Ticker

6/recent/ticker-posts

ہمیں ایسے فیصلے کی امید نہیں تھی

ہمیں ایسے فیصلے کی امید نہیں تھی

محمد قمر الزماں ندوی

تیغ منصف ہو جہاں دار ورسن ہو شاہد
بےگناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

گزشتہ سوموار کو پورا ہندوستان بلا تفریق قوم و مذہب پندرہ اگست یوم آزادی کی مناسبت سے 75/ واں جشن یومِ آزادی بنام 'امرت مہتسو' منا رہا تھا، بوڑھے،جوان اور بچے بچے کی زبان پر آزادی کے نغمے تھے، پروگراموں کی بھرمار تھی، جنگ آزادی کےسورماؤں کا تذکرہ ہو رہا تھا، گلی کوچے ہر جگہ خوشی اور جشن کا سماں اور ماحول تھا۔۔۔۔

گھر گھر ترنگا کا ہدف تھا،جس ہدف کو پانے کی کوشش کی گئی۔اور وزیر اعظم نریندر مودی جی لال قلعہ کی تاریخی فصیل سے قوم کو خطاب کرتے ہوئے خواتین کی عزّت اور حقوق کی باتیں کررہے تھے، بقول شخصے،، وزیراعظم جی ایک جانب ناری سماج کی تلقین کرتے ہیں، تو دوسری طرف ان ہی کی پارٹی ناریوں کا اپمان کرنے والوں کی رہائی کا راستہ صاف کرتی ہے۔ لوگوں کو احساس ہوگیا ہے کہ وزیراعظم جو بول رہے ہیں، اس پر نہ تو وہ خود عمل کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی پارٹی ان پر کاربند ہوتی ہے۔ اس لیے بھاری بھرکم سنسکرت آمیز ہندی پروچن کو اب لوگ بس ایک انتخابی جملہ سمجھنے لگے ہیں اور اس طرح ان کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو محض بھاشن ہے اور بھاشن سے بھلا حقیقت کا کیا تعلق؟؟.-

ابھی غالبا خواتین کی عزت و احترام پر پروچن دے کر نیچے نہیں اترے ہوں گے کہ عین۔۔۔۔۔


اسی وقت ریاست گجرات کی بی جے پی حکومت نے اجتماعی زنا بالجبر کے 11 مجرموں کو، جو جیل میں عمرقید کی سزا کاٹ رہے تھے، رہا کرنے کا اعلان کردیا گیا،یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے 2002 میں گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران، جب ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تھا، بڑی سفّاکیت کا مظاہرہ کیا تھا، انھوں نے ایک خاندان کے 7 بے قصور افراد کو بے دردی سے قتل کیا تھا، بلقیس بانو نامی خاتون پر، جس کی عمر اس وقت21 برس تھی اور جو 5 ماہ کی حاملہ تھی، اجتماعی طور سے جنسی تشدّد کیا تھا اور اس کی تین سالہ معصوم بچّی کو اس کی گود سے چھین کر فرش پر پٹخ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا تھا، ان انسانیت سوز افعال کے مرتکب ملزموں کو جنوری 2008 میں ممبئی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی، جسے بعد میں ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

ایسے حیوانوں اور درندہ صفت شیطانوں کو عام رہائی کی پالیسی کے تحت آزاد کرنا یوں بھی انتہائی غیر منصفانہ غیر عادلانہ عمل تھا، جس کی امید جمہوری ملک کے کسی عدلیہ یا منتظمہ سے نہیں کی جاسکتی تھی، اس لیے کہ یہ سراسر عدل و انصاف کا خون ہے، ہمدردی محبت اور لطف و کرم کا اظہار ظالموں، قاتلوں اور زانیوں سے نہیں، بلکہ مظلوموں سے کرنا شرافت، مانوتااور انسانیت کا تقاضا ہے، لیکن جو چیز خون کے آنسو رُلانے والی ہے، اور جس نے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا،وہ ایسا ردّعمل ہے، جو اس موقع پر سماج کے ایک طبقے کی طرف سے سامنے آیا ہے، انھوں نے جس رویّے اورفطرت و جبلت کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے،

جیل سے رہائی کے موقع پر ان مجرموں کا پُرجوش استقبال کیا گیا، انہیں ٹیکے لگائے گئے، انہیں پھولوں کا ہار پہنایا گیا،ان کا استقبال کیا گیا، پھر انہیں وشو ہندو پریشد کے دفتر لے جایا گیا اور وہاں ان کی خاص انداز میں گُل پوشی کی گئی،ایک وزیرِ باتدبیر نے تو یہاں تک فرمادیا، کہ یہ لوگ 'برہمن' یعنی سماج کے اونچے طبقے کے لوگ ہیں اور اچھے سنسکار والے ہیں، اس رویّے سے سماج کے سربرآوردہ طبقے کی اخلاقی پستی کی انتہا کا اظہار ہوتا ہے،،جو سماج اخلاقی، فکری اور ذہنی اعتبار سے اس حد تک کِرم خودرہ اور کھوکھلا ہوجائے، اسے ہلاک اور تباہ و برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا،اس کا بہت جلد موت کے گھاٹ اتر جانا یقینی ہے۔جس ملک میں حیوان صفت انسانوں کو عزت اور سمان دیا جائے اور جہاں ظالموں کی عزت و توقیر کی جائے اور ان کو کلن چٹ دے کر کھلم کھلا جشن اور خوشی کا اظہار کیا جائے، وہاں خدا کی ناراضگی اور خدا کا غضب کب بھڑک جائے کہا نہیں جاسکتا، ؟ اس لیے ظالموں کو ان کے کیے اور کرتوت کی سزا ملنی چاہیے، انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے، نہ کہ ان کی تائید اور ہمت افزائی ہونی چاہیے۔

ان درندوں کے کرتوت جتنے گھناؤنے ہیں ان کی رہائی کا عمل اتنا ہی بلکہ اس سے زیادہ گھناؤنا ہے۔ اسی لیے تو سماج کا اکثریتی پڑھا لکھا اور ذی ہوش طبقہ بھی اس فیصلہ پر خوش نہیں ہے، بہت سے لوگ اس پر آواز اٹھا رہے ہیں اور اس پر دوبارہ غور کرنے کو کہہ رہے ہیں۔

یوم آزادی کے دن ہی مدھیہ پردیش حکومت نے ایک مسلمان ایکٹوسٹ زید پٹھان کو بدنام زمانہ قانون قومی سلامتی ایکٹ این ایس اے کے تحت گرفتار کرلیا۔ زید پٹھان ایک سوشل ایکٹوسٹ ہیں، جنہوں نے کورنا وائرس یعنی کووڈ کے دوران بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، ان کا جرم یہ بتاتے ہیں کہ کچھ ماہ قبل جب صوبے کی بی جی پی حکومت نے مسلمانوں کے گھر 🏡🏠🏨 مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر بھیجے تھے، تو ان کے سامنے کھڑے ہوگئے تھے۔ زید پر نفرت پھیلانے اور نفرت انگیز پوسٹ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

عین اسی دن جب ہندوستانی مسلمان بالخصوص مدارس اسلامیہ کے طلبہ گھر گھر ترنگا کی اپیل پر عمل کر رہے تھے اور ضرورت سے زیادہ دیش بھکتی ثابت کر رہے تھے، صوبہ اترپردیش کے مظفرنگر میں ہندو مہا سبھا کے لوگ مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی تصویر کے ساتھ ریلی نکال رہے تھے۔

یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ کتنے مسلم نوجوانوں کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردی جارہی ہیں،( خالد عمر، امام، صدیق کو مثال کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔۔۔۔ )

جب کے ان پر صرف یہ الزام ہے کہ سی اے اے مخالف تحریک میں ان کی شمولیت ہوئی تھی، ان کے مقابلے میں گجرات کے ان درندوں کا جرم ہزار گنا زیادہ ہے۔

یہ تینوں واقعات بتا رہے ہیں کہ اب ملک کی تصویر بدل چکی ہے، یہاں مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا پن کھلے عام ہورہا ہے، ان کو بے وقار اور بے وقعت کرنے کی پوری پلانگ ہے، انہیں رسوا کرنے کے لیے قومی جشن کے موقع پر ایسے فیصلے لیے جاتے ہیں،عدالت بھی مسلمانوں کے ساتھ اور ان کے حق میں کھڑی نہیں ہے، موجودہ فیصلہ نے مسلمانوں کو بہت تشویش میں ڈال دیا ہے، اس فیصلہ سے انہیں سخت دھکا لگا ہے، اب تو وہ یہ کہنے لگے ہیں کہ

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہو شاہد
بے گناہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

ہم لاکھ دیش بھکتی ثابت کریں، جتنے بھی قومی ترانہ گائیں اور ناچ کود کر قومی جشن منا لیں، اس سے کام چلنے والا نہیں ہے،جب تک کہ ہمیں انصاف نہیں ملتا، ہمیں امن و شانتی نہیں ملتی، ہمیں ہمارا حق نہیں ملتا۔

ہمارا فرض ہے کہ اس وقت تک ہم سب اپنے حقوق کے لیے جمہوری لڑائی لڑتے رہیں جب تک ہمیں ہمارا حق نہیں ملتا،ہمیں عزت احترام اور وقار نہیں ملتا۔ ہندوستان کے امن پسند بردران وطن کو بھی اس کارواں میں شریک کریں اور انہیں بتائیں اور باور کرائیں کہ یہ ملک کدھر جارہا ہے، یہاں کی دریا اور گنگا جمنی تہذیب کس سمت جارہی ہے، اس ملک میں امن و شانتی اور انصاف کو کیوں گہن لگ گیا ہے؟؟۔ آئیے ہم سب مل کر اس ملک کو پرانے دھارے پر لاتے ہیں، جہاں انصاف کی حکمرانی ہو، جہاں ہندو کے ہاتھ پر سکھ عیسائی اور مسلمانوں کا ہاتھ اور سہارا ہو جہاں سب مل کر بھائی بھائی کی طرح رہتے ہوں، جہاں ہر شخص کو اپنے مذہب اور کلچر پر عمل کرنے کی آزادی ہو، جہاں ہر ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو۔ ایسا ہندوستان پھر کیسے بنے ؟ اس کی فکر ہم سب کو کرنی ہے۔۔

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے تذکرے ہیں گوشے گوشے میں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے