Ticker

6/recent/ticker-posts

قوم کو عزم و حوصلہ کے ساتھ جینے کا سبق دیجئے

قوم کو عزم و حوصلہ کے ساتھ جینے کا سبق دیجئے


محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ

اس وقت ملک کا منظر نامہ عجیب و غریب ہے، موجودہ حکومت کے ارادے اورعزائم بالکل ٹھیک نہیں ہیں، پورا ملک عجیب بے یقینی کی کیفیت میں ہے، صرف اقلیتی لوگ ہی نہیں بلکہ اکثریتی طبقہ کے لوگ بھی پریشان اور حیران و ششدر ہیں کہ یہ ملک کہاں جارہا ہے اور آگے نہ جانے کیا ہونے والا ہے، ؟ ملک میں خوف و ہراس کی سیاست کی جا رہی ہے، حزب مخالف کو ایی ڈی کا خوف دلا کر ان کی زبان کو بند کردیا گیا ہے، حزب اقتدار کا ارادہ ہے کہ حزب مخالف کے وجود کو ہی ہلا دیا جائے، بلکہ مٹا دیا جائے۔ موجودہ ملکی میڈیا والے صرف وہی بولتے ہیں، جو موجودہ حکومت چاہتی ہے اور جو اس کا منشاء ہوتا ہے، جمہوریت کا یہ چوتھا ستون جس سے ملکی نظام کو استحکام اور توازن ملتا ہے، وہ زر خرید غلام بن چکا ہے۔

ملک کی موجودہ معیشت اور اسستتھی کو دیکھتے ہوئے، تجزیہ کار بتا رہے ہیں کہ بعید نہیں کہ ملک کا وہی حشر اور انجام ہو جائے جو سری لنکا کا ہوا ہے۔ ملکی معیشت چرمرا گئی ہے، مہنگائی اور ہوش ربا گرانی نے لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ مسلمانوں کیساتھ جو ناروا سلوک ہو رہا ہے جو ظلم و استبداد اور استحصال جاری ہے، اس کے خلاف اب لوگ بولنے سے بھی گھبرا رہے ہیں۔ کہیں ہندو راشٹر کا مطالبہ ہے، کبھی ہندو ریاست کا مطالبہ ہے، کہیں دھرم پریورتن کی خبریں ہیں اور کہیں گھر واپسی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ غرض ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔

ان حالات کو کیسے بدلا جائے، ؟ ان حالات میں ہمیں کیا حکمت عملی اپنانی چاہیے ؟ علماء، دانش وران قوم اور امت کے خواص کو اس کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور قوم و ملت کو حوصلہ دینا چاہیے اس وقت قوم کو حوصلہ اور ہمت کی سخت ضرورت ہے۔

مسلمانان ہند کو ملک کے موجودہ سیاسی حالات سے جدا کرکے نہیں دیکھا جاسکتا، بقول شخصے، ، کہ ہم لوگ اس سلطانی جمہور کی حقیقتوں یا کہیے خباثتوں سے واقف نہیں، خباثت اس لیے کہ موجودہ ملکی سیاست محض ہوس کی امیری اور ہوس کی وزیری ہے، یہ شطرنج کی بساط پر وہ کھیل ہے جہاں پیادہ تو مہرہ ناچیز ہے ہی، فرزیں بھی نہیں جانتا کہ شاطر کا ارادہ کیا ہے؟، ،۔....

دوستو!!!

علماء کرام رہبران قوم اور قائدین ملت یہ خواص امت ہیں، عوام اور عام امت ان کے تابع ہیں۔ اگر ان کا حوصلہ بلند اور عزم مستحکم ہوگا تو امت بھی حوصلہ بلند رکھے گی اور ان کا عزم مستحکم اور یقین محکم ہوگا، اگر وہ ہمت ہار جائیں گے تو امت شکست خوردگی میں مبتلا ہو جائے گی اور امت ہمت و حوصلہ ہار جائے گی۔

محمد قمر الزماں ندوی

اس وقت حکومت وقت اور فسطائی طاقتیں جس قدر منظم انداز سے ہمیں کمزور کرنے پر لگی ہوئی ہیں، اس سے قبل کبھی اس طرح کے حالات نہیں آئے تھے۔ اس وقت ہم مسلمان ہی نہیں بلکہ پورا ملک بہت نازک دور سے گزر رہا ہے، اس وقت ملک کی سالمیت کے لیے بہت منظم انداز سے کوشش کرنی ہوگی، ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے، امن و شانتی اور عدل و انصاف کی فضا قائم کرنے کے لیے، آج پھر دور نبوی سے قبل کی طرح حلف الفضول جیسا معاہدہ کرنا ہوگا اور ظلم و نا انصافی کا مقابلہ دینی اور ملی فریضہ سمجھنا ہوگا۔ یہ وقت محبت، انسانیت اور مانوتا کے پیغام کو عام کرنے کا ہے اور بزدلی کم ہمتی اور بے حوصلگی سے نکل کر جرأت و ہمت اور عزیمت کے ساتھ زندگی گزارنے اور اپنی شریعت پر عمل کرنے کا وقت بھی ہے۔

آج سے تین دھائى قبل جب بھاگلپور میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا اور مسلمانوں کے لہو کو ارزاں کردیا گیا تھا تو اس موقع پر امیر شریعت حضرت مولانا محمد منت اللہ رحمانی رح نے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا تھا وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اس میں ایک پیغام ہے اور سبق ہے، ہم سب کو اس کو پڑھنا چاہیے اور یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو جان و دل کی طرح عزیز رکھتے ہیں، ملک کے زرہ زرہ سے ہمیں محبت ہے، اس لیے ہم اس ملک کی سالمیت کو ٹوٹنے نہیں دیں گے، یہاں کی تہذیبی ورثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو ختم ہونے نہیں دیں گے....

ہماری قانونی، اخلاقی، انسانی اور ملکی فریضہ ہے کہ ہم اس ملک کو تباہی اور بربادی کے دہانے سے بچائیں۔ ۔ اور فرقہ پرست لوگوں کے عزائم اور منصوبے کو خاک میں ملا دیں۔ ۔

امیر شریعت حضرت مولانا محمد منت اللہ رحمانی صاحب رح نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا :

”ہمارے سارے مسائل کا حقیقی حل خدا شناسی میں ہے، ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے جتنا گہرا ہوگا اور ہمارے دلوں میں خدا کا خوف جس قدر ہوگا، اتنا ہی ہمیں دینی و دنیاوی طور پر کامیابی ملے گی۔ ۔ ۔ ایمانی بصیرت اور عزم و ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا ہی اسلامی دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔

فساد بھاگلپور نے بہت صدمہ دیا ہے، ہم اور آپ اسلام کے رشتہ سے وابستہ ہیں۔ ہمارے مابین اسلامی رشتہ جتنا مضبوط ہوگا اتنا ہی ہمارا رشتہ مضبوط ہوگا۔ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول کو دل سے مانیں اور انکی ہدایتوں پر عمل کریں۔ اگر ہم دل سے نہ مانیں گے اور عمل نہیں کریں گے تو ہمارے اوپر مصائب کے بادل منڈلاتے رہیں گے۔ اور ہماری بربادیوں کے تذکرے ہوتے رہیں گے۔ ۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں اسلامی تعلیمات و احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔ اللہ و رسول کی خوشنودی کے بعد ہی ہمارے درمیان رشتے مضبوط ہوں گے اور دنیاوی طور پر ہم مضبوط ہوتے جائیں گے۔

ہمیں جرات و ہمت کے ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کرنا چاہیے۔ ہمارے اندر یہ احساس ہونا چاہیے کہ موت برحق ہے۔ یہ چارپائی پر بھی آسکتی ہے اور جنگل و بیابان میں بھی، یہ گھر کے اندر بستر مرگ پر بھی آسکتی ہے اور ظالم کے ہاتھوں سے بھی، موت ہر جگہ آئے گی۔ ۔ بیماری آتی ہے تو ہم اس سے آخری وقت تک مقابلہ کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی ظالم ظلم پر آمادہ ہو تو ہمیں اپنی مدافعت کرنی چاہیے اور اپنا تحفظ کرنا چاہیے، ہمارا دینی و ملی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم ظالموں کی بربریت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں اور عزیمت کے ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کریں، اسی میں ہماری نجات ہے۔ ۔ دل سے خوف کو نکالو، ڈرو گے تو تم ختم ہو جاو گے۔ ایک خدا کے سامنے پیشانی جھکانے والوں کا ظالموں و جابروں کے سامنے سر نہیں جھک سکتا،۔ ۔ ملک کا حال بہت خراب ہے آج ہم کو مٹانے کے لیے جتنی منظم سازشیں ہورہی ہیں اس قبل نہیں ہوئی تھی۔ جتنا وحشتناک دور گزر چکا ہے اس سے زیادہ نازک وقت سامنے آرہا ہے۔ ۔ آنے والا وقت بہت تباہ کن ہے۔ ۔ ہم پر قانونی، اخلاقی اور ملکی فریضہ ہے کہ ہم ملک کو تباہی کے دہانے سے بچائیں۔

عزت، جان و مال (دین و شریعت اور شعار ) کی حفاظت کرنا ہم پر فرض ہے۔ بزدلی ایمان کے منافی ہے، اس لیے آپ سبھوں کی ذمہ داری ہے کہ ہمت و جرات کے ساتھ حالات کا سامنا کریں۔ ایسی تبدیلی پیدا کریں کہ آج ظالموں کو بھی احساس ہوجائے کہ نقصان ہمارا بھی ہوسکتا ہے"۔ ۔ ۔ (حضرت امیر شریعت نقوش و تاثرات س، ص، ۵۲۶ / ۵۲۷)

اس چشم کشا پیغام کو ہم سب اپنے سامنے رکھیں اور ہم سب عوام و خواص اس کی روشنی میں انسانیت کی تعمیر کا کام کریں، ملک و ملت کو درپیش خطرات سے بچائیں اور طے کریں کہ آخری سانس تک انسانیت کو زندہ رکھنے اور مانوتا کو باقی رکھنے نیز ملک کی سالمیت کے لیے وہ سب کچھ کریں گے جو ہماری ذمہ داری ہے۔ ۔ ۔ ہم اس ملک میں امن و شانتی قائم کرنے اور اور اس کو سارے جہاں سے اچھا بنانے کے پابند ہیں، امت کی اسی نفع رسانی کے لیے ہم کو بھیجا گیا ہے یہ ہمیشہ ہمارے ذہن میں رہے۔

ہم یاس و قنوطیت اور ناامیدی کے ہرگز قائل نہیں ہیں، خوف و ہراس اور ناامیدی و گھبراہٹ سے کنارے بیٹھ جانا یہ ہمارا شیوہ اور طریقہ نہیں ہونا چاہیے، اخلاص و للہیت اور قوت فکر و عمل کے ذریعہ اس امت نے ہر دور میں حالات و مشکلات کا مقابلہ کیا ہے۔ کتنی بار یہ امت بھنور سے ساحل تک بسلامت پہنچی ہے اور نہ جانے کتنی مرتبہ یہ امت ڈوب کر پھر بسلامت و عافیت نکلی ہے۔ بس ضرورت ہے کہ پہلے ہم اپنا رشتہ اور تعلق خدا سے مضبوط کرلیں اور شریعت کو اپنی زندگی میں نافذ کرلیں، اتحاد کی لڑی میں خود کو پرو لیں، قرآن جو آخری آفاقی اور آسمانی کتاب ہے، جو پوری انسانیت کے لیے ہدایت نامہ ہے، اس سے رہنمائی حاصل کرلیں، بکھری قیادتیں آپس میں ہم فکر اور ہم آہنگ ہوجائیں۔ بعید نہیں امت مسلمہ کے سنہرے، روشن اور تابناک دن پھر لوٹ آئے، یہ جو گہن ہے یہ ختم ہوجائے، ملت کی بگڑ ی تقدیر بن جائے۔ بس اقبال مرحوم کے ان حکیمانہ اشعار پر آج کی گفتگو مکمل کرتا ہوں زندگی رہی تو پھر رفو کا کچھ نہ کچھ کام و پیغام لیکر حاضر ہوں گا۔
 حکیم مشرق کہتے ہیں، ،۔

تری دعا سے فضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ چار سو بدل جائے

وہی شراب وہی ہائے و ہور ہے باقی
طریق ساقی و رسم کد و بدل جائے

تری دعا ہے کہ تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے!

ناشر / مولانا علاؤالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 6393915491

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے