Ticker

6/recent/ticker-posts

جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی مہیا کردہ، کائنات کی تصاویر

جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی مہیا کردہ، کائنات کی تصاویر

images-of-the-universe-provided-by-the-james-webb-space-telescope-in-urdu

اور دنیا کا موجودہ سیاسی معاشی اور مذہبی منظر نامہ، ایک مماثلت


اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

آجکل جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے بڑے چرچے ہیں۔ اس ٹیلی سکوپ کے ذریعے انسان نے پہلی مرتبہ کائنات کی کچھ واضح تصاویر دیکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اربوں،کھربوں کہکشاں اور ان میں ان سے زیادہ ستارے، ہمارا شارع ابیض یعنی ملکی وے اور اس کے ایک کونے میں ہمارا نظام شمسی، ان سب کے علاوہ کروڑوں چھوٹے بڑے سیاہ شگاف یعنی بلیک ہول۔ روشنی کی رفتار سے ہم تک پہنچنے والے ان مناظر کی تصاویر کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ ہم ان تصاویر سے جن چیزوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ فی الوقت ویسے نہیں ہیں جیسے نظر آرہے ہیں، ان میں کئی اپنی زندگی پوری کر کے مر چکے ہیں اور فنا ہو چکے ہیں یا کئی اپنی ہیئت بدل چکے ہیں۔ یعنی ان تصاویر میں جو کائینات ہمیں نظر آرہی ہے ان میں اور جو موجود ہے اور ہوگی ان میں ناقابل یقین تبدیلی پیدا ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب ہے سائنس کی تیز رفتار ترقی کے باوجود آج بھی ہم کائنات کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے سے معذور ہیں۔ یعنی ہمیں جو نظر آرہا ہےوہ، وہ ہے نہیں اور جو حقیقت میں ہے ہم اسے دیکھنے سے معذور ہیں اور یہ بات اب ایک ثابت شدہ امر ہے۔

قدرت کا ازل سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ وہ جب بھی کوئی بات سامنے لاتی ہے چاہے وہ بظاہر فطری لگے یا انسانی کوشش کا نتیجہ اس کا اس زمانے اور وقت سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ در حقیقت وہ اپنے اس اصول کے ذریعے انسانوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ ہوشیار ہو کر اپنے رویوں اور اعمال کو اس آگہی کے مطابق ڈھال لیں تاکہ انہیں کوئی بڑا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ یہ فطرت کی طرف سے دی جانے والی ایسی آگہی ہے جس کی تہہ تک کوئی بھی انسان معمولی سوجھ بوجھ کے ساتھ بھی پہنچ سکتا ہے۔ اب جو یہ تحقیق سامنے آرہی ہے کہ ہمیں نظر ۤآرہی چیز اور اس کی اصلیت میں بہت واضح فرق ہے، اس کا بھی موجودہ زمانے سے گہرا رشتہ ہے۔ دور جدید کے انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کو (چاہے ان کا تعلق دینا کے کسی بھی خطے، رنگ و نسل اور عقیدے سے ہو)اگر اس نظریے سے پرکھا جائے تو وہ اس تحقیق کوسچ ثابت کرتی نظر آئے گی کہ اس کے اعمال اور اس کے افکار میں کوئی مماثلت نہیں ہے اور وہ جو نظر آرہی ہے یا نظر آنا چاہ رہی ہے اورجو وہ حقیقت میں ہے اس میں دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔

گویا موجودہ زمانے کا منظر نامہ منافقت کی چوٹی پر ہے۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ سے حاصل ہونے والی تصویروں کی طرح موجودہ دور کے انسانوں کی اس حقیقت کو آج کے دور میں مہیا وسائل سے کوئی بھی تھوڑی سی سعی اور جستجو کے ذریعے سائنسی ثبوتوں کے ساتھ ثابت کر سکتا ہے۔ قدرت کی اس واضح تمثیلی اشارے اور آگہی کے بعد بھی اگر کوئی اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا ہے اور اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے تو اسے اس کی بدنصیبی اور بے وقوفی ہی کہی جائے گی اور تاریخ میں اسے اس دور کے احمق ترین انسانوں میں لکھا جائے گا۔

آج کی دنیا کو اگر منظر ناموں میں تقسیم کیا جائے تو وہ تین حصوں میں بٹے ہوئے نظر آئیں گے جو بظاہر ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے الگ ہی ہیں۔ پہلا سیاسی منظر نامہ، دوسرا معاشی منظر نامہ اور تیسرا مذہبی منظر نامہ۔

james-webb-space-telescope


جہاں تک سیاسی منظر نامے کا تعلق ہے وہ ہمیشہ متنازعہ فیہ رہا ہے، کبھی دو قطبوں میں بٹی ہوئی دنیا آج ایک قطبی بنی نظر آرہی ہے، امریکہ جو اس ایک قطبی دنیا کا سرخیل بنا پھر رہا ہے ایک ایسے عیار کے روپ میں ڈھلتا جا رہا ہے جس کے تیر کے بیک وقت کئی نشانے ہوتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کو تہس نہس کرکے دہشت گردی کی آڑ میں کئی آزاد ممالک کو تباہ وبرباد کرنے کے بعد وہ آج کل چین کو آڑے ہاتھوں لینے کے فراق میں ہے۔ چین جو دنیا کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے آج بے پناہ ترقی اور طاقت کے ساتھ دنیا پر چھاتا جارہا ہے اور یہ بات امریکہ کو بری طرح کھٹک رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے گھر میں جو بازار لگتا ہے وہ چینی اشیاء سے بھرا رہتا ہے اور وہ روز مرہ کے کئی ضروریات کی چیزوں کے لئے چین کا محتاج ہے پھر بھی وہ چین پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔

عالمی منظر نامے میں چین کو یکا و تنہا کرنے کے لئے اور ساتھ ہی اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے جس کا انحصار جنگی ہتھیاروں پر ہے جس کی کھپت مشرق وسطی میں بے حد کم ہوتی جارہی ہے، اس نے روس کو شہہ دے کر یوکرین کے ساتھ الجھا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک طرف اس کی ہتھیاروں کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف چین کا روایتی اور نظریاتی طرفدار روس ایک ایسی جنگ میں الجھ چکا ہے جس میں سے نکلنا اس کے لئے ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔ وہ یورپی مملک جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے صف اول کے حلیف تھے آج ایک نئی صف بندی کے لئے پر تول رہے ہیں، ایسے میں انہیں اپنے قابو میں رکھنے کے لئے ان کی معیشت پر ضرب لگانا ضروری ہوگیا تو نیٹو کے نام پر یوکرین کے واسطے سے روس کے مد مقابل کر کے یہ ہدف بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔

چین کے خلاف بچھائے اپنے اس بساط میں بھارت اور پاک اس کے دو ایسے مہرے ہیں جن کا استعمال وہ مناسب وقت پر اس ہنر مندی سے کرے گا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے گی۔ چین اپنے خلاف بچھائے اس خطرناک جال کے خلاف کیسے دفاع کرے گا اس پر ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بات یقینی ہے کہ چین کوئی تر نوالہ نہیں جسے امریکہ آسانی سے ہضم کر لے۔ ضروی نہیں کہ یہاں جو سیاسی منظرنامہ پیش کیا گیا ہے وہ وہی ہے جو ہے یا جو نظر نہیں آرہا ہے یا جس تک ہماری نظریں ابھی تک پہنچ نہیں رہی ہیں۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ جو منظر نامہ ہمیں بظاہر نظر آرہا ہے وہ، وہ ہے نہیں اور جو ہے وہ ہماری سمجھ سے اور نظروں سے اوجھل ہے۔

معاشی منظر نامہ جو بظاہر معاشی آزادی اور ہمہ جہتی معاشی ترقی کی بات پیش کر رہا ہے حقیقت میں تیزی سے سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھلتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے اصول اور قوانین وضع کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے دولت مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی اور یوں دینا کی ایک بڑی آبادی ان ہوس زر میں مبتلا افراد کی معاشی غلام بن جائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام جس کے ہاتھوں آج دنیا کے کئی ممالک یرغمال بن چکے ہیں، اپنی خامیوں اور خطرناکیوں کو بھی ایسا خوشنما بنا کر دکھارہا ہے کہ آدمی اس کی چکا چوند سے متاثر ہو کر زہر ہلاہل کو جام حیات سمجھ کر پی رہا ہے۔ سود کی لعنت کو وقت کی ایک اہم ضرورت بنا کر ملکوں اور قوموں کا دیوالیہ نکالا جارہا ہے اور دنیا سمجھ رہی ہے کہ وہ یہ سب وقت کے الٹ پھیر ہیں حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ دنیا کو اپنی مٹھی میں جکڑنے اور غلام بنانے کے لئے چند ہوس زر میں مبتلا افراد کی خطرناک سازش ہے۔ بظاہر چمک دمک رکھنے والی آج کی معیشت ایک ایسا بلیک ہول ہے جس میں داخل ہوجانے کے بعد نہ واپسی کا اور نہ انجام کی خبر جاننے کا امکان ہے۔

تیسرا مذہبی منظر نامہ، اس کی ڈھب ہی نرالی ہے۔ اس کے اتنے زاویے ہیں کہ ہر زاویہ کئی اور زاویے بناتا نظر آرہاہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

اس منظر کے دو بڑے کردار ہیں، پہلا سامی مذاہب اور دوسرا حامی مذاہب۔ سامی مذاہب جو مختلف عقائد اور رسوم و رواج رکھتے ہوئے بھی چند بنیادی باتوں اور نکتوں پر ہم خیال ہیں لیکن حامی مذاہب کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے وہ نہ صرف بری طرح بکھرے ہوئے ہیں بلکہ سوائے کھلی ہوئی بت پرستی کے ان میں کچھ بھی یکساں نہیں ہے۔ آج کل ان دونوں سلسلوں میں احیا پرستی بہت زوروں پر ہے، کہیں انہیں سیاسی اور معاشی سر پرستی بھی حاصل ہے تو کہیں وہ اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام سامی مذاہب کے نمائندے تسلیم کئے جاتے ہیں۔ یہودیت جس کی نمائندگی اسرائیل کرتا ہے اس کے تعلق سے ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ کتنا عیار اور چالاک ہے۔

تجربوں سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے کہ امریکہ جیسا ملک، چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہے تو ایسے میں ہمہ شمہ کی حقیقت کیا۔ پھر بھی وہ بظاہر دنیا بھر میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر خود کو امن کا متلاشی باور کراتا رہتا ہے۔ مسیحیت یورپی ممالک اور امریکہ وغیرہ کا اختیاری مذہب ہے۔ اس کے ماننے والے یوں تو خود کو مذہب بیزار باور کراتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج بھی اپنے عقیدے کی سر بلندی اور ساری دنیا کو اپنے مذہب کے جھنڈے تلے لانا ان کا پہلا مقصد ہے جس کے لئے وہ ہر ممکن اقدام کرنے سے نہیں چوکتے چاہے وہ اقدام دوسروں کی نظر میں کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں۔

رہی مذہب اسلام کی بات وہ اپنی تمام تاریخی تابناکیوں اور امن عالم کا داعی ہونے کے باوجود آج اپنے ماننے والوں کے ہاتھوں انتشار کا شکار اور عالمی سطح پر بد نام ہے۔سعودی عرب اور ایران جو اس کے دو بڑے دائرے ہیں آپس میں لڑنے جھگڑنے کو ہی اپنا ایمان بنائے بیٹھے ہیں۔ ان دو میں کا ہر ایک اسلام پر اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتا ہے۔ بظاہر یہ دونوں بڑے مذہبی بنتے ہیں لیکن حقیت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مذہب ان دونوں کے نزدیک اپنی دھاک جمائے رکھنے کا ایک آلہ ہے بس، ایسا وقتا فوقتا ان کی بیان بازیوں اور حرکات سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ اسرائیل کو یہ دونوں اپنا سب سے بڑا دشمن مانتے ہیں لیکن آج تک اس کے خلاف کوئی واضح موقف لینے سے کتراتے د کھائی دیتے ہیں۔

حامی مذہب میں آج کل ہندو توا کا بڑا زور ہے، اس کے ماننے والے پوری شدت سے اپنے عقیدے کا احیا چاہتے دکھائی دے رہے ہیں اور بھارت ان کی سیاسی سر پرستی بھی کر رہا ہے لیکن یہ کس حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے، اس لئے کہ وہ جس عقیدے کا احیا چاہتے ہیں وہ عقیدہ پوری طرح خود ان پر واضح نہیں ہے۔ رہی بدھ مت جو دنیا کا سب سے زیادہ مانے جانے والا مذہب سمجھا جاتا ہے چین جاپان وغیرہ جس کی نمائندگی کرتے ہیں بظاہر اس کے ماننے والے خود کو اہنسا کا پچاری اور امن پرست بتاتے ہیں لیکن وہ بھی ساری دنیا پر اپنے عقیدے کی حکومت چاہتے ہیں۔ میانمار میں جو کچھ ہوا اور جو ہو رہا ہے اس کو اس کی مثال میں دیکھا جاسکتا ہے۔ باقی دوسرے مذاہب جیسے پارسی مت، جین مت، سکھ مت وغیرہ ان سب کی اپنی اپنی دنیا ہے اور ہر کوئی ساری دنیا کو اپنے ڈنڈے سے ہانکنے کی منصوبہ بندی کرنے میں لگا رہتا ہے۔

ان تینوں منظر ناموں کے تجزیہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ منظر نامے بظاہر جو نظر آرہے ہیں حقیقت میں ویسے نہیں ہیں۔ ان کا رنگ ان کی جسامت اوران کا کردار کچھ اور ہی ہے، جس تک کسی کی نظر نہیں پہنچ رہی ہے۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ سے حاصل تصاویر کی طرح یہ وہ نہیں ہیں جو نظر آرہے ہیں اور یہ جو ہیں ان تک ہماری رسائی ابھی ممکن نہیں ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے