Ticker

6/recent/ticker-posts

تجزیہ RSS کے مطالبات کا

تجزیہ RSS کے مطالبات کا


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور، موبائل نمبر 8860931450

آر ایس ایس سے ملاقات کوئی نئی بات نہیں ہے، آر ایس ایس سے ملاقات کا یہ سلسہ 2002 میں گجرات فسادات کے بعد سے آر ایس ایس کے سابق سربراہ سدرشن جی کے زمانے سے چلا آرہا ہے، سدرشن جی نے ”مسلم راشٹریہ منچ“ بنوایا تھا، مگر نا تو مسلم راشٹریہ منچ کا اور نا ہی ملاقاتی سلسلے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ۔ وجوہات کیا ہیں ؟ آئیے ان کو جاننے کی کوشش کریں ۔

1۔ آر ایس ایس مسلمانوں سے تعلقات تو چاہتا ہے مگر اپنی شرائط پر، خواہ وہ شرائط مسلمانوں کے دین و ایمان سے ہی کیوں نہ متصادم ہوں ؟

2۔ مسلمان بھی آر ایس ایس سے تعلقات چاہتے ہیں بلکہ زیادہ اخلاص کے ساتھ چاہتے ہیں، مگر آر ایس ایس کی مسلط کردہ شرائط پر نہیں جو بالآخر دین و ایمان سے دستبرداری پر منتج ہونگی ۔

3۔ آر ایس ایس بھارت کو ہندتوا آئیڈیا لوجی میں لت پت سیکولر ملک بنانا چاہتا ہے ۔

4۔ جبکہ مسلمان بھارت کو صرف سیکولر دیکھنا چاہتے ہیں ۔یہ ہی وہ بنیادی نکات ہیں جو کسی بھی بامعنی مذاکرات کی راہ میں حائل ہیں ۔ مذکورہ بنیادی نکات کو سامنے رکھتے ہوئے آر ایس ایس کے مطالبات کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ مختلف تحریروں اور ملاقاتوں کی روداد کو سامنے رکھتے ہوئے آر ایس ایس کے بنیادی طور پر مندرجہ ذیل 6/ مطالبات سامنے آتے رہے ہیں ۔

1۔ مسلمان ملک کو سب سے اوپر مانیں یعنی ”ہندو نیشنلسٹ“ بن جائیں ۔ 2۔ مسلمان اپنے مذہب کو سچا ماننے کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کی سچائی کا بھی اعلان کریں ۔ 3۔ مسلمان ”کافر“ لفظ کے استعمال سے اجتناب کریں ۔ 4۔ مسلمان امت مسلمہ کے بین الاقوامی تصور سے اپنے آپ کو الگ کریں ۔ 5۔ گائے کے ذبیحہ کو ممنوع قرار دیں ۔ 6۔ مسلمان اپنے آپ کو جغرافیائی حد بندی سے متعارف کرائیں یعنی اپنے آپ کو ”ہندو“ کہلوائیں ۔

مسلمان اپنے ملک کے لیے وفادار تو ہے مگر مسلمان وطن پرست نہیں ہوسکتا، آر ایس ایس کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ملک سے وفاداری اور چیز ہے، وطن پرستی اور چیز ۔

وفاداری جہاں ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے وہیں وطن پرستی ایک گناہ ہے، وطن پرستی کوئی بھارتی تصور نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک مغربی تصور ہے جو انقلاب فرانس کے بعد مذاہب کے خلاف اٹھ کھڑی ہونے والی تحریکوں سے پیدا ہؤا تھا، ”وطن پرستی“ جسکی گہار آر ایس ایس لگا رہا ہے بھارت میں کبھی بھی نہیں رہی ۔ آر ایس ایس کا دوسرا مطالبہ کہ ”اپنے مذہب کو سچا ماننے کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کو بھی برسر حق جانو“ ایک ناقابلِ فہم مطالبہ ہے، یہ مطالبہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ اپنے باپ کو تو باپ کہتے ہی ہو میرے باپ کو بھی اپنا حقیقی باپ مانو ۔ اب دوسرے کے باپ کی عزت تو کی جاسکتی ہے مگر حقیقی باپ نہیں مانا جاسکتا، بحیثیت مسلمان ہم ہندو دھرم کی عزت تو کرسکتے ہیں مگر اس کو حق اور سچ نہیں مان سکتے ۔ آر ایس ایس سے پوچھا جانا چاہیے کہ اس ملک میں وہ بھی تو رہ رہے ہیں جو کسی بھی دھرم اور کسی بھی خدا کو نہیں مانتے جو ملحد atheist ہیں اور آر ایس ایس کو ان سے کوئی پریشانی نہیں تو مسلمان ہندو دھرم کی عزت کرتے ہوئے اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ بھارت میں کیوں نہیں رہ سکتا ؟ جب آپ کو ملحد سے پریشانی نہیں تو موحد سے کیوں ؟

آر ایس ایس کا تیسرا مطالبہ ہے کہ غیر مسلموں کے لیے ”کافر“لفظ استعمال نہ کریں، مسلم اسکالرز کو چاہیے کہ کافر لفظ کے حوالے سے تین بنیادی باتیں واضح کریں، ایک یہ مسلمان قرآن کریم سے اس لفظ کو چاہ کر بھی نہیں نکال سکتے، یہ ان کے بس سے باہر کی بات ہے ۔ دوسرے قرآن کریم میں یہ لفظ ایک حقیقت کے اظہار کے طور پر آیا ہے، ناکہ متعین طور پر کسی خاص شخص یا کسی خاص قوم کے لیے، دیگر اہل مذہب کے لئے قرآن کریم میں یھود، نصاریٰ، اہل کتاب، مجوس، مشرک، صائب وغیرہ الفاظ آئے ہیں ۔ تیسرے یہ بھی واضح کردینا چاہیے کہ متعین طور پر حقارت آمیز رویے کے ساتھ کسی شخص کو یا قوم کو کافر کہنا خود اسلام میں بھی ناپسندیدہ ہے ۔ الزامی طور پر آر ایس ایس سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تم ”ہندو“ لفظ کے استعمال پر پابندی عائد کرو، ہم کافر لفظ کے عوامی استعمال پر ( ناکہ قرآنی استعمال ) پر پابندی لگانے کے لئے تیار ہیں ۔

آر ایس ایس کا چوتھا مطالبہ ہے کہ ”بھارتی مسلمان امت مسلمہ کے بین الاقوامی تصور سے اپنے آپ کو الگ کریں“ آر ایس ایس کے مذکورہ مطالبے کی جڑیں ہندو دھرم کے انسانیت کو تقسیم کرنے والے نظریہ سے ملتی ہیں جہاں انسانیت کو اولا چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پھر 6743 فرقوں میں، پھر گوتروں میں، پھر کنڈلیوں میں ۔ خود تو آر ایس ایس ”ہندو“ لفظ کی بنیاد پر اپنی ایک امت بنانے کی کوشش میں ہے جس میں اچھوت، پسماندہ طبقات اور جنگلی قبائل کو بھی شامل کر رہا ہے اور مسلمانوں سے یہ مطالبہ ؟ تم پیو تو حرام پییں تو حلال ۔ آر ایس ایس کا پانچواں مطالبہ گائے کے ذبیحہ سے متعلق ہے ۔ اس سلسلے میں ماشاءاللہ مسلمانوں نے بہت واضح اور صاف موقف اختیار کیا ہے وہ یہ کہ گائے ہندوؤں ( سچ تو یہ ہے کہ صرف برہمنوں کے لئے ) کے لیے مقدس ہے مگر مسلمانوں کے لئے نہ تو گائے مقدس ہے اور نہ ہی مذہبی معاملہ ہے، اس لئے گائے کو قومی جانور National animal قرار دیا جائے اور ذبیحہ پر پابندی لگائی جائے، مسلمانوں کا یہی موقف آزادی کے پہلے سے چلا آرہا ہے، مگر جب بھی آر ایس ایس سے کوئی مسلمان ملتا ہے تو ہر مرتبہ آر ایس ایس اس سے یہ ہی مطالبہ کرتی ہے کہ گائے کا ذبیحہ بند کیا جائے، تو مسلم نمائندوں کو آر ایس ایس سے سوال کرنا چاہیے کہ آپ نے ابھی تک گائے کو ”قومی جانور“ کیوں نہیں قرار دیا ؟ گائے کے تعلق سے کیوں ”ایک ملک ایک قانون“ کی پالیسی نہیں بنائی گئی؟ جب مسلمان اور آر ایس ایس گائے کے تعلق سے ایک ہی پیج پر ہیں، تو کیوں یہ مسئلہ ابھی تک آپنے حل نہیں کیا ؟

آر ایس ایس کا چھٹا مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو جغرافیائی حد بندی سے متعارف کرائیں ۔ جغرافیائی حد بندی اگر لفظ ”بھارت“ سے متعارف کرائیں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں، مسلمان بغیر کسی چون وچرا کے اپنے آپ کو ”بھارتی مسلمان“ کہنے اور لکھنے پر فخر محسوس کریں گے بلکہ کرتے ہیں ۔ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب آر ایس ایس ”ہندو“ لفظ پر اصرار کرتا ہے، جبکہ ہندو لفظ کے معنی بھی متعین نہیں، پسماندہ طبقات کے مفکرین کہتے ہیں کہ ہندو کے معنی ”کالے چور کے ہیں “ اور یہ تو موہن راؤ بھاگوت بھی مانتے ہیں کہ ہندو لفظ بھارت کے قدیم متون میں کہیں بھی نہیں ملےگا ( مستقبل کا بھارت، مترجم ڈاکٹر شیخ عقیل احمد صفحہ 38 ) ہندو کہنے کا مسئلہ اس وقت مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے جب پسماندہ طبقات کے مفکرین اور ان کی تنظیمیں اس لفظ سے گالی کی حد تک چڑتی ہوں ؟ مسلم مفکرین اور قائدین کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہندو لفظ کے استعمال سے پسماندہ طبقات فوراً تم سے ناراض ہوجائیں گے، آخر کوئی تو وجہ ہے کہ آر ایس ایس ”ہندو“ لفظ کے استعمال پر زور کیوں دیتا ہے ؟ اور پسماندہ طبقات کے مفکرین اس لفط سے کیوں اس قدر چڑتے ہیں ؟ کچھ تو دال میں کالا ہے یا پوری دال ہی کالی ہے ۔ یہاں تک تو آر ایس ایس کے مطالبات کا تجزیہ ہے جو ہمارے نزدیک دستور ہند کے بھی خلاف ہیں، بھارت کی روح کے بھی اور اسلامی نظریات کے بھی ۔ مسلمانوں کے بھی آر ایس ایس سے کچھ مطالبات ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ 1۔ آر ایس ایس ہندو راشٹ کے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کرے ۔ 2۔ مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کی گارنٹی دے Physical security ۔ 3۔ حقیقی جمہوریت کے قیام کی کوشش کرے ۔ 4۔ بے لگام ہندو کٹر پنتھیوں پر لگام کسے ۔ 5۔ ہر فرقے کی مذہبی آزادی اور مذہبی شناخت کو ایک حقیقت جانے ۔ 6 جمہوریت کے چاروں ستونوں سے تعصبات کو ختم کرے ۔ مسلمانوں کے مذکورہ مطالبات دستور کے بھی مطابق ہیں اسلامی نظریات کے بھی اور بھارت کی روح کے بھی ۔

آخر میں ان تمام حضرات سے جو آر ایس ایس سے ملاقات کر رہے ہیں درحواست ہے کہ شوق سے ملاقات کریں غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کریں، بہت اچھی بات ہے، مگر کہنا یہ ہے آپ لوگ کہ پسماندہ طبقات کی تنظیموں اور ان کے قائدین سے بھی تعلقات بڑھائیں، اس سچائی کو آپ ہرگز ہرگز نظرانداز نہیں کرسکتے کہ جیسے جیسے پسماندہ طبقات میں بیداری پیدا ہورہی ہے ویسے ویسے آر ایس ایس کے نظریات بھی ہوا ہوتے جارہے ہیں اور ہندتوا کا بخار اترتا جارہا ہے ۔

25/ ستمبر 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے