صفدر امام قادری: آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
قاسم خورشید
نیک صالح خوب سیرت تازہ دم ذہین ذی شعور صفدر امام قادری سے میری ملاقات آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں اس وقت ہوئی تھی جب طالب علمی کے زمانے میں عارضی اناؤنسر کے طور پر میں آکاش وانی پٹنہ کے اُردو پروگرام سے وابستہ تھا اس وقت صفدر اپنے والد اشرف قادری صاحب کے ساتھ ریڈیو اسٹیشن آئے تھے تب بیتیا سے ٹاکر کے طور پر اُن کے والد مدعو کیے جاتے تھے۔
صفدر ایک صالح بیٹے کی طرح اُن کے ساتھ ہوا کرتے تھے ریکارڈنگ کے بعد اکثر چائے کے دوران گفتگو میں ہم کچھ کچھ کھلتے تھے حالانکہ صفدر بنیادی طور پر کم گو ہی تھے مگر صلاحیتیں اپنی خوشبو لے کر آیا کرتی ہیں میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ رواداری کے ساتھ علمی طور پر بھی شروع سے صفدر کا اختصاص رہا اور یہ بڑی وجہ تھی کہ جلد ہی اپنی ایک شناخت قائم ہو گئی وہ خود ریڈیو میں بحیثیت مقالہ نگار آنے لگے اردو کے معیاری رسائل اور اخبارات میں روشن ہوئے اور بڑی خوبی یہ تھی کہ تحقیق سے جنون کی حد تک رشتہ استوار ہوا جس کی جھلک اُن کے مضامین میں دیکھی جانے لگی۔
بیتیا کو میں نے صفدر کے حوالے سے جانا میں اپنے ڈرامے مضامین کہانیاں اور شاعری کے ساتھ بےحد فعال تھا بہار اور بیرون بہار کے سفر پر بھی اکثر ہوا کرتا کئی بار بیتیا کا سفر بھی رہا صفدر سے فطری نزدیکیاں بڑھیں پٹنہ میں جہاں کہیں میں ہوتا صفدر پٹنہ آتے تو میرے ساتھ ہی رہتے ہم اپنی استطاعت بھر نشست بھی کرتے اور خوشی تب زیادہ ہوتی کہ بڑی معتبر یت کے ساتھ رپورٹ شائع ہوتی اور مرکزیت کی وجہ سے سیریس حلقہ ہم سے قریب تر ہوتا گیا صفدر کے علمی و ادبی سفر میں تجسّس اور جنون کا شائبہ بدرجئہ اتم موجود تھا میری سمجھ سے قاضی عبدالودود کے بعد بہار کے پاس کوئی ایسا محقق نہیں تھا جس کی معتبر یت تحقیق کے لیے سند یافتہ ہو شروع سفر میں صفدر کو دیکھ کر یہ اُمید ضرور اُبھری تھی مگر صفدر کے سامنے زندگی کو اپنے طور پر جینے اور پھر جدوجہد کے لامتناہی سلسلے سے سینہ سپر ہونے کا معاملہ بھی درپیش تھا مرکزیت بےاماں ہو رہی تھی مگر بنیادی وصف زندہ و تابندہ تھا۔
پٹنہ کے درگاہ روڈ میں میرے اموں نے طالب علمی اور جدوجہد کے زمانے میں ایک چھوٹا سا کمرہ دے رکھا تھا جس میں سنگل بیڈ کی ایک چوکی اور پرانے طرز کا مختصر سا فرنیچربھی تھا دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کمرے میں کوئی دروازہ نہیں تھا صفدر بھی طالب علمی کے دور میں تھے پٹنہ قیام کے دوران ہم دونوں آرام سے چت ہوکر اسی چوکی پر دیر رات تک گفتگو کرتے رہتے کب نیند آجاتی پتہ نہیں چلتا اس دوران میں نے محسوس کیا کہ صفدر کے اندر ایک سنجیدہ تخلیق کار بھی چھپا ہے مجھے کئی نظمیں اور غزلیں سننے کا موقع ملا صفدر کی شاعری میں جدید عہد کی تصویر کشی کا اپنا الگ رنگ تھا رسائل اور نشستوں میں صفدر کے رنگ کو خوب خوب پسند کیا جانے لگا مگر ترجیحات میں تحقیق و تنقید کو ہی آگے رکھا صفدر کی قربت بےحد تقویت پہچانے لگی اور ہم ایک فیملی ہو گئے اب ہماری گفتگو میں سازینہ بھی اپنی نظموں کے ساتھ صفدر کی زبان سے ادا ہونے لگی اس کی کئی نظمیں صفدر نے سنائیں مزے کی بات یہ تھی کہ صفدر میں ایک خوبصورت تبدیلی آنے لگی تھی اور بلا شبہ یہ شدّت تعمیری اور تخلیقی سطح پر صفدر کو مضبوط کر رہی تھی مہذب اور خوش رنگ طور نے اسے اور متحرک کر دیا اب سنجیدہ محفلوں رسائل اور کتابوں میں شمولیت ناگزیر ہو گئی اُردو کے ساتھ ہندی میں بھی عمدہ معیار و اقدار کا تعین ہونے لگا ہندی حلقے میں صفدر کی پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ اُس عہد میں ہندی کی سبھی معتبر شخصیتیں طرفدار ہوگئیں کئی پروجیکٹ کئے اور تاریخ رقم کر ڈالی۔
سلسلہ وقت کے ساتھ طویل ہوتا گیا تجربے مشاہدے صلاحیتوں کے قالب میں ڈھلتے رہے صفدر نے تعلیم مکمل کی اور میری کاوش نے مجھے سرکاری عہدے پر فائز کر دیا امی کے ساتھ میں اپنے سرکاری کوارٹر میں رہنے لگا ذمےداری بہت بڑھ گئی دن رات کام اور وہ بھی بہار کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے لیے ایک دم نیا یعنی ٹیلی ویژن کے لیے ایجوکیشنل پروگرام بنانا بہرکیف میں نے یہ کام کامیابی سے شروع کیا بہار بھر میں شوٹنگ کرتا رہتا صفدر کی سفارش پر بیتیا سے بھی ٹیلنٹ کا انتخاب کرتا رہا صفدر اب پٹنہ قیام کے دوران میرے کوارٹر میں ٹھہرتے اور یہاں ہندی اردو دوستوں کی محفلین سجتیں صفدر نے اپنی عرق ریزی اور ریاضت سے ہندوستان بھر میں شناخت قائم کر لی تھی پڑھا لکھا طبقہ انکی صلاحیتوں کا معتقد ہو چکا تھا ہم بھی صفدر کے علمی اعتقادات سے استفادہ کرتے ہوئے بےحد مسرور رہتے اسی دور میں یہاں کئی بڑے مشاعرے ہوئے جس میں ملک کی عظیم شخصیتیں شامل ہوا کرتیں۔
مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں فلم اُمراؤ جان کا بہت کریز تھا خصوصی طور پر شہر یار کی ایک جھلک کے لیے لوگوں میں عجب جنون دیکھا گیا شہر یار مجھے اور صفدر کو لگاتار رسائل میں شائع ہونے کی وجہ سے جانتے تھے جب مشاعرے میں پٹنہ آئے تو شمیم فاروقی نے انکی ذمّے داری مجھے دی تب صفدر بھی پٹنہ میں موجود تھے شہر یار سے ہماری تفصیلی ملاقات ہوئی اور یہ سلسلہ تا دم حیات رہا صفدر امام قادری نے شہر یار کے حوالے سے کئی خوبصورت کام کیے جو شہر یار کو سمجھنے کے لیے بےحد ضروری ہے اسی طرح جب ندا فاضلی اور افتخار امام صدیقی پٹنہ تشریف لاتے تو میرے غریب خانے پر ہی ٹھہرتے ہم صفدر کو ضرور تلاش کر لیتے ندا فا ضلی اور افتخار صدیقی سے ہم نے صفدر کی صلاحیتوں اور خوبیوں کا حوالہ دے کر باضابطہ طور پر ملوایا دونوں اس قدر متاثر ہوئے کہ کبھی ایسا نہ ہوا کہ ندا صاحبِ یا افتخار صدیقی کا فون میرے پاس آیا ہو اور انہوں نے صفدر کی خیریت نہ دیافت کی ہو یہ تھی کم عمری میں علم کی خوشبو جس کا اُردو کا لیجنڈ گروپ بھی قائل ہو چکا تھا
ایک روز میں سلطان گنج قیام گاہ سے دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک صفدر امام قادری کچھ پریشانی کے عالم میں سازینہ راحت کے ساتھ آگئے سازینہ سے بہ نفسِ نفیس میں پہلی بار ملا تھا ڈرائنگ روم میں اُنہیں بٹھایا اندرون خانہ کو خبر دی کچھ دیر میں ہی شاہدہ آکر ملیں اور سازینہ کو زنان خانے میں لے گئیں بعد میں ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا اور انہیں آرام کرنے کا مشورہ دیکر دفتر چلا گیا دونوں کئی دنوں تک ہمارے ساتھ رہے پھر اپنے مشترکہ دوست اور ہمنوا گیان دیو تریپا ٹھی سمیر کے مشورے پر دونوں کے نکاح کا عمل شروع کیا پندرہ بیس دنوں کی تیاریوں کے بعد راجگیر خانقاہ میں اُن کا باضابطہ عقد ہوا اور اس کے بعد دونوں کے گھر والوں کی وقتیہ ناراضگی بھی ختم ہوئی اور ہمیں دعاؤں کے فیض سے نوازا گیا اب اخلاقی ذمےداری کی وجہ سے باضابطہ صفدر کے لئے ایک نوکری کا انتظام کرنا تھا ہم نے کوشش شروع کی اور ایک دن شاعر اثر فریدی اور میں نے قومی تنظیم کے ایڈیٹر جناب اشرف فرید سے صفدر کی صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فی الحال نوکری کی درخواست کی اشرف صاحب معترف ہوئے اور صفدر باضابطہ طور پر قومی تنظیم سے جُڑ گئے صلاحیت ایسی تھی کہ اپنی پہچان ازخود بن گئی اور یہاں سے سماجی سروکار اور بڑھنے لگا پھر دونوں ایک کمرہ لے کر الگ رہنے لگے مجھے بھی پٹنہ میں ایک طاقت کا احساس ہوا صفدر نے اپنی تحریروں اور کاوشوں سے جلد ایک الگ سماج بنا لیا پھر وہ باضابطہ لیکچرر ہوئے مگر پٹنہ سے باہر پوسٹنگ کی وجہ سے ہم سب کچھ دنوں پریشان بھی رہے مگر جلد ہی کالج آف کامرس میں پوسٹنگ ہو گئی اور صفدر کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں آئیں دو بچے ہوئے اُن کی بہترین پرورش کی بچی کی شادی بھی بہت ہی شاندار ڈھنگ سے کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ تیز تر ہوتا گیا دوسری طرف میں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ ہندوستان گیر سطح پر ایڈورٹائز کلاس 1 آفیسر کے واحد پوسٹ پر منتخب کر لیا گیا اور پھر بعد میں بہار کابینہ کے فیصلے کے بعد مجھے ایس سی ای آر ٹی بہار کا ہیڈ لینگویجز بنایا گیا اس دوران ہم نے سبھی نو زبانوں کے لیے نصابی کتابیں تیار کروائیں اُردو گروپ سے صفدر7 وابستہ رہے اور ایک بار پھر اسی کیمپس میں صفدر سے ملاقات کی کڑیاں پھر سے جڑیں صفدر نے اپنے کالج میں کئی بڑے پروگرام کیے جس میں میری شمولیت رہی ارتضیٰ کریم جب دلّی یونیورسٹی کے ہیڈ ہوئے تو بڑے پروگرام کا انعقاد کیا جس میں دنیا بھر میں دلّی یونیورسٹی سے وابستہ افراد کے ساتھ اس فنکشن میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا صفدر بھی مہمان کے طور پر شامل ہوئے یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں جگجیت سنگھ کو روبرو سننے کا موقع ملا تھا اس پروگرام میں ندا فا ضلی صاحب سے ملاقات ہوئی اور ہم نے بہت سی یادیں تازہ کیں۔
صفدر امام قادری سے اب عموماً بڑی کانفرنسوں میں ہی ملاقات ہوا کرتی تھی چاہے وہ این سی پی یو ایل کی ورلڈ کانفرنس ہو آل انڈیا مشاعرہ ہو یا کوئی نیشنل سی می نار۔
صفدر نے ادب میں ہمیشہ ایک الگ معیار کے ساتھ اپنی7 موجودگی کا احساس دلوایا ہے کچھ ادارے سرکاری یا غیر سرکاری اخراجات پر عموماً رسمی طور پر ورک شاپ کروا تے ہیں ریکارڈ کے لیے بھلے یہ کام ہو جاتا ہے مگر متعلق اداروں کو ٹھگنے والے زیادہ پیش پیشِ رہتے ہیں اسی لیے بہت کاوشوں کے بعد بھی ایسے مافیاؤں کی وجہ سے سب سے زیادہ ایجوکیشن کی حالت ہی خراب ہے کوشش کے باوجود ان سے ہمارا نظام مکت نہیں ہو سکتا مگر جنہیں جنون ہے وہ اُن کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذاتی خدمات سے طوفان میں بھی چراغ روشن رکھتے ہیں ایسے خدمت گزاروں میں بلا شبہ صفدر امام قادری کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جس نے مشن بناکر تعلیم کے فروغ کی کوشش کی ہے۔
صفدر کی کاوشوں کا سلسلہ بہتی ہوئی لہروں جیسا ہے جو کناروں کو چھو کر لوٹ جاتی ہیں یہاں منزل تحریک سے تعبیر ہے ٹھہراؤ سے نہیں۔
جس دن سے چلا ہوں مِری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
🟣🟣🟣
سابق ہیڈ لینگویجز ایس سی ای آر ٹی بہار
9334079876
0 تبصرے