Ticker

6/recent/ticker-posts

ممتاز عالم دین مولانا محمود حسن حسنی نہیں رھے

ممتاز عالم دین مولانا محمود حسن حسنی نہیں رھے،

maulana-mahmood-hasan-hosni-a-prominent-religious-scholar

حضرتِ مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی کو صدمہ

آفتاب ندوی۔ جھارکھنڈ

خدائے لازوال کے سوا کسی کو بقاء نہیں، دنیا میں جو بھی آتا ھے ایک دن اسے یہ دنیا چھوڑنی ہی پڑتی ھے، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس فانی دنیا میں آخرت کو فراموش کرکے نہیں جیتے ہیں، عمر رواں کے ایک ایک پل کی انکے نزدیک اہمیت ھوتی ھے، اس جہان فانی کو وہ آنے والے جہان کو بنانے سنوارنے کا آخری موقع سمجھتے ہیں،

آفتاب ندوی۔ جھارکھنڈ

ایسے سمجھدار نیکو کار، ہمہ وقت خالق کے حضور حاضری کا استحضار رکھنے والے بندگان خدا کو معصوم فرشتے لینے آتے ہیں، مقرب ملائک خوش آمدید کہتے ہیں، زبان خلق نقارۂ خدا ھوتا ھے، مولانا محمود حسن حسنی کا تعلق یقینا اسی قابل رشک جماعت سے تھا، والدین اور خاندان کے بزرگ خواتین وحضرات خصوصا مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ، مولانا محمد ثانی حسنی رح، مولانا واضح رشید ندوی رح اور مخدوم گرامئ قدر مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکاتہم کے سایۂ عاطفت میں انکی پرورش ھوئی۔

شرافت، سنجیدگی، سلیقہ مندی، ادب وشائستگی میں بچپن ہی سے ممتاز تھے، فرائض وواجبات کے ساتھ نوا فل اور اوراد واذکار کے بھی پابند تھے، تواضع انکساری اور حسن اخلاق سے انکی شخصیت کی تشکیل ھوئی تھی، ھر ایک سے مسکراکر بھرپور انداز میں ملتے، ملنے والا عزت محسوس کرتا، علماء اور بزرگوں سے تعلق کے ساتھ اللہ نے انہیں اچھا حافظہ عطاء کیا تھا، بزرگوں کے انساب واحوال، انکی خدمات وخصوصیات سے بڑی واقفیت تھی، مولانا واضح رشید صاحب ندوی رح کی وفات کے دوسرے دن میں تکیہ رائے بریلی پھنچا، اسی وقت مولانا ولی رحمانی صاحب رح بھی پہنچے، قبر پر حاضری کے وقت راقم ساتھ تھا، مولانا نے تکیہ کی مسجد کے سامنے چھوٹے سے احاطہ میں موجود قبروں کے سلسلہ میں دریافت کیا۔

میں نے عرض کیا کہ اس کام کیلئے سب سے موزوں مولانا محمود صاحب ہیں، یہ یاد نہیں کہ مولانا محمود صاحب خود پہنچ گئے یا انہیں بلوایا گیا، انہوں نے تفصیل سے تمام قبروں کے بارے میں بتایا، مولانا ولی رحمانی صاحب مرحوم اپنے ذہن کی ڈائری میں ایک ایک چیز نوٹ کرتے رھے، مولانا واضح صاحب پر اپنے تأثراتی مضمون میں ان تمام چیزوں کا انہوں نے ذکر کیا، مثلا بائیں طرف فلاں بزرگ کی اور دائیں طرف فلاں بزرگ کی قبر ھے،

مولانا محمود صاحب کو لکھنے کا فطری ذوق تھا، انہیں لکھنے میں وقت نہیں لگتا تھا، اور نہ انہیں لکھنے کیلئے پرسکون ماحول، یکسوئی تنہائی اور موڈ بنانے کی ضرورت پڑتی تھی، سفر میں پلیٹ فارم پر، ٹرین اور ایر پورٹ کہیں بھی وہ لکھنے پر قادر تھے، حضرت مولانا سیدمحمد رابع صاحب حسنی دامت برکاتہم کے اسفار میں اکثر وہ ساتھ رہتے تھے، مولانا سے انکے حالات پوچھ پوچھ کر ایک پوری کتاب مرتب کر دی، کتاب کی ترتیب اس خوبصورتی سے انجام پائی ھے کہ مولانا کی یہ دلکش خود نوشت سوانح بن گئی،

ابھی بقرعید میں١٣/ذی الحجہ کو راقم تکیہ رائے بریلی گیا تو مولانا محمود صاحب کو نہیں دیکھا، انکے برادر خورد مفتی مسعود صاحب سے پوچھا کہ محمود صاحب نظر نہیں آرھے ہیں تو بتایا کہ بھائی صاحب کچھ ہی دیر پھلے بغرض علاج چنڈی گڑھ کیلئے نکلے، کہا جاتا ھیکہ گردے کی بیماری کی رفتار بہت تیز ھوتی ھے، چنڈی گڑھ سے واپس آئے تو طبیعت تشویشناک حدتک بگڑ چکی تھی، روزانہ ڈائلیسس کے باوجود آخرکار بروز جمعہ ١٣محرم ١٤٤٤ھ مطابق ١٢اگست ٢٠٢٢ ع تقریبا ساڑھے آٹھ بجے صبح لکھنؤ کے ایک ھاسپٹل میں آخری سانس لی، سب کو اللہ ہی کے پاس لوٹنا ھے،

خانوادۂ حسنی اور ندوۃ العلماء کیلئے یہ ایک بڑا حادثہ ھے، حضرت مولانا رابع صاحب دامت برکاتہم عمر کے اس مرحلہ میں پے درپے جانکاہ حادثات سے گزر رھے ہیں، مولانا صبر وتحمل اور استقامت کے پہاڑ ہیں، خدا ملت پر صحت وتندرستی کے ساتھ انکے سایہ کو تادیر سلامت رکھے،

سوانحی خاکہ: مولانا مرحوم کی پیدائش ٢٨جمادی الاولی ١٣٩١ھ مطابق ٢٢جولائی 1971عیسوی کو لکھنؤ میں ھوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد ندوۃ العلماء میں داخل کئے گئے، جہاں 1990میں عالمیت اور 1992 حدیث میں فضیلت کی سند حاصل کی، اسکے بعد شعبۂ دعوت کا ایک سالہ کورس بھی مکمل کیا، فراغت کے بعد ضیاء العلوم رائے بریلی میں میں استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا اور ادارہ دار عرفات برائے تصنیف و تحقیق سے بھی وابستگی اختیارکی، 2001 میں ندوۃ العلماء کے پندرہ روزہ پرچے تعمیر حیات سے معاون ایڈیٹر کے طور پر اور کچھ عرصے کے بعد نائب مدیر کے طور پر وابستہ ہوئے،

مولانا مرحوم کو بزرگوں کی سیرت و سوانح سے بڑی دلچسپی تھی، متعدد بزرگوں پر ان کی تصنیفات نے اہل علم سے خراج تحسین وصول کیا، خواتین کے ماھنامے رضوان کے معاون ایڈیٹر تھے، پیام عرفات کی مجلس ادارت کے بھی رکن تھے، اولاد میں اکلوتی بیٹی ان کی یادگار ہے،

ملت ایک نیک، متواضع اور بزرگوں کی وراثت کے علم بردار ممتاز عالم دین سے محروم ہو گئی،
تیری نیکیاں زندہ تری خوبیاں باقی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے