Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ نگار غلام عباس کی حیات اور کارنامے

افسانہ نگار غلام عباس کی حیات اور کارنامے

اردو کے مشہور افسانہ نگار غلام عباس (اصل نام بھی غلام عباس ) 17 نومبر 1909 کو امرتسر ( پنجاب ) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام میاں عبد العزیز تھا۔ غلام عباس نے ابتدائی تعلیم دیال سنگھ ہائی اسکول، لاہور سے حاصل کی۔ ایف۔ اے۔ پنجاب یو نیورسٹی لاہور سے 1944 میں کیا۔ اس کے بعد تعلیمی سلسلہ برقرار نہ رہ سکا۔


غلام عباس کی حالات زندگی اور ادبی خدمات

غلام عباس کی تعلیم و تربیت لاہور شہر میں ہوئی تھی، جو غیر منقسم پنجاب کا سب سے بڑا تعلیمی، سیاسی اور ادبی مرکز تھا۔ لاہور سے اردو کے بہت سے مشہور رسالے اور اخبار شائع ہوۓ تھے۔ غلام عباس نے بھی مقامی رسائل میں لکھنا شروع کیا اور 1922 میں ان کا اولین افسانہ ”بکری“ شائع ہوا۔ غلام عباس نے چودہ برس کی عمر میں روسی افسانہ نگار لیوطالستائی کے افسانے ” جلا وطن“ کا ترجمہ اردو میں کیا تھا، جو جنوری 1925 کے رسالے" ہزار داستان‘ (لا ہور ) میں طبع ہوا تھا۔ انھوں نے انیس برس کی عمر سے فری لانس ادیب اور صحافی کا پیشہ اختیار کرلیا تھا۔ وہ 1928 سے 1937 تک بچوں کے معروف رسالے ” پھول “ اور خواتین کے ہر دلعزیز پرچے ”تہذیب نسواں “ کے نائب مدیر رہے۔ یہ دونوں تاریخی رسالے مشہور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کے زیر نگرانی شائع ہوتے تھے۔


دوسری جنگ عظیم کے دوران غلام عباس آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز حکومت ریڈیو کو جنگی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ غلام عباس ریڈیو کے ماہانہ رسالے ”آواز“ کے مدیر مقرر ہو گئے اور اس کے بعد انھوں نے ریڈیو کا ہندی رسالہ ” سارنگ“ بھی جاری کیا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے اور ریڈیو پاکستان میں تقرر مل گیا۔ یہاں 1928 میں انھوں نے ریڈیو پاکستان کے مجلے ” آہنگ “ کی ادارت سنبھالی اور اگلے سال پاکستان کی مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات میں تعلقات عامہ کے محکمے میں اسٹنٹ ڈائرکٹر کا عہدہ حاصل کرلیا۔ 1949 ہی میں وہ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی۔ بی۔ سی۔ لندن ) میں پروگرام پروڈیوسر کا چارج لیا اب تک غلام عباس اردو کے اہم ادیبوں میں شمار کیے جانے لگے تھے۔ 1952 میں وطن واپس آکر ریڈیو میں دوبارہ آہنگ کی ادارت سنبالی، جہاں سے وہ 1967 میں سبکدوش ہوۓ۔ بی۔ بی۔ ی۔ کی ملازمت کے دوران انھوں نے فرانس اور اچین میں بھی کچھ عرصہ گزارا۔ ان کی شادی 1939 میں علی گڑھ میں اور دوسری 1952 میں ایک انگریز خاتون سے ہوئی تھی۔ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد کی مدت کراچی میں گزاری۔ اس دور میں کناڈا اور امریکہ کے سفر کیے۔ یکم نومبر 1982 کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال ہوا۔ تدفین کراچی ہی میں ہوئی۔

غلام عباس کی تحریریں

اولین تحریر: بکری (افسانہ: 1922)
اولین افسانہ: (مطبوعہ ) مجسمہ، رسالہ کارواں لاہور، 193
اولین مطبوعہ تحریر: جلا وطن (طالستائی کی کہانی )، رسالہ ”ہزار داستان، لاہور، 1924

افسانوی مجموعے: 1۔ آنندی ( دس افسانے)، ناشر: مکتبہ جدید، لاہور، 1948

2۔ جاڑے کی چاندنی (چودہ افسانے)، ناشر سجاد اینڈ کامران پبلشرز، کراچی، جولائی 1960

3۔ کن رس (نو افسانے)، ناشر: المثال، لاہور، 1969

4۔ متذکرہ بالا تین افسانوی مجموعوں کے علاوہ غلام عباس کے پانچ افسانے ایسے ہیں، جو بعد میں شامل ہوۓ اور کسی مجموعے میں شامل نہیں ہیں:

(الف) مجسمہ
(ب) نواب صاحب کا بنگلہ

(ج) رینگنے والے

(۱) روحی

(۰) بندر والا

(۰) گوند نی والا تکیہ

اس طرح غلام عباس کے تحریر کردہ افسانوں کی کل تعداد 40 قرار پائی ہے۔ ان کہانیوں کے علاوہ غلام عباس نے بچوں کے لیے بھی لکھا۔ ترجمے بھی کیے اور ادبی مضامین بھی قلمبند کیے۔ ان کتابوں کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:

1۔ برف کی بیٹی (بچوں کے لیے )، لاہور، 1933
2۔ جزیرہ سخن وراں (طنزیہ )، دہلی، 1941

3۔ دنیا کے شاہکار افسانے، ( تین جلد میں )، حیدر آباد دکن، 23-1922
4۔ جادو کا لفظ (بچوں کے لیے )، لاہور، 1937

5۔ دھنک (مضامین )، کراچی، 1969

6۔ چاند کی بیٹی (ترجمہ ) 1943

7۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی (ترجمہ)، لاہور، 1967

8۔ الحمراء کے افسانے (ترجمہ)

غلام عباس انعامات و اعزازات

غلام عباس اپنے دور کے اہم افسانہ نگاروں وادیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کو کافی انعامات و اعزازات حاصل ہوئے۔ جن

کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:

(الف) پنجاب ایڈ وئری بورڈ پرائز براۓ آنندی، لاہور، 1948

(ب) آدم جی ادبی انعام برائے جاڑے کی چاندنی، پاکستان 1960

(۱) بین الاقوامی فکشن انعام براۓ گلشن (جیکو سلوواکیہ )

(و) آنندی پر شیام بینگل نے فلم منڈی بنائی (ہندوستان )1983


پریم چند کے راستے پر چلنے والوں اور خود اپنا راستہ بنانے والوں میں علی عباس حسینی، سدرشن، حامد اللہ افسر اور اوپندر ناتھ اشک ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے علی عباس حسینی نے تاریخ بنائی ہے۔ ان کے کئی مجموعہ شائع ہو چکے ہیں۔ حامد اللہ افسر نے افسانہ نگاری اور شاعری کے علاوہ بچوں کے ادب کی طرف بھی توجہ دی۔ اشک کے ڈرامے افسانوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ 1936 کے بعد حالات کچھ اور بدلے۔ ترقی پسند مصنفین کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم ہوئی۔ جس نے ادب کو زندگی کا ترجمان اور آئینہ دار بنانے پر زور دیا۔ اس تحریک سے اردو ادب کو بہت تقویت ملی۔ ناول اور افسانے کے تعلق سے سجاد ظہیر، احمد علی، کرشن چندر، منٹو، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، حیات اللہ انصاری، راجندر سنگھ بیدی، عزیز احمد، غلام عباس، حسن عسکری اور احمد ندیم قاسمی نے اردو افسانے کو مالا مال کر دیا۔ ان میں سے ہر ایک کی اہمیت ہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح غلام عباس نے بھی قصہ کے موضوع اور فن دونوں کو وسعت دی اور زندگی کے بہت سے گوشوں کو اپنی کہانیوں میں بے نقاب کیا۔ 1947 کے بعد اردو افسانے نے غیر معمولی ترقی کی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے