Ticker

6/recent/ticker-posts

غور و فکر کےالگ الگ زاویے ہوتے ہیں

غور و فکر کےالگ الگ زاویے ہوتے ہیں


محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ پرتاپگڑھ

گزشت کل میں نے بھاجپا اور کانگریس کے فرق کو اور دونوں کے الگ الگ دستور،منشور اور فکر و نظریے کو قدر تفصیل سے بیان کیا تھا، چونکہ راقم نے یہ وضاحت کردی تھی کہ اس تحریر سے قارئین کا مکمل اتفاق ضروری نہیں ہے، اس لیے اکثر لوگوں نے اس مضمون پر سکوت اختیار کیا اور کسی طرح کا کوئی تبصرہ نہیں کیا، ممکن ہے کہ وہ خاکسار کے تجزیے سے اتفاق رکھتے ہوں۔ البتہ بعض لوگوں کے اس پر مثبت اور منفی تبصرے آے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان تبصروں کو بھی ہدئہ قارئین کروں تاکہ اس موضوع پر نئے نئے گوشے اور آراء سامنے آئیں اور حقیقت سامنے آئے اور اس کی روشنی میں مسلمان بصیرت کے ساتھ وقت آنے پر فیصلہ لیں۔

مولانا توصیف قاسمی مہد پور مدھیہ پردیش کا تبصرہ ہے

”یہی موقع ہے دوسری اصل معنیٰ میں سیکولر سیاسی پارٹیوں کو اس ملک کے اندر ایک متبادل پارٹی بنانے کا۔

جو بھی پارٹی ان مشکل حالات میں اپنے آپ کو منوانا چاہتی ہے وہ کانگریس اور بھاجپا کے جھانسے میں نہ آ کر اس ملک کے عوام کو یہ باور کرائے کہ وہ ان دونوں لٹیری اور فرقہ پرست پارٹیوں سے ملک اور عوام کو نجات دلاسکتی ہے۔

جیسا کہ نتیش کمار، ممتا بنرجی اور تلنگانہ کے وزیراعلی اپنا ایک الگ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں. یہ بہت ہی اچھی بات ہے؛ اس کی قیادت کسی ایک سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں دینے کے بجائے چند صوبائی پارٹیوں کے ہاتھوں میں رہے، تب جاکر یہ اتحاد کامیاب ہو سکتا ہے، کانگریس کے ہاتھ میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت نہیں دینی چاہیے؛ ورنہ پھر کانگریس بھی بھاجپا کی طرح اپنا رنگ دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔

اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام، بابری مسجد کی شہادت آر ایس ویس اور بھاجپا کو پھلنے پھولنے اور کانگریس کی گود میں بیٹھ کر بھاجپا کو جوان ہونے کا موقع اسی کانگریس پارٹی نے دیا ہے۔
توصیف القاسمی مہد پور،مدھیہ پردیش
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عماد قاسمی شانتا پورم کیرلا کا تبصرہ ہے،،

مضمون بہت شاندار ہے ۔
مگر اس میں کچھ باتیں اضافہ کرنا چاہتا ہوں
1- کانگریس کو آزادی کے لیے لڑنا مسلمانوں نے ہی سکھایا ہے

تحریک ریشمی رومال اور تحریک خلافت نے کانگریس کے اندر سبھاش چندر بوس، موہن داس کرم چند عرف مہاتما گاندھی، موتی لعل نہرو اور جواہر لعل نہرو جیسے آزادی کے متوالے پیدا کیے

2- فکری اختلاف اور اقتدار کی لالچ میں آزادی سے قبل بھی اور آزادی کے بعد بھی کانگریسی لیڈران کانگریس چھوڑتے رہے ہیں، مگر انیس سو باسٹھ تک یعنی جواہر لعل نہرو کی زندگی میں ہوئے انتخابات تک کانگریس کے خلاف کوئی پارٹی بھی کامیاب نہیں ہوسکی،

3- انیس سو چونسٹھ میں جواہر لعل نہرو کے انتقال کے بعد لعل بہادر شاستری کو وزیر اعظم بنایا گیا مگر وہ دو سال کے بعد ہی انتقال کرگئے ان کے انتقال کے بعد انچاس سالہ اندرا گاندھی کو وزیر اعظم بنادیا گیا،

ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد مرار جی ڈیسائی جیسے کئی سینیر لیڈران نے کانگریس چھوڑ دی، جس سے کانگریس کو کافی نقصان ہوا،

انیس سو سڑسٹھ کے انتخابات میں لوک سبھا میں تو کانگریس نے بڑی مشکل سے واضح اکثریت حاصل کرلی مگر بہار اور اتر پردیش سمیت کئ صوبوں میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی اور یہیں سے کانگریس کا زوال شروع ہوا، ملک کی تمام پارٹیاں کانگریس کے خلاف لام بند ہوگئیں، تب اندرا گاندھی نے پاکستان کے داخلی جھگڑے میں ٹانگ اڑا کر بنگلہ دیش بنوانے میں سب سے بڑا رول ادا کیا، یہ اندرا گاندھی کی سب سے بڑی غلطی تھی،

انیس سو سڑسٹھ میں کانگریس کی سر پھٹول کا سب سے زیادہ فائدہ جن سنگھ کو ہوا،اسے اتر پردیش میں چار سو چوبیس میں سے نوے اور لوک سبھا میں پینتیس نشستیں حاصل ہوئیں جب کہ اس سے قبل کے تین انتخابات میں اسے صرف تین چار نشستیں ہی حاصل ہوئی تھیں،

جب اندرا گاندھی بنگلہ دیش بنوار ہی تھیں تب جن سنگھ کے صدر اٹل بہاری واجپائی نے اندرا کو درگا کا خطاب دیا تھا،

بنگلہ دیش بنوانے اور ہندو فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دینے کا فائدہ اندرا گاندھی کو انیس سو اکہتر میں ہوا، اندرا گاندھی نے وقت سے ایک سال پہلے ہی انتخاب کروادیا، انیس سو اکہتر میں وہ بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئیں پھر دوبارہ ہر جگہ کانگریس کا بول بالا ہو گیا، اب اندرا گاندھی ڈکٹیٹر بن چکی تھیں، بے چاری کو مودی جی کے گن معلوم نہیں تھے، نہیں تو وہ ایمرجنسی نافذ کیے بغیر ایمرجینسی کے اصولوں پر عمل کرسکتی تھیں،

اندرا گاندھی کے خلاف جب باتیں ہونے لگیں تو انیس سو پچھتر میں ایمرجنسی لگادی گئی، مگر اس سے اندرا گاندھی کی بدنامی ہوئی،

تمام بوڑھے شیروں کو نیند سے جگایا گیا،
بہار کے اعلی تعلیم یافتہ اور دانشور لیڈر جے پرکاش ناراین جو انیس سو سنتاون کے بعد سیاسی بن واس کی زندگی گذار رہے تھے، انہیں منتیں کرکے میدان سیاست میں لایا گیا، انہوں نے کانگریس اور اندرا گاندھی کے خلاف ایسی پر جوش تقریریں کیں کہ پورا ہندوستان کانگریس مخالف ہوگیا،

جے پرکاش ناراین نے سب سے بڑی غلطی یہ بھی کی کہ جن سنگھ کو بھی اپنے اتحاد میں شامل کرلیا

خلاصہ یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترقی میں اندرا گاندھی کی غلط پالیسیاں اور جے پرکاش ناراین اور نتیش کمار جیسے سماج وادی لیڈران کی کانگریس اندھی دشمنی برابر کی شریک ہیں،

فی الحال ہندوستان کو دو آندھی دشمنیاں برباد کر رہی ہیں 
1- مسلم اندھی دشمنی
3- کانگریس اندھی دشمنی
اور ان دونوں اندھی دشمنیوں کے زہر کو ہندوستانی میڈیا بڑے خلوص اور تندہی سے پھیلا رہا ہے،
انیس سو چھیاسٹھ سے کانگریس کا نعم البدل تلاش کیا جارہا ہے،
مگر ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملا

تیسرا محاذ ایک سراب اور خواب سے زیادہ نہیں ہے
اگر بی جے پی کو روکنا ہے تو تمام سیکولر اور سماج وادی پارٹیوں کو کانگریس کی قیادت قبول کرنی ہوگی، اور کانگریس کو اپنے اندر نہرو کے زمانے کا ماحول پیدا کرنے پڑے گا

نتیش کمار یا ممتا کو وزارت عظمی کا خواب دکھا کر بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ عماد قاسمی شانتا پورم کیرلا

جناب ایم ایچ ندوی کا کل کی تحریر پر تبصرہ ہے،،

۔۔۔۔۔
کانگریس اور بی جے پی کے فرق کو قوم نے سمجھا تبھی برسوں سے کانگریس کے ساتھ چمٹی رہی۔۔۔۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں مسلمانوں سے زیادہ کس نے کانگریس پر بھروسہ کیا۔۔۔۔۔

یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ کانگریس نے قوم کو اس کا کیا صلہ دیا۔۔۔ سچر کمیٹی رپورٹ، ڈاڈا، پوٹا، فسادات، ریزرویش سے محرومی، ہزاروں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو جیل، بابری مسجد پر منافقت، آر ایس ایس پر نرم رخ۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
تبصرہ و نقد ایم ایچ ندوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۰۲۴ء کے الیکشن میں سیکولر محاذ کی جیت کیسے ہو ؟ اور مسلمان اور سیکولر ووٹروں کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ اس پر مستقل تحریر آرہی ہے، آج بس ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی مسائل کے تعلق سے صرف چند باتیں کہہ کر مضمون کو ختم کرتا ہوں۔

میرا خیال ہے کہ سیاسی مسائل کے حل کے لیے باقاعدہ سیاسی تنظیم اور قیادت کی ضرورت ہوتی ہے، ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ بنیاد مسلم سیاسی پارٹی فروغ نہیں پاسکی،۔ چنانچہ مسلم لیگ سوائے کیرلا کے ہر جگہ ختم ہوگئی، جمعیۃ علماء ہند کانگریس کا ضمیمہ بن کر رہ گئی، اور ایک سماجی ملی اور فلاحی تنظیم بن کر رہ گئی،سینکڑوں علماء جنھوں نے آزادی کی لڑائی میں بہترین رول اور کردار ادا کیا اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے ملک کو آزادی دلائی،اپنی قیمتی صلاحیتوں اور تدبیروں کو اس میں صرف کیا وہ لوگ سوائے چند کو چھوڑ کر،ملکی فسادات کو دیکھ کر بھی سیاست کی گلیاروں کو خیر باد کہہ دیا اور دوبارہ مسند درس و تدریس کی طرف لوٹ گئی گئے، میرا حساس ہےکہ ان کا سیاست سے علیحدگی کا فیصلہ درست نہیں تھا،اس موقع کا فائدہ اٹھا کر وہ گروہ اور جماعت جو آج آر ایس ایس کے نام سے جانی جاتی ہے اور جن کا آزادی کی لڑائی میں کچھ بھی یوگدان نہیں تھا بلکہ جنھوں نے انگریزوں کی پشت پناہی کی،وہ ملکی سیاست میں دخیل ہونے لگے اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کردیا، یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی تقسیم کی وجہ سے بھی مسلمانوں کو ان حالات کا آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان مختلف پرانی نئی سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوگئے اور ملت اسلامیہ کے بجائے ان کی ہستی فقط مسلم اقلیت کی رہ گئی، جس کے لیے کچھ مراعات تجویز کی گئیں اور اب چند تحفظات کے مطالبے ہی ان کی سیاست کا محور ہیں۔ آج مسلمان الیکش کا ووٹ بینک بن گئے ہیں۔ وہ ایک بے چاری اقلیت سمجھے جاتے ہیں اور ہر پارٹی کے لیے ایک چراہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ کسی کو راستہ دکھا نہیں سکتے، لوگ ان کو راستہ دکھاتے ہیں، بہلاتے ہیں، پھسلاتے ہیں اور بھٹکانے ہیں۔۔ اب اس وقت ملک میں اقتدار پر قابض حکمراں پارٹی تو میرے ووٹ کو بھی حیثیت نہیں دیتی ہے، وہ اسی اور بیس کی سیاست کر رہی ہے اور اسی کو مدعی بنا کر وہ اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے، جیسا کہ پچھلے چند سالوں سے دیکھا جارہا ہے۔

مسلمان نیتا اور قائد ہر پارٹی میں ہوتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت وہاں کچھ بھی نہیں ہے، ان کا پیشہ محض پیروی اور ہاں میں ہاں ملانا ہے، ہاں اخبارات اور جلسے جلوسوں میں وہ اپنی رہبری اور قائد ہونے کے دعویدار ہیں۔ اس وقت مسلمان بالکل مجبور ہیں کہ وہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ساتھ مل کر اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کریں اور ملک سے کسی بھی طرح زعفرانی اور فرقہ پرست پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکیں، جس طرح ستر سال سے مجبورا کانگریس کو جھیلنا پڑا، کچھ دن اور مجبوری سمجھتے ہوئے، اس پارٹی کو جھیل لیں،اس وقت مسلم پارٹی بنا کر الیکشن میں کودنا یہ کسی طرح مناسب نہیں ہے۔

مضمون ختم کر ہی رہا تھا کہ اس حوالے سے ہمارے ایک عزیز مولانا عبد الستار قاسمی صاحب کا تبصرہ موصول ہوا، مناسب لگا کہ اس کو بھی شامل مضمون کر دیا جائے۔ مولانا موصوف کل کے مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں،،

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے
آپ کی تحریر سے مکمل اتفاق ہے،
مزید یہ کہ کئی سالوں سے راہل گاندھی جی اور پرینکا گاندھی جی جس طرح سے بشمول بھارت واسیوں کے لئے، موقع بموقع آواز اٹھا رہے ہیں اور آج کل حالیہ دنوں میں جس طرح بھارت جوڑو یاترا کررہے ہیں، ان کے ساتھ کانگریس پارٹی کے قدآور لیڈر حضرات بھی ہیں، ساتھ ہی نیوز چینلوں پر زیادہ تر کمینٹ اب راہل گاندھی جی کے ادھیکچھ بننے کو لے کر ہے، کیونکہ اکثر لوگ راہل گاندھی جی اور پرینکا گاندھی جی کو بہتر اور سچا لیڈر سمجھ چکے ہیں۔، یہ لوگ اس طرح کی سطحی سیاست نہیں کرتے، جیسا زعفرانی پارٹی کرتی ہے،

اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پچھلے برسوں میں کانگریس نے کیا کیا ہے؟ اس کو ایک مرتبہ بھلا دیا جائے, اور پھر ایک مرتبہ تمام ویپکچھی دل مل کر کانگریس کو ہی ملک کی باگ ڈور سونپ دیں ,تبھی آنے والے وقت میں ملک کی تقدیر اور تصویر بدل سکتی ہے

ورنہ اگر آنے والا الیکشن بی جے پی کے پالے میں گئی, تو نہ جانے اپنے پیارے دیس میں کون کون سے ملک کی تصویر دہرائی جائے گی الأمان والحفیظ
ناش

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے