Ticker

6/recent/ticker-posts

صرف وظائف کے سہارے قیادت

صرف وظائف کے سہارے قیادت


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل 8860931450


مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب نے 26/ ستمبر 2022 کے اپنے ایک لیٹر پیڑ پیغام میں قنوت نازلہ اور ہر نماز کے بعد اوراد و وظائف پڑھنے کی تلقین کی ہے، یہ تلقین ملک کے موجودہ پس منظر میں کی گئی ہے جس میں مودی حکومت نے PFI اور اسکی ذیلی تنظیموں کے خلاف پورے ملک میں کریک ڈاؤن کیا ہؤا ہے پچھلے پانچ دنوں کے اندر ملک بھر سے 500 کے قریب افراد ظلما جیلوں میں ٹھونس دیے گئے ہیں، جبکہ ماضی میں ہماری تنظیمیں PFI کی حمایت کرتی رہی ہیں، اور اب تازہ ترین خبروں کے مطابق PFI پر پانچ سال کے لئے پابندی عائد کردی گئی ۔


مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب ایک باشعور و حوصلے مند عالم دین کی حیثیت سے مشہور ہیں، وہ خود بھی فرسودہ اور ناکارہ ہوچکی قیادت پر سخت تنقید کرچکے ہیں، مگر یہ لیٹر پیڑ پیغام بتلاتا ہے کہ مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب بھی فرسودہ اور ناکارہ ہو چکے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں قیادت کا کام ہرگز ہرگز ”اوراد و وظائف“ بتلانا نہیں تھا بلکہ انکی اصل ذمے داری تھی کہ وہ PFI کے تعلق سے اپنا موقف واضح کریں، آیا حکومت کا کریک ڈاؤن صحیح ہے یا نہیں ؟ PFI کے خلاف ہونے والی کاروائیاں دستوری ہیں یا نہیں ؟ یہ کاروائیاں ظلم کے دائرے میں آتی ہیں کہ نہیں ؟ پسماندہ طبقات کی تنظیموں — جن سے وہ تعلقات بڑھاتے رہے ہیں — کو آپ نے معاملے سے باخبر کیا ہے کہ نہیں ؟

اگر اوراد و وظائف ہی بتلانے تھے تو اپنی خانقاہوں سے باہر کیوں نکلتے ہو ؟ جب آپ کو باہر کی دنیا کا تجربہ نہیں تو سیاست کے میدان میں کیوں چھلانگ لگاتے ہو ؟ مولانا آپ سے زیادہ سمجھدار اور چالاک تو دوسرے قائدین نکلے، وہ کچھ بھی نہیں بولے اور اب تک حالت مراقبہ میں ہیں، جب چمن اجڑ جائے گا تو پھر اٹھیں گے اور بھارت کی ناکارہ پولیس کی طرح سوال کریں گے کون تھا ؟ کہاں گیا ؟ کہاں سے آیا تھا ؟ کتنا نقصان ہوا ؟ اپنا خیال رکھو جاگتے ہوئے سویا کرو ۔ کہتے ہیں جب بابری مسجد منہدم ہورہی تھی اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ ( وفات 2004 ) اپنی پوجا پاٹ میں مصروف ہوگئے تھے انہوں نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیدیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے میری پوجا پاٹ میں دخل انداز مت ہونا، پھر وزیر اعظم کی پوجا پاٹ بابری مسجد کے انہدام تک جاری رہی ۔

امت مسلمہ کی تباہی و بربادی کا ایک اہم اور بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے مذہبی قائدین سب کچھ خود ہی کرنا چاہتے ہیں، وہ تقسیمِ کار کے اصول کو ماننے کے لیے تیار نہیں، وہ ”ہمہ دانی“ کے شکار ہیں، وہ تنظیموں کی کرسی صدارت مرتے دم تک نہیں چھوڑیں گے، وہی تحفظ دین کا مشن بھی لیکر چلیں گے، وہی انتخابات کے زمانے میں بتائیں گے کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں ؟ عدالت کی قانونی کارروائیوں کے خلاف بھی وہی ہنگامہ آرائیاں کریں گے، بین الاقوامی سطح پر بھی وہی بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی کریں گے، گورنمنٹ کی سماجی، معاشی، تعلیمی، سیاسی پالیسیاں — جنکو انتہائی ذہین اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر مکار لوگ بناتے ہیں— ان پالیسیوں پر جرح بھی یہ ہی مولانا حضرات کریں گے، ان کے فوائد و نقصانات بھی ہمارے یہ ہی ”فرسودہ مولانا حضرات “ بتائیں گے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ آخر میں اوراد و وظائف کی تلقین کریں گے، ماتھے پہ ہاتھ مارتے ہوئے ”تقدیر کا لکھا مٹا سکتا ہے کون ؟“ کا حوالہ دیکر صاف بچ نکلیں گے، اور بس، اللہ اللہ خیر صلا ۔

ملائیت کی یہ ہی شعبدہ بازی بہت زمانے سے چلی آرہی ہے، علامہ اقبال کے زمانے میں بھی تھی، اس شعبدہ بازی کے خلاف علامہ اقبال نے سخت احتجاج درج کرایا تھا چنانچہ انہوں نے ابلیس کی مجلسِ شوریٰ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس کا آخری شعر یہ ہے کہ

مست رکھّو ذکر و فکرِ صُبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے

مولانا سجاد نعمانی صاحب کا لیٹر پیڑ پیغام آیا تو ہمارے محترم دوست جناب شفیق الایمان ہاشمی (ممبئی) نے ”شرم کرو مولوی صاحب ! شرم “ کے عنوان سے انتہائی سخت، مبنی بر تنقید مضمون لکھا جس کے آخر میں درج ذیل شعر لکھا اور اپنے غم و غصے کا برملا اظہار کیا ۔

دیکھ کر گھاتیں ہماری کہہ پڑا شیطان بھی
دعوائے شیطانیت سے آج میں باز آ گیا

28/ ستمبر 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے