Ticker

6/recent/ticker-posts

کل ہند نمائندہ اجلاس امت دہلی : نقد و تبصرہ

کل ہند نمائندہ اجلاس امت دہلی

( نقد و تبصرہ )


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

مولانا ابوظفر حسان ندوی، پروفیسر محسن عثمانی ندوی، مولانا عطاء الرحمن وجدی، مولانا فرید الدین قاسمی دارالعلوم وقف، پی ایم اے سلام صاحب کالی کٹ، امیر، وحدت اسلامی ہند جناب محمد ضیاء الدین صدیقی صاحب وغیرہ کی مشاورت سے 20/21/ اگست بروز ہفتہ و اتوار 2022 کو نیو دہلی ابوالفضل انکلیو کے مشہور ہوٹل Rever view میں امت مسلمہ کی حالت زار پر غور وخوض اور کوئی لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے ایک دو روزہ نمائندہ اجلاس بلایا جس میں ملک کے مختلف علاقوں اور مختلف تنظیموں سے ڈیڑھ سو کے قریب علماء کرام، پروفیسرز، دانشوران، صحافی و قلمکار حضرات نے شرکت کی، مذکورہ ”کل ہند نمائندہ اجلاس امت“ کی مکمل روداد تو ”ماہنامہ وحدت جدید“ میں شائع ہوگی ۔ ہم اپنے اس مضمون میں ایک تجزیہ نگار کی حیثیت سے مذکورہ اجلاس پر تبصرہ کریں گے خوبیاں اور خامیاں بیان کریں گے ۔ خامیاں بیان کرنے کا مقصد ہرگز ہرگز نفرت و عداوت نہیں بلکہ جیسے تعریفی کلمات کسی کا حوصلہ بڑھاتے ہیں بعینہ ایسے ہی اخلاص پر مبنی تنقید نکھار پیدا کرتی ہے، تعریف و تنقید حوصلہ مندوں کے اٹھائے ہوئے قدم کا لازمی جز ہے، پست ہمت افراد نہ قدم اٹھاتے ہیں نہ تعریف و تنقید سنتے ہیں ۔

اس اجلاس کی سب سے پہلی خوبی یہ ہے کہ منتظمین نے عوامی بھیڑ اکھٹا نہ کرکے براہِ راست سمجھدار و باشعور افراد کا اجلاس بلایا، دوسری خوبی یہ ہے کہ مذکورہ اجلاس میں شریک تمام چھوٹے بڑے افراد کو بولنے کا وقت دیا گیا، سوال و جواب کا وقفہ دیا گیا، بڑوں کو 15/ منٹ اور نوجوانوں کو 5/ منٹ ۔ ورنہ عام طور پر مسلمانوں کی میٹنگوں میں شخصیات خود ہی بولتی ہیں اور خود ہی تولتی ہیں، بقیہ تمام افراد اور بالخصوص نوجوان حضرات تو ان کے رعب اور زائد از ضرورت ادب میں دبے رہتے ہیں ۔

تیسری خوبی یہ ہے کہ یہ اجلاس قدیم وجدید تعلیم یافتہ افراد و شخصیات کا حسین سنگم تھا ۔ چوتھی خوبی یہ ہے کہ اجلاس کے دونوں دنوں میں جس کسی نے جو بھی کچھ کہا ہے اسکو ”نکات“ کی شکل میں لکھا گیا اور باقاعدہ اس کو پڑھ کر بھی سنایا گیا، انہیں نکات کی بنیاد پر نمائندہ اجلاس کا اعلامیہ تیار کیا گیا ۔ پانچویں خوبی یہ ہے کہ اجلاس میں مدعو تمام حضرات وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ جم کر بیٹھے رہے، چھٹی خوبی یہ ہے کہ کوئی بھی شخصیت دوران میٹنگ آئی ہو یا گئی ہو، اس نے ”ہٹو بچو“ کا ماحول پیدا نہیں کیا وہ انسانوں کی طرح آئے اور شریفوں کی طرح بیٹھ گئے ۔ عام طور پر ہماری مذہبی قیادت کی میٹنگوں میں شخصیات ہی اول و آخر ہوتی ہیں، ان کے بغیر میٹنگیں چل نہیں سکتی، یہ شخصیات آتی ہیں تو میٹنگیں دمک اٹھتی ہیں، شخصیات گئی تو ہال میں الو بولنے لگتے ہیں، اچھی طرح سمجھ لیں اس قسم کی میٹنگیں ہرگز ہرگز میٹنگ نہیں ہوتی بلکہ مستقبل کی قیادت کا مقبرہ ہوتی ہیں۔

اس اجلاس میں کچھ باتیں انتہائی اہم اور کارآمد کہی گئی جو اگرچہ ”اعلامیہ“ میں نہیں آسکی — اعلامیہ عام طور پر قانونی اور تکنیکی الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے وہ بہت مختصر ہوجاتا ہے — مگر وہ باتیں مجھے بہت پسند ہیں، افادۂ عام کے لیے پیش خدمت ہیں ۔

 کانفرنس میں ویسے تو بہت سی آراء اور تجاویز آئی مگر راقم کو ان میں سے چار باتوں پر تبصرہ کرنا ہے، وہ چار باتیں یہ ہیں، ایک یہ کہ سپریم کورٹ کے غلط اور غیر آئینی فیصلوں پر بھی تنقید کریں اور اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائیں، توہین عدالت ہورہی ہے تو ہونے دیں، دوسرے یہ کہ سوشل میڈیا کے میدان میں باقاعدہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں کو منصوبہ بند طریقے دور کرنا چاہیے، تیسرے غیر مسلم افراد و پسماندہ طبقات سے تعاون ضرور کریں مگر یاد رہے کہ الکفر ملۃ واحدہ، چوتھے غیر مسلم حضرات میں اسلام کی دعوت و تبلیغ ۔ مذکورہ بالا چاروں باتیں چار الگ الگ موضوع اور الگ الگ میدان ہیں، ہماری قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ سارے ہی کام بذات خود کرنا چاہتے ہیں کسی دوسرے کو نہ موقع دیتے ہیں نہ مدد کرتے ہیں نا ہی ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے جو یہ کام کر رہے ہوں ۔

سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بامعنی تنقید اور منطقی استدلالات کی بنیاد پر فیصلوں کو غیر آئینی قرار دینا ہرگز ہرگز ”مذہبی قائدین“ کا کام نہیں، یہ کام اسی میدان کے ماہرین کے سپرد کردینا چاہیے ۔ ہماری قیادت نے سوشل میڈیا پر پہلے سے کام کرنے والوں کی نہ حوصلہ افزائی کی، نہ ان کی مالی مدد کی اور نہ ان کو نظریہ و انفراسٹرکچر فراہم کیا، نئی ٹیم اور نئے چینلز بنانے سے زیادہ ضروری ہے کہ جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کو مزید تقویت پہنچائی جائے مثلاً رضا گرافی، ہارون ندوی کا چینل Viral news Live انصار عزیز ندوی کا سیدھی بات، عارفہ خانم شیروانی، ڈاکٹر عرشی خان، مولانا ندیم الواجدی اور ان کی پوری ٹیم، نو عمر بچہ عمار خان، وغیرہ ۔ اگر ہماری قیادت ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے ان کے مالی مسائل کو حل کرے، ان کو نظریہ فراہم کرے، ان حضرات کی پریزنٹیشنز کو عربی اور انگلش وغیرہ زبانوں میں شائع کرائے، تو سوشل میڈیا پر جنگ کو ہم جیت سکتے ہیں ۔

غیر مسلم حضرات سے تعاون — وہ بھی بغیر سیاسی قوت اور سماجی تنظیموں کے— بے فائدہ اچھل کود اور ماضی کی ناکامیوں کا تسلسل ہے، غیر مسلم حضرات سے تعاون اسی وقت سود مند ثابت ہوگا جبکہ ہماری ایک مضبوط سیاسی پارٹی ہو، ہماری تنظیمیں لیٹر پیڑ کلچر اور میٹنگ کلچر سے نکل کر زمینی سطح پر ہوں، مختلف میدانوں کی الگ الگ تنظیمیں ہوں، یہ تنظیمیں ایک وفاق کے تحت تو ہوں مگر آزاد ہوں، یہ تنظیمیں معاہدوں اور شرائط کے ساتھ تعاون لینا اور تعاون دینا جانتی ہوں، تب جاکر ”مطلوبہ تعاون“ نتیجہ خیز ہوگا ۔

غیر مسلم حضرات میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جاچکا، کام کرنے والے کر بھی رہے ہیں، مگر ہمارے مدارس جنکا یہ اصل کام تھا وہ غیر مسلم حضرات میں دعوت و تبلیغ کے کام، ڈھنگ اور لٹریچر سے تقریباً ناواقف ہیں، مدارس اسلامیہ کو یہ خلا پر کرنا چاہیے ۔

میرا تعلق قلم و قرطاس سے ہے، اس اجلاس کے ذریعے بعض قلمکاروں سے بھی ملاقات ہوئی جن میں سرفہرست پروفیسر محسن عثمانی ندوی صاحب ( پیدائش 1947) ہیں موصوف کی تحریریں اردو ادب کے اعتبار سے بھی معیاری ہیں اور علومِ اسلامیہ کے اعتبار سے بھی، میں نے ان سے جی بھر کر گفتگو کی، بہت سے سوال پوچھے، سرسید اور شبلی میں فرق پوچھا، طالبان کے بارے میں ان کی رائے جانی، 30/ جولائی 2022 کو ہونے والی آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کانفرنس میں ان کی شرکت کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے اس کانفرنس میں شرکت پر افسوس کا اظہار کیا، وغیرہ وغیرہ ۔ عثمانی صاحب اس بات سے بہت خوش ہوئے کہ میں پسماندہ طبقات کے لوگوں میں کام کر رہا ہوں، اس تعلق سے عثمانی صاحب نے میری مزید راہنمائی کی، موصوف نے میری ذاتی ڈائری میں فیض احمد فیض کا مندرجہ ذیل شعر اپنے قلم سے لکھا ۔


جنوں میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے
اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے​

اختر عدیل صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جوکہ اچھا اور تحقیق پر مبنی لکھتے ہیں، انہوں نے ”ہندو مسلم تعلقات اور فریضہ دعوت و جہاد “ نامی ایک کتابچہ بھی تقسیم کیا ۔ ممبئی کے ڈاکٹر سلیم خان صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جن کے مضامین ملک کے مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے ہیں، ڈاکٹر صاحب حاضر جواب بھی ہیں اور ہنسنے ہنسانے والے بھی ۔

اجلاس کے منتظمین نے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کے آرام کا بھرپور خیال رکھا ۔ نمائندہ اجلاس میں کچھ مشہور شخصیات بھی شریک رہی یہ شخصیات عام طور پر وہ تھیں جنکو بھارت کے پس منظر میں باشعور، اعلیٰ تعلیم یافتہ، جرأت مند اور کسی حد تک بے باک سمجھا جاتا ہے، مثلاً مولانا سجاد نعمانی، پروفیسر محسن عثمانی، ڈاکٹر سلیم خان صاحب ممبئی، ساجد صحرائی صاحب کنوینر، ڈاکٹر ضیاء الدین، پی ایم اے سلام صاحب ( کالی کٹ )، ڈاکٹر شمس الزماں، ڈاکٹر انور علی خان، پروفیسر ابراہیم خلیل عابدی، ڈاکٹر انیس، عبد الرشید اگوان، مولانا عطاء الرحمن قاسمی، عدیل اختر صاحب، ڈاکٹر اسماء زھرا صاحبہ ( حیدرآباد )، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں قانون کی طالبہ محترمہ وردہ صاحبہ، محترمہ آسیہ فلاحی صاحبہ، سمیع اللہ خان ندوی، PFI کے نوجوان، مولانا عبداللہ مغیثی، مولانا ابو ظفر حسان ندوی، آصف انظار ندوی ۔

پروگرام میں شرکت کے لیے میں انتہائی ممنون و مشکور ہوں جناب اقبال احمد فلاحی صاحب (لکھنؤ) کا جن کے پے در پے اصرار، یاد دہانی اور شفقت نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس اہم اور باوقار اجلاس میں شریک ہوں اور مسلم قیادت کو بہت قریب سے دیکھوں ۔
6/ ستمبر 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے