل پتھل کو جیتی جاگتی تصویروں کی شکل میں پیش کر کے سائنس نے اس امر کو یقینی بنا دیا ہے کہ وہ بہت جلد کائنات کے بہت سے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھانے والی ہے جس سے چونکا دینے والے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ وقت کی رفتار کو اپنے بس میں کرنے اور انسانی زندگی کو آسائشوں سے آراستہ کرنے کے لئے ایجادات کا ایک سیل رواں ہے جو روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کہانیوں اور داستانوں میں پڑھی سنی جانے والی باتیں جیسے جام جم، جنت کی آسائشیں وغیرہ آج اسی دنیا میں حقیقت کا روپ دھارے بصارتوں کو حیرت زدہ کرنے لگی ہیں۔ آن واحد میں صرف اپنی انگلیوں کو تھوڑی سی حرکت دے کر انسان اپنے سے ہزاروں کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے شخص سے نہ صرف بات کرسکتا ہے بلکہ اس کو روبرو دیکھ بھی سکتا ہے۔ مٹھی کے اندر سماجانے والے ایک چھوٹے سے آلے میں لاکھوں کتابوں کو نہ صرف محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ وقت ضرورت ایک اور مختصر سے آلے میں ان ہزاروں صفحات کے کتابوں کا بغیر کسی دقت کے مطالعہ بھی کرسکتا ہے۔ ایک سمت مادی ترقی کا یہ معراج کہ زمانہ انگشت بدنداں ہے اور دوسری طرف۔

دوسری طرف انسان اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ تقریباً ہو چکا ہے۔ اقتدار کی ہوس میں اتنا اندھا ہو چکا ہے کہ جس سائنس کے سہارے وہ دنیا کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے اور ایک نہج سے بنا بھی رہا ہے اسی سائنس کے ذریعہ اپنے ہی جیسے جیتے جاگتے انسانوں پر جہنم کے دروازے کھول رہا ہے۔ ہر روز جنگ اور تباہی کے لئے نئے نئے ہتھیار بنا کر اپنے سے کمزور انسانوں پر دھاک جمانے کو اپنا بہت بڑا کارنامہ سمجھنے پر تلا ہوا ہے۔ کہیں زمین کو لے کر جنگ بھڑکا رہا ہے تو کہیں مذہب کے نام پر خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ کہیں رنگ اور نسل کی برتری کے خمار میں مبتلا ہوکر ظلم و ستم کے قہر برپا کررہا ہے تو کہیں دولت اور طاقت کے گھمنڈ میں انسانی قدروں کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے۔ کہیں دانشمندی اور اربابِ حل وعقد ہونے کی زُعمِ قیصریت میں مبتلا ہو کر ایسے قانون وضع کررہا ہے کہ جس سے انصاف کا جنازہ نکل جائے تو کہیں کار خیر اور نیکی کے خلاف سد راہ بن کر اپنے آپ کو نام نہاد اصولوں کا خدائی فوجدار ثابت کرنے پر اڑا ہوا ہے۔

ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ایک سمت ترقی کا ساتواں آسمان تو دوسری سمت تنزلی کا پاتال، ایسا کیوں؟ یہ الگ بات ہے کہ آج کا انسان علم کے اعتبار سے جتنا وسیع اور قوی ہے اتنا کسی دور میں نہیں تھا۔ اچھائی اور برائی کا تصور آج کی دنیا میں جتنا واضح اور منطقی طور پر ثابت ہے اتنا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ مذہب اور فلسفہ جو ازل سے انسانی اخلاقیات کے گیسو سنوارنے میں مصروف رہے آج اپنی تکمیل کے معراج پر ہیں۔ تمام مذاہب چاہے وہ سامی نسل سے نکلی ہوئی ہوں یا حامی نسل سے اور اسی طرح فلسفہ کے تمام مکتبہء فکر اپنے اپنے مبلغین کا ایک جم غفیر لے کر دنیا کے چپے چپے میں پہنچ کر انسانی آبادی کے کوچے کوچے میں اپنی فکر کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ ان سب کی تبلیغ کا بنیادی نقطہ ایک ہی ہے کہ کسی طرح انسانوں میں آپسی محبت، بھائی چارگی اور خیر سگالی کا جذبہ عام ہوجائے۔ انسان فساد اور جنگ سے رک جائے اور دنیا بھر میں امن وامان کا بول بالا ہو۔ لیکن کہیں بھی کسی بھی زاویے سے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسا کیوں؟

ان سارے سوالوں کا ایک ہی جواب اور ایک ہی سبب ہے، جس کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے اور جس کے فقدان کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں جارہی ہے وہ ہے موجودہ دور کے انسانوں میں جذبہء اخلاص، اور اس جذبے کی شدید کمی۔ اس جذبہ کے فقدان کی وجہ سے انسانوں کے درمیان آپسی نااتفاقی، ناچاقی اور بد گمانی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر طرف شر اور فساد کا دور دورہ ہے۔ انسانوں کے درمیان پائے جانے والے تمام گروہ جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یا فلاسفہ کے کسی بھی مکتبہء فکر سے اپنے فکر کے ساتھ جذبہ ء اخلاص کے فقدان کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف شدید نفرت کا علم بلند کئے ہوئے، ایک دوسرے کو تباہ کرنے کا ارداہ لئے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، حالانکہ اس کی وجہ سے خود بھی تباہی کے گہرے غاروں کی طرف رواں دواں ہیں جس کا احساس بھی انہیں نہیں ہے۔ مادی سوچ اور فکر نے ان کے ذہنوں کو اتنا پراگندہ کر دیا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کا مادی فائدہ چاہتے ہیں، اپنی انا کی تسکین چاہتے ہیں۔ بغیر مادی فائدے اور انا کی تسکین کے وہ کار خیر کی فضاؤں میں سانس لینا بھی عبث سمجھتے ہیں۔ آج ان بد ترین حالات میں بھی اگر یہ مبلغین خلوص کے ساتھ اپنے مشن سے جڑ جائیں، اور اس سچائی کو سمجھ لیں جو ان سب کے تبلیغ میں مشترک ہے تو یقینا دنیا امن و امان کا گہوارا بن سکتی ہے۔ کاش ایسا ہوجائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے