دوست اور دشمن کو جاننا اور ان پر نظر رکھنا ضروری ہے
محمد قمر الزماں ندوی
اسلام صرف چند عبادات اوراد و وظائف معاشرت و معاملات اور اذکار و تسبیحات کے پڑھ لینے اور ادا کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مکمل دین، کامل دستور العمل، مستقل تہذیب اور جامع نظام حیات کا نام ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے متبعین اور پیروکاروں کی رہنمائی کرتا ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو، معاشرت سے ہو، معاملات سے ہو، معاشیات سے ہو، اخلاقیات سے ہو یا سیاسیات اور تدبیر منزل، نظم و نسق اور نظام حکومت ہو۔ جس طرح عبادات کی ادائیگی، حسن اخلاق کا مظاہرہ اور صحیح معاشرت برتنا نیکی اور ثواب کا کام ہے، صحیح سیاسی رہنمائی کرنا، امت کے اندر سیاسی، ملی، قومی اور اجتماعی شعور پیدا کرنا بھی نیکی اور ثواب کا کام ہے، نیز ان کو دوست و دشمن کی تمیز اور فرق بتانا بھی کار ثواب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقینا اس میں بھی بیحد اجر و ثواب ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم اس کو نیکی کا کام سمجھتے ہی نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مکی زندگی میں نظام سیاست، قانون نظم و نسق،دفاعی نظام اور تدبیر منزل کا نظام اور اصول و ضابطہ قائم کرنا تو ممکن نہیں ہوسکا، وہاں کے حالات انتہائی مشکل، دشوار، پیچیدہ اور نازک تھے، لیکن ہجرت مدینہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نطام سیاست، تدبیر منزل، خفیہ نظام،دفاعی نظام، تعلیمی نظام، بلدیاتی نظام،اور داخلی و خارجی نظام کو مکمل طور پر تشکیل دیا اور دشمنوں کے نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے خفیہ ایجنسی اور جاسوسی کے نظام کو بھی مربوط و منضبط کیا ۔
اس وقت ہم ہندوستان میں مکی اور مدنی زندگی کے بین بین ہیں بلکہ موجودہ حکومت اور اس کے اقتدار و انصرام میں ہم مکی زندگی ہی سے زیادہ قریب ہیں، پھر بھی ہمیں یہاں کے نظام سیاست میں دخیل ہونے اور اس میں شمولیت کا پورا حق ہے۔ اس ملک میں رہ کر ہمیں اس نظام سیاست کا حصہ بننا چاہیے اور اس کے ذریعہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے جد و جہد کرنی چاہیے، نیز دوست و دشمن پارٹیوں اور جماعتوں اور ان کے نقل و حرکت پر نظر رکھنی چاہیے ۔ آج کی تحریر میں ہم اس جانب کچھ اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔
راقم الحروف کو سیاسی جماعتوں میں عام آدمی پارٹی اور تنظیموں میں بامسییف کے بارے میں کبھی اطمنان نہیں رہا اور کبھی اس کو مسلمانوں کا ہمدرد اور مسلمانوں کے لیے مفید نہیں سمجھا، بلکہ اس کو مسلمانوں کے سلو پوائزن ہی سمجھا، دوست و احباب اور رفقاء نے بہت کچھ قائل کرنا چاہا، دہلی کی تعمیر و ترقی کا حوالہ دیا، لیکن کبھی مجھے اطمنان نہیں رہا۔ انا ہزارے کی پروردہ لوگوں کی یہ سیاسی جماعت، سچائی یہی ہے کہ یہ آر ایس ایس اور بھاجپا کی ہی بی ٹیم ہے، جہاں بھاجپا خود مضبوط اور مستحکم پوزیشن میں نہیں ہوتی وہاں اس جماعت کو آگے کردیتی ہے اور مستقبل میں ایسا خوب ہوگا،۔ دہلی کے فساد، این آرسی مظاہرہ میں عام آدمی پارٹی کا کردار انتہائی مشکوک رہا اور خود عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی اور وزیر اوقاف امانت اللہ خاں کے ساتھ کیجریوال کی دوغلی پالیسی اور منافقانہ رویہ اس کی کھلی شہادت ہے یہ لوگ بھی من اور دل،دونوں،کے کالے ہیں۔
رہی بات بامسییف کی، اس کو بھی ہم نے بہت قریب سے جاننے کی کوشش کی، بعض احباب کے تقاضے اور اصرار پر اس کے بہت سے پروگرام میں شریک ہوا خطاب کا بھی موقع ملا اپنی رکھنے کی بھی باری آئی، ان کے کارکنوں کی تقریریں سنیں اور ان کے عزائم کو بھی سنا، لیکن وہ باتیں کبھی دل میں نہیں بیٹھیں اور دل کو کبھی اطمنان نہیں ہوا۔ ان کی کتہنی اور کرنی میں بہت فرق ہے، بہت سے علماء اور مسلمان ان کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو پھر اس سے متنفر ہوجاتے ہیں، بامسییف والے اقلیتوں دلتوں اور شودروں کی ترقی اور استحکام کی بات کرتے ہیں، مسلمانوں کو اس میں شریک ہوکر اس لڑائی کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، عدل و انصاف کے نظام کو مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں اور اعلی ذات کے لوگوں کی غلامی سے نکلنے کی بات کرتے ہیں، لیکن یہی دلت طبقے کے لوگ اور نیچی ذات کے غیر مسلم تمام فسادات میں پیش پیش رہتے ہیں اور ہر جگہ بڑی ذات کے اشارے پر مسلمانوں کے لیے استعمال ہوتے رہتے ہیں، چاہے وہ جون سا موقع اور مرحلہ ہو۔ لیکن بامسییف والے کبھی ان نیچی ذات کے لوگوں کو اس حرکت سے روک نہیں پاتے ۔
آخر وہ ہم سے پھر یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ ہم قدم قدم پر ان کا ساتھ دیں، ان کو مضبوط کریں، اور وہ ہمیں دھوکا دیں اور وقت آئے تو ہمارے خلاف دشمنی پر وہ پیش پیش رہیں، یہ کون سی ہمارے ساتھ ہمدری ہے اور یہ لوگ کب ہمارے مخلص ہیں؟۔۔ میں چاہ رہا تھا کہ اس موضوع پر کھل کر لکھوں، لیکن آج ایک تحریر مشہور صحافی زین شمسی صاحب کی میری نظر سے گزری جس میں انہوں نے میرے دل کی بات کہہ دی، اس لیے مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنی طرف سے اس تنظیم کے بارے میں زیادہ نہ کچھ کہہ کر ان کی تحریر ہی کو نذر قارئین کر دوں، تاکہ حقیقت اور سراب میں فرق واضح ہو جائے اور ہم ان کو جان لیں کہ وہ ہم سے کتنے قریب اور کتنے دور ہیں، اور کون دوست کی شکل میں ہمارے دشمن ہیں؟
زین شمسی صاحب لکھتے ہیں،،۔۔۔
”بامسیف کے پٹنہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے سامعین اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے حضرات سے یہ میرا سوال تھا۔بامسیف 1988میں باقاعدہ وجود میں آیا۔ اس گروپ سے بڑے بڑے لیڈروں نے اپنا سیاسی کیرئیر شروع کیا۔ کانسی رام اور اب میشرام اسی بامسیف سے جڑے ہوئے ہیں۔ BAMCEf دراصل Backward and Minorities Community employs fedrationکا مخفف ہے۔اس میں ایس سی، ایس ٹی، پسماندہ اور اقلیتی طبقہ کے وہ لوگ شامل ہیں جو سرکاری نوکریوں میں ہیں اوردرج بالاطبقات سے آتے ہیں۔ اس طرح کا پلیٹ فارم بنانے کے پس پشت ایسی کمیونٹی میں بیداری پیدا کرنا تھا جو سماج کے مظلوم طبقوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ کم لفظوں میں کہیں تو یہ پلیٹ فارم دلت پچھڑوں کے آئیڈولاگ کے طور پر کام کرتا آیا ہے۔ اس بحث سے بالاتر کہ یہ اپنے مقصد میں کتنا کامیاب ہوا ہے اور اسے ابھی کتنا کام کرنا ہے، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا یہ آر ایس ایس جیسے تنظیم کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہے، کیونکہ اس پلیٹ فارم پر یہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ یہ خود آر ایس ایس کے شکنجہ میں ہے۔ تاہم ایسا کوئی ثبوت تو نہیں مگر اس کی کامیابی میں تاخیر سے اس طرح کا اندازہ لگایا جاتا رہا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو کہ یہ پلیٹ فارم لیڈروں کو سیاسی کامیابی عطا کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔بامسیف کی دعوت پر جب مجھے پٹنہ طلب کیا گیا تو میں نے ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ جومیں پہلے لکھ چکا ہوں۔
آپ کی لڑائی کی نوعیت کیا ہے؟ آپ کی لڑائی سیاست سے ہے؟ یا سماجی برابری کی ہے؟ یا پھر مذہبی ہے؟ آپ نے مائنارٹی کو اپنے ساتھ کس شرط پر لکھا ہے؟انہیں کون ساعہدہ دیا ہے؟ بامسیف کو مسلمان کس نظر سے دیکھتے ہیں اور بامسیف مسلمانوں سے کیا چاہتا ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جو واضح ہونے چاہئے۔ جہاں تک دلتوں کے سیاسی لڑائی کا سوال ہے تو دلت سماج سے صدر جمہوریہ، کابینی وزرا، پارلیمیٹ اور اسمبلیوں میں دلت ممبران کی اچھی خاصی تعداد ہے جو گاہے بگاہے اپنی آوازیں بلند کرتی رہی ہیں۔ اگر آپ سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں تو آپ جیت چکے ہیں۔اب رہی بات سماجی اسٹیٹس کی تو متعدد ڈی ایم، ایس پی، افسران، ڈاکٹر اور پروفیسران سماج کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں۔ 49.5فیصد ریزرویشن نے دلت اور پچھڑوں کی زندگی کو بہتر بنایا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ گویا جس سوشل اسٹیٹس کی بات آپ لوگ کرتے ہیں وہ بھی آپ لوگ مل چکا ہے۔ اب رہی مذہبی لڑائی، تو یہ لڑائی آپ کبھی جیت ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ اس لڑائی کو آپ کے آبا و اجداد نے بھی لڑا اور ناکام رہے۔ تنگ آکر باباصاحب امبیڈکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم ہندو میں پیدا ضرور ہوئے، لیکن مریں گے نہیں اور پھر وہ بدھ مت اختیار کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔ ہندوؤں کی مذہبی پیچیدگیاں آپ کی لڑائی میں کبھی آپ کو جیت دلا ہی نہیں سکتی۔ اس فرنٹ پر آپ کبھی جیت نہیں سکتے۔ لاکھ کوشش کیجئے مگر ہار آپ کا نصیب ہے۔ آپ سی ایم بن جائیں، ڈی ایم بن جائیں، مگر آپ پروہت نہیں بن سکتے اور بہت مشکل سے مندروں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ آپ کس سے لڑائی لڑ رہے ہیں۔آپ کو بدھ بھی چاہئے، امبیڈکر جی بھی چاہئے اور ساتھ ہی بیکنٹھ سنوارنے کے لئے برہمن بھی چاہیے، تو جب برہمن آپ کی زندگی کا حصہ ہیں تو ان سے لڑائی کیا معنی رکھتی ہے۔؟
رہا سوال مسلمانوں کا تو، مسلمانوں کے مسائل دلتوں اور پچھڑوں جیسے ہیں۔ انہیں اپنے سماج میں اسٹیٹس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک ساتھ مسجد جا سکتے ہیں، امامت بھی کر سکتے ہیں، شادی بیاہ میں شریک بھی ہو سکتے ہیں، ہاں ذات کا سسٹم جو آپ لوگوں کے ہی مذہب سے سیکھا ہے وہ ذرا گہرا ہو رہا ہے، پھر بھی یہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہندو دھرم میں ذات ہے۔ اسلام میں ذات نہیں ہے۔
مسلمانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے۔ پھر بھی سماجی تناظر میں ہر ایک مسلمان کی اہمیت ایک جیسی ہی ہے۔ ہاں مسلمانوں کا مسئلہ اس کا معاش ہے۔ جو بغیر ریزرویشن کے اور بھی بڑھتا جا رہا ہے اور کاروبار کی کمر فساد کے نذر ہو گئی ہے۔مسلمانوں کا مسئلہ معاش ہے اور دلت اور پچھڑوں کا مسئلہ ذات ہے تو دونوں اس نکتہ کے ساتھ ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔جہاں تک سیاسی معاملہ ہے تو یہاں پر بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ 1947کے بعد سے اب تک مسلمانوں کا کوئی سیاسی رہنما نہیں رہا، لیکن مسلمانوں نے ہمیشہ اسے اپنا قائد تسلیم کر لیا جو مظلوموں یعنی آپ لوگوں کاساتھ دینے کے لئے اٹھے۔ اسی لئے مسلمانوں نے کانگریس کو بھی اٹھایا، لالو کو بھی، مایاوتی کو، ملائم سنگھ کو، ممتا کو۔ کون ہے جسے مسلمانوں کا احسانمند نہیں ہونا چاہئے۔بغیر لیڈر کے مسلمانوں نے ووٹنگ کی جو بصیرت دکھائی ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا، مگر دوسری طرف دیکھئے، دلت اور پچھڑوں کے پچاسوں قائد ہوئے لیکن وہ اپنے ووٹرس کو سنبھال کر نہیں رکھ سکے۔ خود تو آگے نکل گئے، کمیونٹی کو وہیں چھوڑ دیا، جہاں وہ پہلے تھی۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ دلتوں کو مسلمان سب سے بڑا دشمن نظر آنے لگا ہے۔ لنچنگ ہو یامسلم محلے میں نعرہ بازی دلتوں کا جم غفیر حلق پھاڑ پھاڑ کر مسلمانوں کے خلاف چیختا نظر آتا ہے۔ ایسے میں اس آئیڈیالاگ پلیٹ فارم پر سوال کھڑا ہوتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو یہ بھی نہیں سمجھا سکا کہ مسلمان نے تو ان کے لیڈر کو ہی پارلیمنٹ پہنچایا تھا، مسلمانوں نے کب ان کے کنوئیں روکے، کب انہیں گھر میں گھسنے سے روکا۔جب اتنا بھی نہیں سمجھا سکے تو پھر وہ کیسے امید کرتے ہیں کہ مسلمان اب بھی ان کے ساتھ کھڑا رہے گاجبکہ سب کا ساتھ دیتے دیتے وہ خود ہی سب سے زیادہ کمزور ہو گیا۔ آج کے تناظر میں دیکھیں تو بھارت کی تمام کمیونٹیز میں مسلمانوں سے زیادہ مظلوم کون ہے ؟
سیاسی طور پر ان کا ساتھ دینے والا کوٸی نہیں۔ سماجی سطح پر نفرت کا جو کھیل کھیلا گیا اس سے وہ حاشیہ پر چلے گٸے۔ مذہبی طور پر ان کے تمام عقاٸد و رسوم پر پابندی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ایسے میں یہ امید تھی کہ جن لوگوں کا ساتھ مسلمانوں نے دیا وہ ان کا ہاتھ پکڑیں گے۔ مگر ہوا اس کے برعکس ۔ دلتوں کو یکایک مسلمان ہی دشمن نظر آنے لگے۔ایسے میں مسلمانوں کی شکایتیں واجب ہے کہ وہ دلتوں کا ساتھ کیوں دیں اور کس شرط پر دیں ۔دلت اور پچھڑا سماج مسلمانوں کی سیاسی شراکت داری پر اتفاق نہیں بنا پاتے۔دلت،پچھڑا اور مسلمان ایک ساتھ ہو جائے تو سیاست بدل سکتی ہے، لیکن مسلمانوں کو سیاسی ساجھیداری کی بات آتے ہی تمام طرح کا اتحاد توٹنے لگتا ہے۔ خیر مسلمان کا مطلب ہی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا وہ کھڑا رہے گا،لیکن اسے ٹھگنے کی اب کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اس نے سب کو بھانپ لیا ہے ""۔(مشہور صحافی زین شمسی کی تحریر)
نوٹ مضمون نگار کے رائے سے قارئین کا سو فیصد اتفاق ضروری نہیں ہے۔
ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ
0 تبصرے