Ticker

6/recent/ticker-posts

مولانا، دلت سماج کی میٹنگ میں

مولانا، دلت سماج کی میٹنگ میں


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450


قارئین کرام، اس عنوان سے تقریباً ایک سال کے بعد آپ حضرات کی خدمت میں آنا ہوا ہے، وجہ یہ ہے کہ پہلی 12/ قسطوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہی کارگزاری تقریباً گزشتہ سال کی تھی، اس لیے اسی کو دہرانا میں نے مناسب نہیں سمجھا ۔

آج کے اس مضمون میں کسی خاص میٹنگ کی روداد کا تذکرہ نہیں کرنا ہے، بلکہ آج کا مضمون مولنواسی حضرات — جنکو ہم دلت چمار کمہار بھنگی پسماندہ طبقات وغیرہ کہتے ہیں — کے اندر کیا چل رہا ہے ؟ ان حضرات کے سماج Community میں کیا کیا تغیرات آرہے ہیں ؟ نظریاتی اعتبار سے ان میں کیا تبدیلی آرہی ہے ؟ پھر ان تبدیلیوں کے سماج پر اور مجموعی طور پر ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے ؟ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان تمام تبدیلیوں سے ہم کیا فائدہ اٹھاسکتے ہیں ؟ یہ مضمون اس قسم کے سوالات کے جوابات پر منحصر ہے ۔

قارئین کرام یہ تو ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو سب تسلیم بھی کرچکے ہیں کہ ”ہندو“ کوئی دھرم نہیں ہے، بلکہ جسکو ہم ”ہندو دھرم“ کہتے اور سمجھتے ہیں اسکا اصل نام ”سناتن دھرم “ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آر ایس ایس اور سناتن دھرم کے ذمے داران ہندو لفظ پر کیوں اتنا زور دیتے ہیں ؟ اور کیوں سب کو بشمول مسلمانوں کو ہندو بنانا چاہتے ہیں ؟ اس کے برخلاف مولنواسی حضرات، ان کے مفکرین اور ان کے لیڈران ہندو لفظ سے کیوں چڑتے ہیں ؟ بابا صاحب امبیڈکر سے لیکر بامسیف کے ذمے داران تک ہر مفکر ہندو لفظ کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، مایاوتی — گوکہ وہ خود آر ایس ایس کے جال میں پھنس چکی ہیں — چندر شیکھر راون — راون کا لاحقہ ہندتوا طاقتوں کو چڑانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے — سمیت تمام لیڈران ہندو لفظ کے خلاف بولتے ہیں ۔ یہ چیز بتارہی کہ اس ملک میں ہندو 85/ فیصد نہیں ہیں جیسا کہ شور مچا مچا کر کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندو اکثریت میں ہیں اس لیے اس ملک کو ”ہندو راشٹ“ بننا چاہیے، بلکہ سچائی اور کچھ ہے ۔ وہ سچائی یہ ہے کہ تمام پسماندہ طبقات کو برہمنوں کے چنگل میں پھنسانے کے لئے اور مسلمانوں سے لڑانے کے لئے ہندو لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسی سچائی کا احساس اب بہت شدت سے پسماندہ طبقات کو ہونے لگا ہے ۔

پسماندہ طبقات کے مفکرین اور ان کے لیڈران کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ فرقے اور کاسٹ کی بنیاد پر مردم شماری کرائی جائے ۔ اگر حکومت اس مطالبے کو مان لیتی ہے تو اس کے یہ نتائج سامنے آئیں گے کہ برہمن 3/ فیصد ہیں اور OBC ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ ۔ اب دوسرا نعرہ سامنے آتا ہے کہ ”جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اسکی اتنی حصے داری“ ۔ تو صاف نظر آرہا ہے کہ اگر حکومت اس مطالبے کو مان لیتی ہے تو آر ایس ایس کی کشتی سپرد طوفان ہوجائے گی ۔ اسی لیے بہت چالاکی سے ذاتوں و فرقوں کی بنیاد پر Cast based senses نہیں کرایا جاتا ۔ خیال رہے کہ 1931 کے بعد سے ذات و فرقوں کی بنیاد پر مردم شماری کرائی ہی نہیں گئی اور اگر کہیں کرائی بھی گئی تو اس کے نتائج چھپالیے گئے، تاکہ برہمن واد کے خلاف جذبات میں مزید طاقت پیدا نہ ہوسکے ۔ ابھی حال میں بہار کے اندر اسی مطالبے کو لیکر ہنگامہ بھی ہوگیا تھا اور پھر وہاں کی دس سیاسی جماعتوں کے وفد نے وزیر اعظم نریندرمودی سے 23 اگست 2021 کو ملاقات بھی کی تھی۔

برہمن ازم کے خلاف مولنواسی نظریے کو پھیلانے کی یہ لوگ کتنی کوششیں کر رہے ہیں ؟ اسکا اندازہ مندرجہ ذیل باتوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ

1۔ ان لوگوں کی محنت کے نتیجے میں کتنے ہی لوگ جو آر ایس ایس سے منسلک ہوگئے تھے — ہٹ گئے، مثلاً حیدرآباد کے ہمارے دوست جناب سید مقصود احمد صاحب نے ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے جسکا نام ہے ”آر ایس ایس کے سیاہ کرتوت “ یہ کتاب در اصل تیلگو زبان سے اردو سمیت مختلف زبانوں میں ترجمہ کی گئی ہے، یہ کتاب آر ایس ایس کے سابق کارکن کے پچھتاوے پر مشتمل ہے، اس کتاب میں آر ایس ایس کی اندرونی حرکتیں بتائی گئی ہیں کہ آر ایس ایس کس طرح قتل اور بم دھماکے بھی کراتی ہے ؟ آر ایس ایس کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔ اسی طرح بھیل واڑہ ( راجستھان ) کے بھنور میگھونشی صاحب جنہوں نے حال ہی میں The wire کو انٹرویو دیا اور آر ایس ایس کی پول کھولی — انہوں نے بھی ”میں ایک کار سیوک تھا “ نامی کتاب لکھی اس کا ترجمہ انگلش میں I could not be Hindu سے ہؤا ۔ اسی طرح بامسیف میں بہت سے لوگ ہیں جو وہاں سے واپس آئے اور انہوں اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا آر ایس ایس کی مخالفت کو بنالیا اور وہ لوگ اپنے سماج کو سمجھا رہے کہ ہم ہندو نہیں ہیں، وہ مختلف نعروں کے ذریعے اپنے نظریات کو اپنے سماج میں پھیلا رہے ہیں مثلاً

بول پچاسی، مولنواسی، برہمن ودیسی
ووٹ ہمارا، راج تمہارا، نہیں چلے گا نہیں چلے گا

ڈی این اے کے آدھار پر سی اے اے (NPR) کراؤ
ڈی این اے کی جو بات کریگا وہی دیش پے راج کریگا

نئی روشنی چھائی ہے، مسلم ہمارا بھائی ہے
ڈی این اے کو آدھار بناؤ، بھائی برہمن یوریشیا جاؤ

اس قسم کے نعرے آر ایس ایس کی راہ کو تنگ اور گھر کو اجاڑ رہے ہیں، کاش کہ مسلم دانشوران، تنظیمیں آر ایس ایس اور ہندتوا کے خلاف اٹھنے والی ان آوازوں کو سمجھیں اور ان کو مزید طاقت دیں ۔

2۔ مولنواسی سنگھ کے قومی صدر NAYANALA KRISHNA RAO اگست کے مہینے میں دہلی آئے انہوں نے ایک پروگرام میں بتایا کہ کہ آج میں آندھراپردیش میں کیبنیٹ منتری ہوتا، مگر میں نے برہمن واد کے خلاف مولنواسی نظریے کو پھیلانے کے لئے وہ سب کچھ چھوڑ دیا ۔

3۔ پچھلے دس سالوں میں مولنواسی نظریات سوشل میڈیا کے ذریعے اس قدر تیزی سے پھیلے ہیں کہ بامسیف کے کارکن ناگپور کے ہیڈکوارٹر سے نکل کر بھارت کے گاؤں دیہات میں پہنچ گئے اور گاؤں و تحصیل کی سطح پر یونٹس بن گئی ہیں۔

4۔ کتنی ہی جگہوں پر پسماندہ طبقات کے نوجوان اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے بھڑ گئے اور بھرپور مقابلہ کیا، ابھی حال ہی میں راشٹریہ سہارا اخبار نے صفحہ اول پر ایک خبر چھاپی جسکی سرخی تھی کہ کرناٹک میں دلتوں کا مندر پر قبضہ، نیلا جھنڈا لہرایا ۔ تحقیقات کے مطابق کولار ضلع کے کسی گاؤں میں بھوتیما میلہ تھا وہاں چیتن نامی دلت بچہ مندر میں داخل ہوگیا، اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے مندر کو ناپاک کرنے کا الزام لگایا، بچے کو مارا پیٹا اور مندر کو پاک کرنے کا بہانہ کرکے اس خاندان پر 60 ہزار روپے جرمانہ عائد کردیا ۔ آس پاس کے دلت حضرات طیش میں آ گیے، غصے میں آکر مندر پر چڑھ دوڑے اور اس پر قبضہ کرکے نیلا جھنڈا لہرادیا ۔ یہ ایک بہت بڑا واقعہ ہے اس واقعے سے پسماندہ طبقات کے اندر کی بے چینی اور ہندتوا کے خلاف جذبات کو سمجھا جاسکتا ہے، کاش کہ مسلم دانشوران اس تعلق سے اپنی پالیسیاں بنائیں اور ہندتوا کی راہ کو مزید طاقت کے ساتھ روکیں۔

5۔ بابا صاحب امبیڈکر کے نام سے آپ پسماندہ طبقات سے رابطہ قائم کریں ہندتوا کی حقیقت خود بابا صاحب امبیڈکر کی زبانی بتائیں، آپ یقین جانیے ہندتوا کا بخار فوراً اتر جاتا اور یہ لوگ اپکو اپنا محسن سمجھنے لگتے ہیں، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔

راقم کو پسماندہ طبقات کے ساتھ کام کرتے ہوئے تقریباً 5/ سال ہوگئے، میرا خیال ہے کہ یہ لوگ آج بھی مساوات اور عزت نفس کو ڈھونڈ رہے ہیں، دونوں ہی چیزیں ہندو دھرم میں ناپید ہیں ۔ جبکہ اسلام مذکورہ دونوں چیزوں کو بہت اہمیت دیتا ہے، اسلام ہر انسان (صرف مسلمان نہیں ) کو خدا کا بندہ قرار دیتا ہے اور ہر انسان کی جان و مال کو محترم قرار دیتا ہے ۔ اسلام کا یہ ہی نظریہ ہمارے لیے بہت بڑی طاقت ہے اور ہم کو ابھارتا ہے بلکے ذمے داری عائد کرتا ہے کہ ہم ان غریبوں کا ساتھ دیں، مسلمانوں نے 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں سکھوں کا بھرپور ساتھ دیکر انکو اپنا بھائی بنالیا اور آج مسلمان پنجاب میں نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ ابھرتے بھی جارہے ہیں۔

افسوس صد افسوس

ایک ایسے وقت میں جبکہ آر ایس ایس کے خلاف پسماندہ طبقات کے مفکرین اور ان کی تنظیمیں انتہائی طاقتور طریقے سے اور منظم انداز میں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور یہ لوگ مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں، تو ہماری مذہبی و غیر مذہبی قیادت آر ایس ایس اور بی جے پی سے ملاقاتیں کر رہی ہے، رام کی عزت و تکریم کا اعلان کیا جارہا ہے جبکہ کسی زمانے میں دلتوں نے یہ نعرہ دیا تھا کہ ”ملے ملائم اور کاشی رام، ہوا ہوجائے گا جے شری رام “ ۔ یہ سراسر پسماندہ طبقات کی قیادت کو ناراض کرنا ہے، ان کی محنت پر پانی پھیرنا ہے، یہ ایک مصیبت نکل نکل کر دوسری مصیبت میں پھنس جانا جیسا ہے اور حد درجہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جسکی مرضی میں آئے، جب چاہے ملاقات کرلیتا ہے، نہ کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ معملات issues کی بامعنی تیاری ہے، نہ اندرون ملت ان پر بحث و مباحثہ ہے، نہ ملت کسی ایک قائد پر متحد ہے ۔ مزید افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری قیادت نے ابھی تک توازن Balance نہیں کیا، یعنی پسماندہ طبقات کی قیادت سے ملاقاتیں نہیں کی ۔
3/ اکتوبر 2022

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے