Ticker

6/recent/ticker-posts

حضرت محمد ﷺ انقلابی شان کی حامل شخصیت

حضرت محمد ﷺ انقلابی شان کی حامل شخصیت


محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مشہور روایت کے مطابق ۱۲ ربیع الاول (عام الفیل) بعض روایت کے مطابق ۹/ربیع الاول پیر کے دن ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سوسائٹی، معاشرہ اور سماج میں آنکھ کھولی، وہ طرح طرح کی گمراہی اور جہالت میں ڈوبا ہوا تھا ۔ شرک و بت پرستی میں ملوث تھا ۔ شراب عام تھی، معمولی سی کسی بات پر لڑائی سالوں تک چلتی ۔ عرب کے لوگ رحم و کرم سے کوسوں دور تھے، ان کے دل محبت و شفقت سے خالی تھے، جس کے سبب بڑے بڑے جرم کو وہ آسانی سے انجام دیتے تھے، دختر کشی اور شقاوت قلبی ان کے خمیر میں داخل تھی، مشہور شاعر الطاف حسین حالی مرحوم نے ان لوگوں کے سنگ دلی اور دختر کشی کا نقشہ کچھ اس انداز سے کھنیچا ہے:

جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوف شماتت سے بے رحم مادر

پھرے دیکھتی تھی جب شوہر تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جاکر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی

لیکن یہاں اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ دختر کشی یعنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے کی اور خرچ کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے کی عادت صرف بعض قبیلوں میں پائی جاتی تھی جو اپنی دناءت و خست میں مشہور تھے ۔

شراب و کباب کے وہ ایسے رسیا تھے کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا، ان کے لئے مشکل تھا۔ وہ شراب کو چائے و کافی اور دیگر مشروبات کی طرح پیتے تھے ۔

برائیوں کا جب ذہن بنتا ہے، تو اخلاقی اور انسانی حدود مسمار ہوجاتے ہیں، پھر حیا نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ اہل عرب میں بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بے حیائی عام تھی، سوتیلی ماں سے لوگ، باپ کے مرنے کے بعد شادی کرلیتے تھے اور باپ کی منکوحہ اس بیٹے کو وراثت میں مل جاتی تھی،حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ شادی جائز تھی، بیویوں کی تعداد کی کوئی حد نہیں تھی، بے حیائی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی حالت یہ تھی، امرء القیس اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ بدکاری کا قصہ مزے لے لے کر بیان کرتا تھا ۔ اور اس قصیدہ کو خانئہ کعبہ پر آویزاں کیا جاتا تھا ۔

لوٹ مار قتل و غارت گری حرص و ہوس اور چوری ڈکیتی کا رواج عام تھا، لوگ اور بطور خاص مسافر اپنی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتے تھے ۔

قبائلی اور علاقائی عصبیت اور اپنے قبیلے کی بے جا حمایت ان کی شرشت میں داخل تھی ۔ قبائلی عصبیت کی بنیاد پر برسوں ان میں لڑائیاں ہوتیں، چنانچہ بعاث کی مشہور جنگ ایک سو بیس سال تک چلی ۔ بکر اور تغلب کی لڑائی کا نام حرب بسوس ہے، بنیاد اس کی یہ تھی کہ ایک شخص کا اونٹ کھیت میں چلا گیا، کھیت والی عورت نے اسے مارا، اونٹ والے نے عورت کی چھاتی کاٹ ڈالی، جس کی بنا پر نصف صدی تک دونوں قبیلے باہم کشت و خون کرتے رہے ۔

اہل عرب اپنے کو ابراہیمی اور اسمعیٰلی کہتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ توحید سے کوسوں دور ہوچکے تھے ۔ دین حنیفی سے ہٹ کر وہ مذہب کے نام پر مختلف مذاہب کے فرسودہ عقیدہ کا، انہوں نے ایک معجون مرکب تیار کرلیا تھا ۔ بعض تو نیچری بن گئے تو اور سرے سے خدا کا انکار کرتے تھے، بعض خدا کے قائل تھے، لیکن قیامت اور روز جزا و سزا کے منکر تھے، تو بعض خدا اور جزا و سزا کے قائل تھے، لیکن منصب نبوت کے وہ منکر تھے ۔ انہوں نے الگ الگ ضرورتوں کے لئے الگ الگ خدا بنا لئے تھے ۔

غرض یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ان کے اندر ظلم و جبر اور ہر طرح کی رذیل حرکتیں،عادتیں اور خصلتیں پائی جاتی تھیں اور وجدان و شعور اور عقل سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں ۔ لیکن ان میں بعض ایسے اخلاق فاضلہ بھی تھے، جنہیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے ۔ مثلا سخاوت و فیاضی اور جود و سخا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ عربوں کا ایسا وصف اور خوبی تھی، جس میں ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی کوشش کرتے اور اس پر فخر کرتے تھے۔

عربی شاعر ی کا آدھا حصہ یا یہ کہیئے نصف عربی شاعری اسی کی نذر ہوگئے ہیں ۔ اسی فیاضی اور سخاوت و دریا دلی کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے، یہ بذات خود کوئی فخر کی چیز نہیں تھی، لیکن یہ سخاوت و فیاضی کو آسان کر دیتی تھی، کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا اور بانٹنا، انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔

دوسری خوبی ان لوگوں کے اندر وفائے عہد کا تھی، یہ خوبی ان کے اخلاق فاضلہ میں شمار کرنے کے لائق ہے ۔ وعدہ وفائی کو ان کے نزدیک دین کا درجہ حاصل تھا ۔ جس سے وہ بہرحال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی اولاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے، اسے سمجھنے کے لئے ہانی بن مسعود، سموال بن عادیا اور حاجب بن زراراہ کے واقعات کافی ہیں۔

خوداری و عزت نفس ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر قائم رہنا اور ظلم و ستم برداشت نہ کرنا یہ بھی زمانئہ جاہلیت کے معروف اخلاق و کردار میں سے تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کی شجاعت و غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی ۔ وہ فورا بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت و اہانت کی بو آتی شمشیر و سنان اٹھا لیتے تھے۔

عزائم کی تکمیل یہ بھی عربوں کی ایک اہم خصوصیت تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد و افتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیں روک نہیں سکتی تھی وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔

حلم و برد و باری اور شگفتگی، ظرافت و سنجیدگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی زمانئہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی، مگر ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لئے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادر الوجود تھی۔

سادگی اور سادہ رہن سہن یعنی تمدن کی آلائشوں اور داو و پیچ سے ناواقفیت اور دوری ۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں راست بازی ۔ سچائی اور امانت داری پائی جاتی تھی اور وہ فریب کاری و بدعہدی سے دور اور متنفر تھے ۔

مہمان نوازی عربوں کے اندر بہت پائی جاتی تھی، ان کے لئے جتنا کچھ وہ کرسکتے تھے کرتے تھے۔ مہمانوں کی آمد اور کثرت کو وہ اپنے لئے قابل فخر چیز خیال کرتے تھے۔ اس کو وہ کبھی اپنے لئے بوجھ اور زحمت نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کے علاوہ اور بھی دیگر خوبیاں مثلا خاندان کی حمایت و سرپرستی اور خاندان اور افراد خاندان کے لئے ہر ممکن تعاون، مدد،نصرت اور قربانی ان کی خمیر میں داخل تھی۔

وہ خاندان اور افراد خاندان کی عزت و سربلندی اور حمایت کے لئے ہمہ وقت اپنے کو پیش پیش رکھتے تھے ۔ لیکن ان تمام خصوصیات اور خوبیوں کے باوجود ان کے اندر جو منفی کردار برائیاں خامیاں اور ظلم و کرپشن اور انارکی پائی جاتی تھی ۔ اس کی وجہ سے وہ اخلاقی خوبیاں پست اور ہیچ ہو گئ تھیں ۔ان کی برائیاں بہر حال ان کی ان اچھائیوں پر غالب تھیں ۔ ( مستفاد الرحیق المختوم از صفی الرحمن مبارک پوری رح)

اسی طرح ان کے دلوں کی تختیاں صاف تھیں، اس میں پہلے سے کچھ نقوش تحریر اور نقش و نگار موجود نہ تھے، جن کو مٹانا مشکل ہوتا، برخلاف رومیوں، ایرانیوں یا ہندوستانیوں کے جن کو اپنی ترقی، علوم و فنون اور اپنے تہذیب و تمدن اور فلسفہ پر بڑا ناز اور غرور تھا۔ اور اس کی وجہ سے ان کے اندر کچھ نفسیاتی گرہیں اور فکری و ذہنی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی تھیں جن کا دور ہونا آسان نہ تھا، عربوں کے دل و دماغ کی سادہ تختیاں صرف ان معمولی اور ہلکی پھلکی تحریروں سے آشنا تھیں جن کو ان کی جہالت و ناخواندگی اور بدوی زندگی نے ان میں ثبت کردیا تھا اور جن کا دھونا اور مٹانا اور ان کی جگہ پر نئے نقش قائم کرنا بہت آسان تھا، خلاصہ یہ کہ موجودہ علمی اصطلاح میں وہ جہل بسیط یا جہل سادہ کا شکار تھے، اور یہ وہ غلطی ہے جس کا مداوا ہوسکتا ہے، دوسری متمدن اور ترقی یافتہ قومیں جہل مرکب میں مبتلا تھیں جس کا علاج اور تدارک اور اس کو دھو کر کے نئے حروف لکھنے کام بہت دشوار ہوتا ہے۔ عرب اپنی اصل فطرت پر تھے، مضبوط اور آہنی ارادہ کے مالک تھے، اگر حق بات ان کی سمجھ میں آتی تو وہ اس کے خلاف شمشیر تک اٹھانے میں کوئی تکلف نہ کرتے اور حق کھل کر سامنے آجاتا تو وہ اسے دل و جان سے زیادہ محبت کرتے اس کو گلے سے لگا لیتے اور اس کے لیے جان تک دینے میں پس و پیش نہ کرتے۔ انہی وجوہات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جزیرہ عرب میں ہوئی۔۔( مستفاد نبی رحمت از حضرت مولانا علی میاں ندوی رح)

بہر حال مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی جس میں محمد ﷺ کی بعثت ہوئی وہ تاریخ کا بدتریں دور تھا اور انسانیت کے مستقبل اور اس کی بقا و ترقی کے لحاظ سے انتہا درجہ تاریک اور مایوس کن۔۔

لیکن تاریخ گواہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گزرے دور میں اور ایسی بے راہ رو قوم پر محنت کی اور ان کی افراد سازی کی تو پھر یہی لوگ ایک دوسرے کے لیے بہرتین دوست، مخلص ساتھی اور مہربان و خیر خواہ بن گئے کہ دوسرے کے لئے جان دینے لگے اپنے بھائی سے پہلے پانی پینا پسند نہیں کیا، لیکن جان دینا گوارہ گوارہ کرلیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت اور کوشش سے عرب معاشرہ ہی میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں ایک انقلاب آگیا اور ماحول میں ایک انقلابی تبدیلی آ گئی ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کا بنیادی مقصد انسانیت کو مخلوق (غیر اللہ) کی بندگی سے نکال کر خالق( اللہ) کی بندگی میں داخل کرنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت رنگ لائی آپ کی ۲۳ سالہ شب و روز محنت و کوشش کے بعد دنیا کی کایا پلٹ گئ اور ایک عظیم انقلاب برپا ہو گیا ۔آپ کی آمد سے اور فیض صحبت سے صدیوں ٹکرانے والی قوم باہم شیر و شکر ہوگئ، اور پھر آپ کی کوشش سے ایمان والوں کی ایک ایسی جماعت تیار ہوگئ جن کے بارے میں خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں
آپ کی محنت و کوشش اور جد و جہد نے کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی میں پڑی ہوئی قوم کو صراط مستقیم پر لا کھڑا کیا جو رہتی دنیا تک نمونہ بن گئے ۔

سچائی یہی ہے کہ جب آپ کے واسطے سے اللہ تعالٰی نے اسلام کا سورج فاران کی چوٹی سے بلند کیا تو ہر شعبے کو صحیح رخ نصیب ہوا عزت و بلند مقام کے لئے جامع اصول میسر آئے،تہذیب و تمدن اور عالمی امن و امان و شانتی کا انسانیت کو پیغام ملا اور عملی طور پر پہلے عرب اور پھر پوری دنیا امن و امان کا گہوارہ بن گئ ۔ الطاف حسین حالی نے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔

وہ بجلی کا کڑکا تھا ؟ یا صوت ہادی ؟
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی

نئ اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی

پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھا دشت و جبل نام حق سے

ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے