Ticker

6/recent/ticker-posts

ہماری سماجی تنظیم نہیں

ہماری سماجی تنظیم نہیں

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450


پسماندہ طبقات کی مشہور تنظیم بامسیف BAMCEF ہر سال 9/ اگست کو مولنواسی دیوس مناتی، اسی تعلق سے میرے ساتھ کچھ غیر مسلم حضرات 7/ اگست 2022 بروز اتوار کومجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی سیکریٹری مولانا اعجاز احمد خان رزاقی کے پاس پہنچے، ان سے بات چیت ہوئی، انہوں نے ہم سے مجلس اتحاد المسلمین کی رکنیت Membership لینے کو کہا، راقم چونکہ مسلم سیاسی پارٹی کے حق میں ہے اسلیے میں نے فوراً AIMIM کی ممبرشپ لے لی، اس کے بعد ریاستی سکریٹری مولانا اعجاز احمد خان رزاقی صاحب نے میرے ساتھ آئے ہوئے غیر مسلم حضرات سے بھی ممبر شپ لینے کو کہا کہ آپ بھی ممبر شپ لے لیں اور ایک ایک تصویر بطور ریکارڈ بنوالیں، انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی سیاسی تنظیم میں شریک نہیں ہو سکتے، ہاں اگر آپ کی سیاست سے الگ ”سماجی تنظیم“ ہے، تو ہم اس کے ممبر بننے کے لئے تیار ہیں ۔ سیکریٹری مولانا اعجاز احمد خان رزاقی صاحب نے بتلایا کہ ”ہماری کوئی سماجی تنظیم نہیں ہے “ ۔ غیر مسلم مہمانوں نے کہا کہ اگر آپکی سماجی تنظیمیں نہیں ہیں تو یاد رکھیے آپکی ”سیاسی پارٹی“ بھی ختم ہوجائے گی ۔

ان حضرات کے مذکورہ تبصرے Remark نے مجھے چونکا دیا اور موجودہ زمانے میں کام کرنے کے ڈھنگ کے بارے میں ایک انتہائی اہم اور بنیادی نکتہ فراہم کردیا، میں نے ان کے مذکورہ بالا تبصرے کی روشنی میں کئی تنظیموں کے عروج وزوال پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ عروج وزوال تو در حقیقت اسی جملے میں پنہا ہے، آییے تھوڑی سی تفصیل میں جاتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہمارے قارئین سیاسی تنظیم اور سماجی تنظیم کے درمیان فرق کو سمجھ لیں، تاکہ معاملے کی وضاحت اچھی طرح ہوسکے ۔ کسی بھی جمہوری معاشرے میں ”سیاسی تنظیم “ سماج کا سب سے طاقتور اور فائنل ادارہ ہوتا ہے جس کے تحت سب کچھ ہوتا ہے اس کو خصوصی پاور اور خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں حتیٰ کہ سپریم کورٹ اور آئین بھی اسی سیاسی ادارے کے ماتحت ہوتے ہیں، جمہوری معاشرے میں سیاسی ادارے کی سب سے بڑی کمزروی یہ ہے کہ وہ عوام کے ووٹ کے سہارے وجود میں آتا ہے، دوسری بڑی کمزروی یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی ادارے کی اقتدار پر گرفت مستقل نہیں ہوتی ۔

جبکہ جمہوری معاشرے میں ”سماجی تنظیمیں“ طاقت و اختیار اور دائرہ کار و اثرات میں محدود ہوتی ہیں اور سیاسی ادارے و آئین کے ماتحت بھی ہوتی ہیں، مگر سماجی تنظیموں کی سب سے بڑی خوبی اور طاقت یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لیے مستقل ہوتی ہیں، وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ ذہین افراد کے دماغ سے چلتی ہیں، دوسری خوبی یہ ہے کہ سماجی تنظیموں سے نظریوں میں نکھار اور پھیلاؤ آتا ہے، تیسری خوبی یہ ہے کہ سماجی تنظیمیں سیاسی اداروں کو حمایت اور ان کی راہنمائی کرتی ہیں ۔ سیاسی ادارہ یا پارٹی اپنی کمزوریاں سماجی تنظیموں کے توسط سے پوری کرتا ہے، جبکہ سماجی تنظیمیں اپنے دائرہ اثر اور اپنی بقا کے لئے سیاسی حمایت حاصل کرتی ہیں ۔

بی جے پی کچھ بھی نہیں اگر آر ایس ایس ایس اور اسکی سماجی تنظیمیں نہ ہوں خیال رہے کہ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے، جو مختلف میدانوں میں کام کر رہی ہیں ۔ کانگریس اسی لیے ناکام ہوئی کہ اس نے اپنی توجہ سماجی تنظیموں سے بالکل ہٹالی، دیگر سیاسی پارٹیوں کی سماجی تنظیمیں سرے سے موجود ہی نہیں ۔

سیاسی ادارے کی تشکیل، بعد کی چیز ہے، اس سے پہلے ایک نظریہ کے تحت سماجی تنظیمیں قائم کی جاتی ہیں، پھر ان کے ذریعے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے، افراد تیار کیے جاتے ہیں، حالات کا گہرائی سے جائزہ لیا جاتا ہے، مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست بعد میں قائم ہوئی، مکہ کے 13/ سالوں کی محنت کے بعد، ایسٹ انڈیا کمپنی ”برٹش گورنمنٹ“ کے روپ میں ڈھلی مگر تقریباً دوسو سال بعد، جماعت اسلامی پاکستان پر تجزیہ کرتے ہوئے مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی نے لکھا کہ جماعت اسلامی نے انتخابی سیاست میں حصہ لیکر جلد بازی کی، ابھی مزید خاموشی کے ساتھ نوجوانوں پر محنت کرنی چاہیے تھی، مصر میں اخوان المسلمین سماجی تنظیم کے طور پر ابھری اور وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹی بھی بن گئی، کچھ مدت کے لیے اقتدار بھی حاصل کیا ۔ جمعیت علمائے ہند سیلاب زدگان اور قیدیوں کو چھڑانے تک اسلیے محدود ہے کہ جمعیت نے کبھی اپنے نظریے کی بنیاد پر سیاست و اقتصادیات وغیرہ میدانوں تک توسع پیدا نہیں کیا ۔

اس تفصیل کی روشنی میں مسلمان براہ راست سیاسی پارٹی تشکیل تو دے سکتے ہیں مگر اسکو سماجی تنظیموں کے بغیر برقرار نہیں رکھ سکتے، پودا تو لگا سکتے ہیں مگر اسکو سماجی تنظیموں کے کھاد پانی کے بغیر تناور درخت نہیں بنا سکتے، مسلمانوں میں جو تھنک ٹینک ہیں ان کو چاہیے کہ وہ سماج و معاشرے کی اسی نہج پر تشکیل کریں، سماج و معاشرے سے متعلق ہر میدان میں چھوٹے چھوٹے گروپ اور تنظیمیں تشکیل دیں، ڈاکٹروں کے سنگٹھن بنائیں، وکیلوں کی تنظیمیں بنائیں، اقتصادیات کے میدان میں منڈل اور کمیشن بنائیں، یونیورسٹی اور کالجز میں طلبہ تنظیمیں بنائیں، مدارس اسلامیہ کے فارغین کو منظم کریں، ائمہ کی تنظیم کریں، ملازم پیشہ لوگوں کو منظم کریں، ریٹایرڈ لوگوں کو منظم کریں، خواتین کی تنظیمیں بنائے ۔ یہ تمام تنظیمیں و افراد طاقتور سیاسی پارٹی کی تشکیل دے سکتے ہیں، ان تمام افراد و تنظیموں میں جو چیز قدر مشترک ہو، وہ نظریہ ہو اور بس ۔ مذکورہ تیاری کے بغیر براہِ راست سیاسی پارٹی کی تشکیل ادھم بازی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اچھی طرح سمجھ لیں بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے جس قدر ووٹ درکار ہیں اسی قدر افراد آر ایس ایس نے کسی نہ کسی شکل میں جوڑے ہوئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی سماجی تنظیمیں نہیں ہیں، تنظیمیں تو ہیں مگر وہ زیادہ تر غریبوں بیواؤں اور زمانے کے ستم رسیدہ لوگوں کے نام پر بنی ہوئی ہیں ان کی کیا تنظیمیوں کی کیا حالت ہے ؟ کسی گمنام دل جلے نے ان تنظیموں کا کیا نقشہ کھینچا ہے پڑھیے اور کف افسوس ملیے ۔

”صرف اوکھلا دہلی کے پتے پر چار ہزار سے بھی زیادہ تنظیم (این جی او) رجسٹرڈ ہیں۔ اسی طرح مصطفی آباد سے جامع مسجد اور گڑگاؤں سے غازی آباد تک این سی آر میں کم از کم 20 ہزار تنظیمیں ہیں، جن کے کارکن صبح و شام عوام کے دکھ میں مبتلا رہتے ہیں۔ ملک بھر میں ایسی لاکھوں اور دکانیں ہوں گی۔ ان تمام دکانوں میں 99.9% عطیات یا سرکاری گرانٹ پر منحصر ہیں۔ ان میں سے صرف 0.5% ایسی ہیں کہ کل عطیات کا 20% ضرورت مندوں تک پہنچاتی ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 90% سے زیادہ تنظیموں کا صحیح طریقے سے آڈٹ نہیں ہوتا۔ آڈٹ کے نام پر سی اے جعلی سرٹیفکیٹ بناتا ہے۔ ان میں سے کسی کا پچھلے دس سالوں کا آڈٹ دیکھ لیں، کل چندہ کا حساب کیا ہوگا۔ لیکن کاغذ پر جو کچھ ہے اس کا 90% انتظامی اور روزمرہ کے اخراجات میں ختم ہو جاتا ہے۔ باقی جن کو 80G، یا FCRA ملا، وہ منی لانڈرنگ اور بین الاقوامی عطیات کے پاور ہاؤس بن گئے ہیں۔

ان تنظیموں کا طریقہ کار شاندار ہے۔ فرض کریں کہ کہیں سیلاب آگیا ہے تو ان کے ممبران جلدی سے پانی یا کشتی میں بیٹھ کر کلک کی گئی تصویر حاصل کریں گے، پھر اسے دکھانے کے بعد وہ دہلی سے دبئی اور پٹنہ سے دوحہ تک آن لائن/آف لائن پرچی کاٹیں گے۔ اسی طرح روہنگیائی پناہ گزین، مظفر نگر فسادات اور بہار کے سیلاب میں سرگرم مہاویر قسم کے لوگوں کی سوشل میڈیا پر تھوڑی سی تحقیق کریں۔ جو لوگ دس پندرہ سال پہلے ٹوٹی چپل میں دہلی آئے، وہ گھر، گاڑی اور زمین والے بن گئے۔ جن کے گھر میں کبھی روٹی کی قلت ہوتی تھی، نان شبینہ کے محتاج تھے وہ پارٹی کرنے اور دینے والے بن گئے۔ اگر مال حرام میں آیا ہو تو اس کی اہمیت ہی کیا ہوگی؟

اپنے نام نہاد ہیروز کے بارے میں ذاتی طور پر معلومات کریں۔ فسادات میں جلے ہوئے گھر، بکھرے ہوئے سامان یا جھلسے ہوئے چہروں کو دیکھ کر جو پرچی کٹ جاتی ہے اس کا دس فیصد بھی جائز حقدار تک نہیں پہنچتا۔ آپ کو شاید حیرانی ہو، لیکن جو لوگ عوام سے زکوٰۃ وصول کرتے ہیں وہ عوام کے پیسوں پر شراب پیتے ہیں، سگریٹ کے ڈبے پھونکتے ہیں، ڈنر گٹکتے ہیں اور سونے سے پہلے اگلے دن کی پرچی کا انتظام کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم پیسوں کے بدلے سامان دیں تو؟ پھر آپ کو اوکھلا، جعفرآباد، سیلم پور، اور جہانگیر پوری کے درجنوں دکاندار بتائیں گے کہ فساد متاثرین کے راشن کے تھیلے، کمبل، برتن اور دیگر اشیاء کس طرح بازار میں فروخت ہوتی ہیں۔ مجموعی طور پر سماجی خدمت دھوکہ دہی و جعل سازی تک محدود ہے۔ رمضان میں 50فیصدی حصے داری پر مسجد مدرسے کی پرچی کاٹنے والے مولوی تو خواہ مخواہ ہی گالی کھا رہے ہیں، اصلی گِدھ بڑے مولوی، سماجی کارکن، نام نہاد صحافی، ڈیلر، ہول سیلر ہیں، جو آپ کو زیادہ منظم طریقے سے بیچ رہے ہیں۔ یہاں لوگ پریشان ہیں کہ زکوٰۃ ہے، چندہ ہے، صدقہ ہے، امداد ہے، پھر بھی بھکاریوں کی تعداد کیوں بڑھ رہی ہے؟ “

یاد رکھیے ! اس قسم کی حرام دھندے باز تنظیموں سے انقلاب تو نہیں آسکتا، ہاں خدا کا عذاب ضرور آسکتا ہے ۔
8/ ستمبر 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے